پاکستانی سیاست اور ’’علی بابا چالیس چور‘‘

کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں چالیس چور ہمیشہ وہی رہتے ہیں ،بس علی بابا تبدیل ہوتا ہے۔ یہ مثال بالکل غلط ہے ، پاکستانی سیاست میں اس کہانی کا حوالہ دیکر ثابت یہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکمران وقت (علی بابا)اورا سکے حواری (چالیس چور) ملکر (قومی) خزانہ لوٹتے ہیں ۔ لیکن اصل کہانی مختلف ہے جس میں چالیس چورتو علی بابا کی جان کے دشمن ہوتے ہیں ۔انہوں نے کبھی بھی ملکر دولت نہیں اڑائی تھی بلکہ ایک دوسرے سے چوری چھپے کاروائی کیا کرتے تھے۔ چالیس چور لوگوں سے دولت لوٹتے تھے اور وہ تمام دولت پہاڑوں کے بیچ ایک غار میں چھپا دیتے تھے ،چوروں کو جب پتہ چلتا ہے کہ انکی لوٹی ہوئی جمع شدہ دولت علی بابا کے علم میں آ گئی ہے تو وہ اسے مار دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔چوروں کا سردار بھیس بدل بدل کر آتا ہے لیکن ہر بار اسے ناکامی ہوتی ہے۔ بھلا ہو علی بابا کی خاندانی ملازمہ مرجینا کا، جس نے کمال ہوشیاری سے علی بابا کو قتل کرنے کے لئے آنے والے ڈاکووں کو مار ڈالا۔ اسی خدمت کے صلے میں علی بابا نے مرجینا کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا وریوں ایک ملازمہ اپنی ہوشیاری اوروفاشعاری کے باعث گھر کی مالکن بن گئی۔ اور چوروں کی لوٹی ہوئی جمع شدہ دولت علی بابا کو مل گئی۔اب اس کہانی کو پاکستانی سیاست میں بطور مماثلتی حوالہ پیش کرناواقعاتی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ کیونکہ غار میں جو دولت چھپی تھی وہ نہ چوروں کی تھی اور نہ ہی علی بابا کی بلکہ وہ عوام سے لوٹی ہوئی تھی۔ہم اسے آج کی اصطلاح میں قومی خزانہ کہہ سکتے ہیں ۔اس خزانے پر حق نہ تو چوروں کا ہے اور نہ ہی علی بابا کا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ ہمارے یہاں علی بابا اور چالیس سے زائد چوروں کا باہم گٹھ جوڑ ضرورہوتا ہے ۔وہ قومی خزانے کے شراکتی اور ملکیتی دعویدار ہوتے ہیں ۔قوم کی دولت سے بھرا ہوا خزانہ خالی ہونے لگے تو عوام سے وصولیوں کی شرح اور بڑھا دیتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔خزانہ بھرا رہے اور انکی اخراجات و عطا کی صوابدید پر کوئی آنچ نہ آئے۔ظاہرہے اس نظام گٹھ جوڑ پر تنقید بھی ہوتی ہے، علی بابا چوروں کو راہ راست پر آنے یا لانے کی بات کرے تو اسے سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چور اسے اپنا سردار یا حاکم ماننے سے انکار کی دھمکی دیتے ہیں۔اور سیاسی بلیک میلنگ کے باعث علی بابا نہ چاہتے ہوئے بھی چوروں کے ساتھ ملکر دولت اڑانے میں مصروف رہتا ہے۔ اب اس سارے تمثیلی بیان کے تناظر میں اپنے پارلیمانی نظام حکومت پر نظر ڈالیں تو وزیر اعظم اپنے ہی مشیر اور و زرا کے ہاتھوں سیاسی بلیک میلنگ کا شکار ہوتے نظر آئیں گے۔اس صورتحال کو سمجھنے کے لیئے پرویز مشرف دور میں جمہوریت بحالی کی کوششوں سے مثال دی جا سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے جمہوری اداروں کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا، عام انتخابات ہوئے ، قاف لیگ کی سائیکل نے ریس جیت لی۔ لیکن اپنا وزیر اعظم بنانے کے لیئے کچھ ووٹ مزید درکار تھے ۔