بدھ ‘ 6؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 20؍ جنوری 2021ء
گوشوارے جمع نہ کرانے پر 3 وزراء 3 سینیٹروں سمیت 148 ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا اس سے قبل بھی اس قسم کی بے نام مشقیں ہوتی رہی ہیں جن کے نتائج آج تک سامنے نہیں آئے۔ اب بھی یہی ہو گا۔ یہ با اثر لوگ ہیں اوپر سے انہیں یہ بھی زعم ہوتا ہے کہ یہ عوامی نمائندے ہیں، عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اس درجہ عالی تک پہنچے ہیں۔ سچ کہیں تو قانون ایسے لوگوں کی جیب میں ہوتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے۔ یہ منہ زور طاقتور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ان کے ڈانڈے دور دور تک ملے ہوتے ہیں جو انہیں ہر ڈنڈ سے بچاتے ہیں۔ ویسے جن حضرات نے گوشوارے جمع کرائے ہیں وہ کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔ ذرا ان کی تحقیقات کوئی ایماندار ادارہ یا کمیٹی کرے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ اکثر کے چھپے ہوئے یا چھپائے ہوئے اثاثے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ مگر ایسا کون کرے۔ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔ سب جانتے ہوئے بھی تحقیقاتی ادارے خاموش ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ان 3 وزیر 3 سینیٹر اور 148 ارکان اسمبلی جن میں قومی اسمبلی کے 48 اور پنجاب اسمبلی کے 52 سندھ اسمبلی کے 19 بلوچستان اسمبلی کے 6 اور خیبر پی کے اسمبلی کے 26 ارکان شامل ہیں کیخلاف کیا کارروائی ہوتی ہے ۔ ورنہ
سنا تھا ہم نے کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشہ نہ ہوا
والی بات عوام کو ازبر ہے۔ اس لئے اب وہ ایسے کھیل تماشوں میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
٭٭٭٭٭
مفتی عبدالقوی کو ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ نے تھپڑ دے مارا
لوگ ایک بار رسوا ہونے کے بعد باز آ جاتے ہیں، دوبارہ رسوائی کا خوف انہیں لگام ڈالے رکھتا ہے۔ مگر مفتی عبدالقوی کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔
نہ انہیں اپنی عزت عزیز ہے نہ اپنے نام اور معاشرتی حیثیت سے کوئی غرض ہے۔ وہ حضرت غالب کے شعر
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ ایک تو عالم اوپر سے اتنے ظالم ہیں کہ سوشل میڈیا کی خواتین کے ساتھ بے باک ویڈیوز بنانے ، ان کے ساتھ غیر اخلاقی جملہ بازیوں اور ان سے گالیاں کھانے سے بھی انہیں خاصہ شغف ہے۔ ان کی شخصیت کی درست عکاسی چچا غالب کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔
کتنے شریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
بات صرف یہاں تک ہی رہتی تو مسئلہ نہ ہوتا۔ اب تو وہ حریم شاہ کے ہاتھوں تھپڑ کھا کر سرخرو بھی ہو گئے ہیں۔ اب کوئی انہیں کیا کہے۔ یہاں ان کی وضاحت کہ حریم شاہ نے گھٹیا شہرت کے لیے ایسا کیا پر ہنسی آتی ہے۔ اور ہمیں حیوان ظریف کا شعر یاد آ رہا ہے۔
دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
لگتا ہے مفتی جی کو بھی غالب جیسی بے ننگ و نام والی حالت عزیز ہے جبھی تو ایسی حرکتیں کرتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مودی کو للکار بھارتی کسان نے ٹریکٹر پر توپ لگا دی
