نظام کی تبدیلی ہی مسائل کا حل
یہاں 70ء کی دہائی کے بعد سے سیاست پر جاگیرداروں اور صنعت کاروں کا مکمل قبضہ ہے اور سیاست میں دولت کا عنصر اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ عام آدمی کے لئے کونسلر کی نشست جیتنا بھی ممکن نہیں رہا اور ملک کا اقتدار مکمل طور پر دولت مندوں کے قبضے میں آچکا ہے۔ سابقہ ہوں یا موجودہ‘ تمام حکمران سیاسی جماعتیں دولت کے بل بوتے پر سیاست کررہی ہیں ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں ہارس ٹریڈنگ سمیت اکثریت مسائل کا حل ممکن ہی نہیں۔
انتخابی نظام میں اصلاحات کرکے سب سے پہلے تو ہر سیاسی جماعت کو پارٹی الیکشن کا پابند کیا جائے اور انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں جس سے کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوگا اور ملک بھر میں ہر پارٹی کو اسکی مقبولیت کے مطابق نمائندگی ملے گی۔ متناسب نمائندگی میں دولت کا عنصر سیاست پر اثرانداز نہیں ہوسکے گا اور ہر پارٹی کے منشور کو ووٹ ملے گا اور ہر پارٹی انتخابات سے قبل اپنے امیدواروں کی لسٹ شائع کرے گی اور انتخابات سے دولت کا عمل دخل مکمل طور پر ختم ہوسکے گا۔ موجودہ ہر صوبائی اسمبلی کی نشست کے ایریا کو قومی اسمبلی کی نشست قرار دیا جائے اور ہر قومی اسمبلی کی نشست میں 2صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جائیں تاکہ عوام اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی پاسکیں۔ سیاست پر دولت مندوں کا مکمل قبضہ ہے اور مخصوص خاندان ملک بھر کے ایوان اقتدار پر قابض ہیں اور یہی مخصوص خاندان ہر حکومت میں لبادہ تبدیل کرکے شامل رہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنی دولت کا تحفظ ہوتا ہے‘ تھانے اور پٹوار خانے پر ان خاندانوں کا مکمل قبضہ رہتا ہے اور یہ لوگ سیاست پر خرچ کی گئی اپنی دولت منافع سمیت وصول کرتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ قومی اثاثے اپنے من پسند افراد کو اونے پونے فروخت کرکے پھر ان لوگوں سے اپنی سیاست کے لئے اخراجات وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مخصوص خاندانوں کا مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے اور نظام کی تبدیلی سے ہی سیاست سے دولت کا عنصر ختم کیا جاسکتا ہے۔
ملک بھر میں برطانیہ کی طرز کا بلدیاتی نظام رائج کرکے ترقیاتی منصوبوں کی تشکیل اور تکمیل بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہو البتہ مقامی ترقیاتی بورڈ میں اس علاقے کے اراکین اسمبلی اور ڈپٹی کمشنرز بھی ممبر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی ہدایت کے مطابق خرچ ہوں۔ اس وقت بلدیاتی نظام میں منتخب نمائندوں کو اختیارات حاصل نہیں ہیں۔بلدیاتی انتخابات ہر حالت میں مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں اور بلدیاتی اداروں کی مدت 4سال ہونی چاہئے۔ برطانیہ طرز کا نظام ہی بنیادی عوامی مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے۔یہی نظام ملک بھر میں یکساں نافذ کرکے تمام ناظمین کا برا ہ راست انتخاب ہونا چاہئے ۔ بلدیاتی نظام کو ایسا آئینی تحفظ دیا جائے کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بلدیاتی نمائندے بااختیار رہ کر اپنی آئینی مدت ہر صورت پوری کریں اور اس نظام کو وفاقی و صوبائی حکومت نہ چھیڑ سکے۔اپوزیشن اور حکومت مل کر متفقہ آئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی نظام کو مکمل تحفظ بھی دیں اور ہر صورت بروقت‘ باقاعدگی کے ساتھ بااختیار بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔
ہمارے ہاں انتخابی‘ عدالتی اور انتظامی نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے اور موجودہ نظام میں رہتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ملک کے ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنایا جائے ۔ سندھ‘ پنجاب اور کے پی اور بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے فی ایک کروڑ آبادی کا ایک انتظامی صوبہ بنایا جائے اور انتظامی صوبوں کا نام لسانی بنیاد پر نہ ہو کیونکہ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں پر ہونے کی وجہ سے ہم بدقسمتی سے اب تک ایک قوم نہیں بن پائے۔ ہر ایک کروڑ کی آبادی کو انتظامی صوبہ بناکر وہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بنچ کا قیام عمل میں لایا جائے اور ججوں کی تعداد دوگنی کردی جائے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف مل سکے اور قانون سازی کرکے دیوانی مقدمات ایک سال اور فوجداری مقدمات 6ماہ اور نیب کے مقدمات کا فیصلہ بھی ایک سال میں ہوجانا چاہئے اور جب تک ملزم عدالت میں باقاعدہ ’’مجرم‘‘ ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گرفتاری کسی صورت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ الزام کی بنیاد پر طویل عرصے تک کسی کو قید رکھنا اور بعد میں اس کا بے قصور ثابت ہوجانے کے واقعات عام ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور ملزم کو گرفتار کرکے اس کی عزت اچھالی جاتی ہے۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بھی اپیل پر 3ماہ میں فیصلہ کردیں۔ انصاف میں تاخیر بھی ایک جرم ہے۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر مجسٹریٹ عدالتیں قائم کی جائیں۔ ہر انتظامی صوبہ کو آبادی کے تناسب سے وفاق کی جانب سے براہ راست ترقیاتی فنڈز ملنے چاہئیں ۔
موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور عوام کو اس سے بہت توقعات تھیں اسی لئے نظام کی تبدیلی کی جانب تیز تر پیشرفت بہت ضروری ہے لیکن موجودہ حکومت کے پاس اسمبلیوں میں اس قدر اکثریت نہیں ہے جس سے اہم قوانین منظور ہوسکیں اور اپوزیشن سے بھی بات چیت سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اہم ترین قومی معاملات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے تمام جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر ایسے مسودے پر دستخط کریں جس سے فوری طور پر ملک میں انتظامی‘ عدالتی اور بلدیاتی نظام تبدیل ہوسکے۔