جمعرات، 16 جمادی الثانی 1443ھ، 20 جنوری 2022ء
فواد چودھری ہمت کرکے نام بتائیں: خاقان عباسی
آجکل سیاسی میدان میں حکمران جماعت کے ترجمان 4 یا پانچ باغی ارکان کا ذکر کرکے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے پیروں تلے سے قالین کھینچ رہے ہیں۔ ان کے تواتر سے اس قسم کے جارحانہ حملوں سے تو عوام بھی اس بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ ان میں بھی تجسس پیدا ہو رہا ہے کہ ذرا معلوم تو کریں کہ کون ہیں‘ وہ چوکے اور پنجے جو مسلم لیگ (نواز) میں بازی پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ اگر شریف برادران کے چار یکے میدان سے نکل گئے تو بازی کسی اور کے ہاتھ میں آسکتی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری سیاست میں خاص طورپر مسلم لیگ کی سیاست میں یہ کھیل کبھی کنونشن لیگ کے کبھی جونیجو لیگ کے ‘ کبھی نواز لیگ‘ کبھی (ق) لیگ‘ اور نجانے کون سی لیگوں کے نام پر کھیلا جاتا رہا ہے۔ اب ایک بار اور سہی۔ اب دیکھتے ہیں نواز لیگ کے بطن سے کون سی لیگ جنم لیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے بھی چوکنا بیٹھے ہیں کہ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کہتے ہیں؎
کبھی ہم نے کسی کو کاٹا کبھی تم نے کسی کو کاٹا
یہ پیار میں سودے بازی تماشہ ہے تماشہ
سو یہ تماشہ ہماری سیاسی گلی میں چلنے والا ہے۔ عوام کی تفریح کیلئے شاید اس طرح حکمران عوام کی توجہ مہنگائی‘ غربت اور دیگر قومی مسائل سے ہٹا کر انہیں خوش کرنا چاہتے ہیں۔ تو پھر چلنے دیں یہ نوٹنکی‘ ہمیں بھی عوام کی خوشی زیادہ عزیز ہے۔ مسائل کو گولی ماریں‘ وہ کب کم ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
انٹرنیشنل باکسر وسیم خان کا باکسنگ فیڈریشن پر رشوت لینے کا الزام
امید ہے حکومت اس الزام پر باکسنگ فیڈریشن سے باز پرس کرے گی اور جن عہدیداروں نے ان کی آمدنی سے 20 فیصد بطور رشوت وصول کیا ان کو الٹا ٹانگے گی۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک عالمی باکسر اپنی ملکی فیڈریشن کا کچا چٹھا کھول کر بیان کر رہا ہے۔ پہلے یہ بات دبے دبے لفظوں میں کہی جاتی رہی اب کھل کر انہوں نے جب ذکر کر ہی دیا ہے تو ایکشن لینا ضروری ہے۔ ایک عالمی کھلاڑی کے ساتھ باکسنگ فیڈریشن ایسا سلوک کر سکتی ہے تو باقی کھلاڑیوں کے ساتھ اس کا رویہ کیا ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اچھے اچھے باکسر اس میدان سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چائے کا ڈھابا چلاتا ہے کوئی منڈی میں محنت مزدوری کرتا ہے کوئی رکشہ چلاتا ہے کیونکہ ’’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘‘ شوق سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اگر باکسنگ فیڈریشن ہمارے اچھے باکسروں کی سرپرستی کرتی تو آج وہ سب بھی محمد وسیم کی طرح عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے۔ افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ فیڈریشن والے سرپرستی کی بجائے الٹا باکسروں سے ان کی کمائی کا 20 فیصد بطور رشوت طلب کرتے ہیں۔ امید ہے باکسر وسیم ان کے نام سامنے لا کر انہیں عدالت کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کریں گے۔ مگر شاید ایسا کرنے کے بعد پوری باکسنگ فیڈریشن ہی نہیں وزارت کھیل بھی اس کی دشمن بن جائے گی۔
٭٭٭٭
بھارتی یوم جمہوریہ پر خالصتانی پرحم لہرانے والے کے لیے ایک ملین ڈالر کا انعام
سکھوں کی عالمی تنظیم سکھ فار جسٹس خالصتان تحریک چلانے اور خالصتان کے قیام کے لیے دنیا بھر میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے خالصتان کے لیے ریفرنڈم دنیا بھر میں کرایا جا رہا ہے جس میں سکھ خالصتان کے قیام کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اب اسی تنظیم نے ایک اور بڑا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 26 جنوری کو دہلی میں بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں جو شخص خالصتان کا پرچم لہرائے گا اسے ایک ملین ڈالر انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو شخص بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا راستہ روکے گا اسے بھی انعام دیا جائے گا۔ یوں دیکھتے ہیں اب انعام کا اعلان کتنے جذباتی لوگوں کے جذبات کو مہمیز کرتا ہے۔ سکھ نوجوان پہلے ہی کسان تحریک میں خالصتانی پرچم لال قلعے کی دیوار پر نصب کر چکے ہیں۔ اگر اس اعلان کے بعد سر پھروں کے کسی گروہ نے دہلی میں یوم جمہوریہ کی تقریب میں ہنگامہ آرائی کی ، مودی کی راہ روکنے کی کوشش یا پرچم لہرانے کی کوشش کی تو یہ بات بگڑ بھی سکتی ہے۔ کاش ایسے ہی اعلان دیگر علیحدگی پسند تحریکوں کی طرف سے بھی ہوتے تو شاید خوب رنگ جمتا۔ سکھ جانتے ہیں کہ وہ سماجی طور پر بھی مضبوط ہیں اور فوج میں بھی بہت ہیں اس لیے بھارتی حکومت ان سے پنگاہ نہیں لے سکتی۔
٭٭٭٭
پاکستان میں پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر بن گئی
سچ کہتے ہیں محنت اور لگن سے ہر منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ بس انسان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ ہو۔ یہ نہیں ہوتا‘ یہ نہ ہو جائے‘ کام نہ کرنے کے بہانے ہوتے ہیں ورنہ
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
ہمارے ہاں بدقسمتی سے خواجہ سرا ہونا ایک جرم ہے حالانکہ اس میں کسی بچے کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ جنس کا تعین تو اوپر والے کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اگر تیسری جنس والا بچہ ہے تو والدین اسے کیوں تباہی اور بربادی کی راہ پر ڈالنے کیلئے خود سے الگ کر دیتے ہیں۔ اگر ان جیسے بچوں کی نشوونما والدین کے پاس ہو تعلیم و تربیت ہو تو یہ بھی معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔ کراچی کی سارہ گل اس کی منفرد مثال ہے۔ جسے والدین نے پہلے دل سے قبول نہیں کیا مگر اس نے ہار نہیں مانی‘ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے لوگوں کی باتیں سننے کے باوجود بالآخر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر لی۔ آج وہ ڈاکٹر بنی تو والدین نے اسے بخوشی قبول کر لیا ہے۔ ہماری نام نہاد این جی اوز اگر اس حوالے سے ایمانداری سے کام کریں تو ایسے سینکڑوں خواجہ سرائوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ وہ بھی زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ پائیں گے۔ جنہیں اپنے قبول کرنے کی بجائے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔
٭٭٭٭