سانحۂ مری پر میرے ایک دوست کا تجزیہ
حادثے کبھی پوچھ کر یا پیشگی اطلاع دیکر نہیں آتے بلکہ یہ معاملہ فقط اس خبیر و بصیر کا ہے جو ہر شے پہ قادر ہے۔ حادثات دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں ان حادثات کی شرح اس لئے بھی زیادہ ہے کہ من حیث القوم ابھی تک ہم وہ بنیادی منصوبہ بندی اور قومی حکمت عملی ہی تیار نہیں کر پائے جن سے قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خامی ہی یہ ہے کہ آزادی کے 75 برس گزارنے کے باوجود ابھی تک ہم گوروں کا عطا کردہ وہ نظام زندگی چلا رہے ہیں جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اغراض و مقاصد کی کوئی ہلکی سی جھلک بھی واضح طور پر نظر نہیں آرہی۔ آج وہی ’’صاب بہادر‘‘ جو خود تو لفظ Sir کے استعمال کو دفتری زبان سے نکال کر صرف Mr تک لے جا چکا ہے‘ مگر ہمارے کوچوان‘ ٹرک‘ رکشہ‘ ٹیکسی ڈرائیورز اور ہر ادارے کے کارکن اور افسر سمیت گداگروں تک نے اس لفظ ’’Sir‘‘ کے ساتھ اضافی لفظ ’جی‘ لگا کر چوبیس گھنٹے اس کا وہ حشر کیا ہے کہ گورے تک پریشان ہیں۔ ایک انکوائری کے سلسلہ میں حال ہی میں لاہور گیا‘ میرا ایک گورا دوست لفظ ’سرجی‘ کے بارے میں بتا رہا تھا کہ وہاں اس نے انگلش کے مفہوم سے واقف اور نہ واقف ہر اس ملازم‘ فروٹ فروخت کرنیوالے اور حتیٰ کہ راہ چلتے افراد کو ایک دوسرے سے ہمکلام ہونے سے قبل یہ لفظ استعمال کرتے سنا اور دیکھا۔ وہ حیران تھا کہ ’سرجی‘ کی ادائیگی پر ہر شخص اپنے آپ کو مہذب ظاہر کررہا تھا جبکہ زیادہ تر پڑھے لکھے افراد تک کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ یہ لفظ کب‘ کہاں اور کیوں استعمال کرنا ضروری ہے۔اس دوست نے لفظ ’سرجی‘ کا آغاز درحقیقت حالیہ سانحۂ مری پر مجھ سے تعزیتی ریمارکس کے دوران کیا اور یوں ہماری گفتگو کا رخ پاکستانی تہذیب و ثقافت‘ قومی زبان‘ انگریزی سے محبت‘ سیاحت اور بیوروکریسی کے دبائو سے ہوتا ہوا حادثات کی نوعیت تک جا پہنچا۔ سانحۂ مری پر دوست بھی مغموم تھا‘ اس کا استدلال تھا کہ پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں حادثات کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ اس کا کہنا تھا معاف کیجئے پاکستان میں ہر محکمہ اور ادارہ ہونے کے باوجود فوری اقدامات تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب محکمے موجود ہیں تو ہنگامی طور پر حادثات سے نمٹنے کیلئے انکے پاس مشینری کیوں دستیاب نہیں۔ محکمہ موسمیات نے خراب موسم اور برفانی طوفان کی پیشگی اطلاع دے رکھی تھی تو پھر فوری ایکشن پلان کیوں فوری طور پر حرکت میں نہ لایا گیا؟میرا یہ تجزیہ درست نہیں؟ دوست نے مجھ سے پوچھا! تجزیے کا ایک حصہ درست ہے‘ مگر آپکی سوچ کا محور صرف اداروں کے گردگھوم رہا ہے جبکہ متاثرہ سیاحوں کے برف باری کے حسین مناظر دیکھنے کے پس پردہ انکے لطف اندوز ہونے کی وہ خواہشات اور ضد بھی شامل ہے جس نے انکے حسین خوابوں کو پل بھر میں ہمیشہ کیلئے سلا دیا۔ محکمہ موسمیات نے برفانی طوفان کی جب پیشگی اطلاع دے رکھی تھی تو سیاحوں اور برف باری سے لطف اندوز ہونے والوں نے اپنے بچوں سمیت مری کا رخ آخر کیوں کیا؟ وہ یہ جانتے تھے کہ طوفانی موسم میں مری کے بیشتر ریستورانوں اور ہوٹلوں کے چارجز کس طرح آسمان سے باتیں کرتے ہیں؟ انہیں یقینی طور پر یہ بھی معلوم تھا کہ شدید برف باری میں پھنسی گاڑیوں کو دھکیلنے اور چین مہیا کرنے کے کس طرح منہ مانگے روپے مانگے جاتے ہیں؟ 22 افراد جن میں ننھے بچے بھی شامل تھے‘ کاربن مونو اکسائیڈ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ ایک ایسا اندوہناک غم ہے جو مالی امداد یا انکوائریاں کرنے سے اب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ میں نے دوست کے ابتدائی تجزیے کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہنگامی صورتحال سے فوری نمٹنے والے اداروں کو وہ افسران اور اہلکاران اس وقت کہاں تھے جن کا فرض سیاحوں کی مشکلات کا فوری ازالہ اور مری کے گرد و نواح کی ماحولیاتی سہولتوں کو یقینی بنانا تھا۔ یہ سہولتیں بھی افواج پاکستان نے ہی اگر مہیا کرنی ہیں تو پھر دیگر محکموں کا فائدہ؟ جس سیاحتی مقام پر سیاحوں کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پانچ وقت کے نمازی پانی کی ایک بوتل 300 روپے میں‘ انڈہ ایک ہزار روپے میں اور ہوٹل کے ایک سنگل روم کا کرایہ 30 سے 50 ہزار روپے تک لیتے ہوں‘ ایسے حالات میں رحمت خداوندی کی توقع رکھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ گورا دوست میرا نقطہ نظر شاید اس لئے بھی توجہ سے سن رہا تھا کہ اس کا پاکستان کا حالیہ تجربہ بھی میرے مذکورہ نقطہ نظر سے ملتا جلتا تھا۔ ’کافی‘ کا آخری گھونٹ وہ پی چکا تھا اور اب اسے اجازت لینا تھی جبکہ میں بھی یہی چاہ رہا تھا کہ اپنا پیٹ مزید ننگا ہونے سے جہاں تک ممکن ہو بچالوں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر محکمہ ہی ابتر ہے‘ پولیس‘ محکمہ مال‘ محکمہ جنگلات‘ جیل خانہ جات‘ ایف آئی اے اور آب و برق میں اگر کچھ گندی مچھلیاں پائی جاتی ہیں تو ان میں ’’اللہ والوں‘‘اور فرض شناس افسران اور اہلکار کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔اسی مری میں بعض خدا ترس لوگوں‘ اور فلاحی اور سماجی تنظیموں نے متاثرین کو برفانی طوفان سے محفوظ مقامات پر پہنچانے میں تاریخی کردار ادا کیا جس پر وہ صرف دعائوں کے حقدار ہیں۔