اب چاہے یہ نقلی توپ ہی کیوں نہ ہو ، مودی کو اشارہ سمجھ لینا چاہئے کہ ’’اب کسان اندولن‘‘کہیں کسی اور طرف نہ مڑ جائے۔ بیلچہ ، گینتی ، ہل اور درانتی تھامنے والے ہاتھ اگر ایک بار پھر دو نالی یا کلاشنکوف اٹھانے پر مجبور ہو گئے تو کیا ہو گا۔ مودی حکومت چاہتی بھی یہی ہے تاکہ وہ ’’خالصتان تحریک‘‘ کا ٹھپہ لگا کر کسان مورچے کا نام بدنام کر کے انہیں دہشت گرد قرار دے۔ مگر ابھی تک کسان نہایت دانشمندی سے بھارتی حکمرانوں کی اس چال کو ناکام بناتے آ رہے ہیں۔ امید ہے اب بھی وہ مودی کی چالبازیوں کو ناکام بنا دیں گے۔ اسکے باوجود اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اگر 26 جنوری تک یہ معاملہ طے نہ ہوا تو پھر یا تو دہلی کی سڑکوں پر ٹریکٹروں ٹرالیوں کا مارچ ہو گا یا پھر ’’راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کو‘‘ کا نعرے لگاتے سکھوں کے خون سے ایک بار پھر دہلی کی سڑکیں رنگین ہوں گی۔ کسان نے اپنے ٹریکٹر پر توپ لگا کر اس بات کااعلان کر دیا ہے کہ اگر کسانوں کیخلاف فورسز کا ایکشن ہوا تو وہ توپ چلا کر اس کا جواب دیں گے۔ بھارتی عدالت نے یہ کہا کہ اپنی جان چھڑا لی ہے کہ کسانوںکو دہلی میں داخل ہوکر ٹریکٹر مارچ کی اجازت دینا یا نہ دینا دہلی پولیس کا کام ہے۔ ہریانہ پنجاب اور چندی گڑھ کے کسانوں کی مدد کے لیے بہار راجستھان، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے کسان بھی آ رہے ہیں جس کی وجہ سے کسان مورچہ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
لاہور زوسفاری پارک سے قیمتی ہرن اور دیگر جانوروں کی چوری پر انکوائری شروع
چوری کا یہ معاملہ اس لئے سنگین رخ اختیار کر گیا کہ زوسفاری پارک سے لاکھوں روپے مالیت کے 4 مادہ ہرنوں کی چوری کی واردات سامنے آئی ہے۔ اب وائلڈ لائف والے زوسفاری پارک میں ان ہرنوں اور ان سے پہلے چوری ہونے والے جانوروں کا معاملہ دیکھیں گے اس کے بعد تحقیقاتی رپورٹ دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی چند ملازمین کو غفلت پر معطل کر دیا گیا ہے۔ اب کہیں ان کو ہی مرغا بنا کر معاملہ دبانہ دیا جائے۔ ان قیمتی جانوروں کی چوری چھوٹے موٹے ملازمین کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام بڑے بڑے مگرمچھوں کا ہوتا ہے۔ غریب ملازم تو صرف چارے کے طور پراستعمال ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں کسی شوقین نے یہ مادہ ہرن افزائش نسل کیلئے چرائے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے چرانے والے ہرنوںکو پالنے کے شوقین ہوں یا ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں یہ ظالم لوگ ہرن کے گوشت کے کبابوں اور پسندوں کے شوقین نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو اب تک یہ نرم و نازک اندام ہرنوں کا ٹولہ ان ظالموں کے پیٹ میں پہنچ چکا ہو گا۔ وجہ جو بھی ہو ایسے چوروں کو اور ان کے سہولت کاروں کو کڑی سزا ملنی چاہئے ورنہ ہمارے چڑیا گھر اور زو سفاری پارکوں میں جلد ہی ویرانی ڈیرے ڈالے نظر آئے گی اور وہاں آنے والوں کو صرف جانوروں کے نام کی تختی ہی پڑھنے کو ملے گی۔ دیکھنے کے لئے وہاں کچھ نہیں بچے گا…