قابو سے باہر ہوتا کورونا سخت اقدامات کی ضرورت
چین کے شہر ووہان میں دو سال قبل جنم لینے والی وباء کووڈ 19 جسے کورونا کا نام دیا گیا، اس تیزی سے پھیلی کہ پوری دنیا کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ کاروباری ادارے، تعلیمی سرگرمیاں، آمدورفت غرض ہر شعبۂ زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ کاروباری زندگی شدید طور پر متاثر ہوئی اور پورا انسانی سماج اور تمدنی نظام تلپٹ ہو کے رہ گیا اس صورتحال سے نمٹنے اور اس وباء کی روک تھام کے لیے کئی اداروں کی طرف سے ویکسی نیشن ایجاد کی گئی اور ساری دنیا میں اس کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع ہو گیا، چنانچہ ہنگامی اقدامات اور احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں اس کی شدت میں کمی واقع ہو گئی اور رفتہ رفتہ معمولات زندگی پھر سے بحال ہو گئے۔ ان تمام کوششوں اور اقدامات کی وجہ سے یہ وباء کم تو ہو گئی لیکن ختم نہیں ہو سکی۔ اب گزشتہ چند ماہ سے اس نے پھر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ افریقہ اور یورپ کے متعدد ممالک نے پھر سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دی ہیں۔
پاکستان میں بھی اس وباء نے تیزی سے پھیلنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی تیز رفتاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کم و بیش پانچ ہزار کیسز روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے فراہم کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس کے مزید 5 ہزار 34 کیسز رجسٹرڈ ہوئے اور مزید دس مریض اس موذی وباء کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ مثبت کیسز کی شرح 9.45 فیصد پر آ گئی ہے۔ این سی او سی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں ہفتے میں تین روز کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کو سیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کورونا کیسز میں اضافے کی صورتحال کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں ۔ ہر سطح پر ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور موبائل ویکسی نیشن کو ایک مہم کی صورت میں جاری کیا جائے۔