راتوں رات پیپلز پارٹی پارلیمنٹیریئنزسے چند سرفروش مخدوم فیصل صالح حیات کی سربراہی میں ایک گروپ کی صورت میں نمودار ہوئے ، گروپ کا نام پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز پٹریاٹ طے کیا، اور وزیر اعظم کے مقابلے میں ظفراللہ خان جمالی کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔اس سارے عمل کے دوران کہانی کار نے فلور کراسنگ کی آئینی پابندی کو معطل رکھا تاکہ پرائی دیوار سے اڑ کر آنے والے پرندوں کو کوئی قانونی دشواری نہ ہو۔کہانی کار اور ڈائریکٹر کی جانب سے یہ ساری کاوش اتنی کیلکولیٹڈ تھی کہ اگلے روز جب وزیر اعظم کے انتخاب کے لیئے ووٹ ڈالے گئے تو سکرپٹ کے عین مطابق میر ظفر اللہ خان جمالی ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ۔انکے دور میں بھی جب آٹا اور چینی کا بحران آیا تو پتہ چلا کہ اس بحران کے اصل ذمہ دار اور بینیفشری تو جمالی صاحب کی کابینہ میں انکے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہیں ۔جمالی صاحب چونکہ درویش منش بھی تھے سو انکی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ انکی حکومت پر یہ داغ لگے ۔ چناچہ انہوں نے اپنے وزرا سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا ۔وزیروں کی جواب طلبی پر جمالی صاحب کو ایک ہی بات سننے کو ملی کہ، جمالی صاحب مت بھولیئے کہ آپ صرف ایک ووٹ کے وزیر اعظم ہیں ۔اس بات پر جمالی صاحب اپنے سیاسی قائد کی بات ’مٹی پاو‘ پر عمل کرتے اور حکومت آگے چلاتے رہے۔ تاوقت کہانی کاروں نے علی بابا کو بدلنے کا فیصلہ کیا مگرچالیس سے زائد وزیر وہی رہے ، جمالی صاحب کی جگہ تھوڑی مدت کے لیئے چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز وارد ہو گئے۔ پاکستانی سیاست میں واقعی علی بابا ایسے ہی تبدیل ہوتا رہاہے۔جبکہ چالیس چور بھیس بدل بدل کر ہر دور میں منظر عام پر رہے ہیں ۔موجودہ سیاسی صورتحال میں بھی سربراہ حکومت نیک خواہشات کے باوجود انہیں عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔وہ چالیس افراد جو ہر دور میں اپنے پتے کھیل جاتے ہیں وہ جانتے ہیںکہ علی بابا کی حکومت انکے ووٹوں کی مرہون منت ہے۔اور آج کا علی بابا ان طاقتوں کے سامنے مجبور ہے۔علی بابا کو اپنے ہی حواریوں کی سیاسی بلیک میلنگ سے بچانے کے لیئے کہانی کار اب نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ مقننہ کو bicameral کی بجائے unicameral ہونا چاہیئے ۔ یعنی دو ایوانوں کی بجائے ایک ایوان ہو اور سربراہ مملکت ہی سربراہ حکومت ہوجسے عوام براہ راست منتخب کرے۔ اسے صدارتی نظام حکومت کا نام دیا جا رہا ہے۔ جس میں فیصلہ سازی کا مکمل اختیار صدر کے پاس ہو گا ، جو اراکین اسمبلی کے ووٹوں سے نہیں بلکہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اپنے منصب پر آئے گا یوں علی بابا پر چالیس چوروں کی بلیک میلنگ کا راستہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن اس نئے مجوزہ نظام میں بھی اگر علی بابا کے حرم میں کوئی ہوشیار، جانثار اور وفا شعار’ مرجینا ‘ نہ ہو گی تو علی بابا مارا جائے گا ۔اور چالیس چور ہی قومی خزانے پرراج کرتے رہیں گے۔کہانی کار کا یہ نیا پلاٹ بھی فلاپ ہو جائے گا اور پھر ملک و قوم کوایک دفعہ پھر کسی نئے تجربے کے لیئے استعمال کیا جائے گا ۔
آگے جانا ہے تو راہوار بدلنا ہونگے
ہم کو معیاروں کے معیار بدلنا ہونگے