پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس 6 سال پرانا ہے۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے فارن فنڈنگ کا مسئلہ اٹھایا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پارٹی فنڈز کے بارے میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں، ان میں بیرونی ممالک سے وصول کیے گئے اربوں روپے کے فنڈز کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ گویا گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھانے چل پڑا۔ ماڈل ٹائون میں 14 بے گناہ لوگوں کے قتل کی طرح فارن فنڈنگ مقدمہ بھی 6 سال سے زیر التوا ہے اور آج تک اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا جبکہ الیکشن کمشن کے سامنے 200 پیشیاں ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے نظام عدل اور قوانین میں ایسی گنجائشیں موجود ہیں جن کی وجہ سے مقدمات کو طول دیا جا سکتا ہے۔ قوانین میں یہ سقم حکمران اشرافیہ نے خود ہی رکھے ہیں تاکہ اگر وہ کسی وقت کرپشن کے الزام میں کسی مقدمے میں پھنس جائیں تو ان کو اس مقدمے سے نکلنے کا راستہ بھی مل سکے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ شاہد ہے کہ عدالتوں میں مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں اور ان کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ فوری اور سستے انصاف کے اصول پر عدالتی نظام کی تشکیل نو کرنا پارلیمنٹ کا کام تھا۔ افسوس پارلیمنٹ اپنے اس آئینی فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ ناکام ہی رہی ہے۔ اگر پارلیمنٹ عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے قانون سازی کرتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ پاکستان کے آئین میں جتنی بھی ترامیم کی گئی ہیں وہ سب اقتدار کی بندر بانٹ کے لئے تھیں اور عوام کے بنیادی حقوق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان کی حکمران اشرافیہ چاہتی ہے کہ موجودہ سٹیٹس کو برقرار رہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ لوٹ مار کرتی رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ لوٹ مار گورے انگریز کرتے تھے جو کلمہ گو نہیں تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج لوٹ مار وہ لوگ کر رہے ہیں جو کلمہ گو ہیں اور جن کے پاس ہدایت کی کتاب بھی موجود ہے۔ پاکستان کے جن بزرگ شہریوں نے انگریز کے دور کو دیکھا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ انگریز کا دور آج کے دور سے بہتر تھا۔ تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کیس کے سلسلے میں تمام آپشن استعمال کر لیے ہیں اور اب یہ مقدمہ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ اس مقدمہ کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کے پارٹی فنڈز صاف اور شفاف ہوتے تو تاخیری حربے اختیار نہ کیے جاتے اگر اس مقدمے کا فیصلہ تحریک انصاف کیخلاف آجائے تو عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے ناقابل تلافی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف نے اس مقدمے کے دباؤ سے باہر نکلنے کے لئے پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کررکھی ہے۔ تحریک انصاف نے دعویٰ دائر کر رکھا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے الیکشن کمیشن میں پارٹی فنڈز کے سلسلے جو مالیاتی گوشوارے جمع کرائے ہیں، ان میں فارن فنڈز ظاہر نہیں کیے گئے۔ پاکستان میں یہ مکروہ کلچر عام ہو چکا ہے کہ جب کسی شخصیت یا جماعت پر کرپشن الزام لگایا جاتا ہے تو وہ اپنا جواب دینے کی بجائے، دوسروں کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں کہ اس نے بھی کرپشن کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور راہنما بیرونی ممالک سے پارٹی فنڈز اور تحفے تحائف لیتے رہے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاریخ کی دو مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں، لیبیا کے انقلابی لیڈر کرنل قذافی نے ایک ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو سے کہا اگر پاکستان کے مذہبی رہنما ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں تو وہ انہیں بتائیں کیوں کہ یہ رہنما ان سے پارٹی فنڈ حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے آمر حکمران جنرل پرویز مشرف نے میڈیا کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے بادشاہ سے ایک ارب روپے بطور گفٹ حاصل کیے ہیں جس سے انہوں نے دوبئی میں رہائش کے لئے فلیٹ خریدا ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسی سیاسی اور مذہبی جماعت ہو جس نے بیرونی ممالک سے فنڈز حاصل نہ کیے ہوں۔ تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کے سلسلے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ غیرقانونی فارن فنڈز کی ذمہ داری ان کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے لیے ایجنٹ کے طور پر کام کیا۔ پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس میں مزید تاخیر نہ کی جائے اور اس کا فوری فیصلہ سنایا جائے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ نون نے الیکشن کمیشن میں اپنے جوابات داخل کرا دئیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی سے کچھ مزید سوالات پوچھے ہیں۔ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ کے تناظر میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ مزید تاخیر کا شکار ہوگا کیونکہ فارن فنڈنگ کے قوانین کی زد میں پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کا موقف یہ ہے کہ اپوزیشن عوام کو گمراہ کر رہی ہے اور ریاستی اداروں کو دھمکیاں دے رہی ہے جس کا مقصد وزیراعظم عمران خان پر دباؤ بڑھانا ہے کہ وہ ان کو این آر دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا مقدمہ بڑا سنجیدہ اورحساس ہے جس کے اثرات پاکستان کی سیاست پر دور رس ہو سکتے ہیں۔ اس مقدمے کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان عمران خان دباؤ میں آ کر کسی نہ کسی نوعیت کی ڈیل پر رضا مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ہر چیز ممکن ہوتی ہے لہٰذا یہ امکانات موجود ہیں کہ سینٹ کے انتخابات کے بعد تینوں بڑی جماعتیں فارن فنڈنگ کیس اور نیب کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی سمجھوتا کر لیں تاکہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کو احتساب کی زد سے بچا کر اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنا سکیں۔ پانامہ کے ڈرامے کے بعد پاکستان میں براڈ شیٹ کے نام سے ڈرامہ سیریز کا آغاز ہو چکا ہے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میڈیا وار جاری ہے عوام کے بنیادی حقوق کا کسی کو کوئی خیال نہیں ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں مگر کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں سنایا جاتا۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کی سیاست سے پارلیمنٹ کی بالادستی ریاست پر کیسے قائم کی جا سکتی ہے۔ جب سیاستدان آپس میں محاذ آرائی کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ اٹھاتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور سیاست کے معیار کو بہتر بنائیں۔ الزام تراشیوں کی سیاست کو ترک کرکے عوام کے بنیادی حقوق کی بنیاد پر سیاست کریں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اندرونی سیاسی عدم استحکام کے باوجود پاکستان کو خارجہ اور دفاعی معاملات میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت دنیا کے سامنے بری طرح ایکسپوز ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان میں اندرونی سیاسی استحکام آجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہ ہوسکے۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔
آپ خود اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024