نئے سال کی سب سے انوکھی خبر کوالا لمپور سے آئی ہے جس کے مطابق پاکستا ن انٹرنیشنل ائیر لائنز کا ایک طیارہ لیز کے پیسوں کی عدم عدائیگی کی بنا پروہاں روک لیا گیا، جیسے پاکستان میں کاغذات کی عدم موجودگی کی صورت میں موٹر سائیکل تھانے میں بند کر دی جاتی ہے۔ طیارے میں سوار مسافروںکو بعد میں مختلف پروازوں سے وطن واپس لانے کے انتظامات کرنے پڑے۔ مذکورہ طیار ہ جو کہ بوئنگ 777 تھا ایک برطانوی کمپنی سے 2015 میں لیز پر حاصل کیا تھا۔ اس کمپنی کے بقول پی آئی اے، لیز کی مد میں 14 ملین ڈالر کی نا دہندہ ہے۔ اس رقم کی وصولی کیلئے اس کمپنی نے برطانیہ میں بھی کیس کر رکھا ہے اور پھر اس کمپنی نے ملائیشیا کی کورٹ میں بھی دعویٰ دائر کردیا جس کی شنوائی کے دوران کولالمپور کی عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ یہ طیارہ کیس کے فیصلے یا اگلی پیشی ( جو کہ24 جنوری کو ہے) تک کولالمپور ائیرپورٹ سے پرواز نہیںکر سکتا۔ ہماری قومی ائیر لائن کیا تھی ، اور اس پر کیا دن آ گئے ہیں، اس کے بارے میں تو آگے چل کر بات کرتے ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس صورتحال سے بچنا ممکن تھا؟ اول تو ہمارے قومی ادارے کا اس طرح کسی دوسرے ملک کی پرائیوٹ کمپنی کا نادہندہ ہونا ہی کوئی بہت عزت افزائی کی بات نہیں ہے لیکن یہ سب گھنٹوں میں یا اچانک تو ہو انہیں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ کے علم میں یہ بات ہو گی کہ مذکورہ طیارے کے بارے میں برطانیہ اور کولالمپور کی عدالتوں میں کیس دائرہیں ۔ ایس صورتحال میں اس طیارے کا اسی روٹ پر بھیج دیا جانا جو کہ مذکورہ عدالت کی جیورسڈکشن میں آتا ہوکیا بد انتظامی کی اعلیٰ مثال نہیں؟ اگر ایسا کوئی خطرہ تھا اور کسی بین الاقوامی عدالت میں مذکورہ طیارے کو روک لینے کے بارے میںکوئی درخواست زیر سماعت تھی تو اس طیارے کوفی الحال پاکستان کے اندر استعمال کیا جا سکتا تھا تاکہ نہ تو پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی اور نہ مسافروں کو اس قسم کی پریشانی کے سامنا کرنا پڑتا۔ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کیا صرف ایک بد انتظامی تھی یا کہیں ائیر لائن کے اندر موجود کسی کالی بھیڑ نے جان بوجھ کر ایسا کیا تاکہ طیارہ روک لیا جائے؟ بہرحال پی آئی اے کے ترجمان نے اس صورتحال کے بارے میں کہا ہے کہ یہ سب ’’ ناقابل قول‘‘ ہے۔ بھائی آپ قبول کریں یا نہ کریں، کرنیوالوں نے جو کرنا تھا وہ کر چکے۔ویسے بھی جن کیلئے ایسی کوئی ہتک آمیز صورتحال ناقابل قبول ہوتی ہے، وہ ایسی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔ گزشتہ برس تو ویسے ہی ہماری ائیر لائن کیلئے کوئی بہت اچھا ثابت نہیں ہوا۔ کرونا کی وجہ سے جو نقصان ہوا سو ہوا، گزشتہ برس مئی کے مہینے میں کراچی میں ہونیوالے حادثے میں 97 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ اسکے بعد پائلٹوں کے نقلی لائسنسوں کی خبریں آنے کے بعد سے یورپ کے ممالک نے پی آئی اے پر پابندی عائد کردی تھی جو تاحال جاری ہے۔
ہماری قومی ایئر لاین 1955 میں صرف 13 ہوائی جہازوں کے ساتھ قائم ہوئی تھی۔ اگلے ہی برس پی آئی اے کی پہلی انٹرنیشنل فلائٹ لندن ( براستہ قاہرہ اور روم) پہنچی۔ اسکے اگلے چند برسوں میں پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہونے لگا۔ معیار اور سہولیات کے علاوہ اس زمانے میں پی آئی اے کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کے اسکی 90 فیصد سے زیادہ پروازیں اپنے ٹائم پر اڑتی اور اپنی منزل پر پہنچتی تھیں۔ ا س سنہری دور میں پی آئی اے ایشیا ء کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے ’’ جیٹ‘‘ ہوائی جہاز خریدا۔ اس کے بعد کئی برسوں تک دنیا کے آسمانوں پر پی آئی اے کا راج رہا۔ متحدہ عرب امارات سمیت کئی دوست ممالک نے پی آئی اے کی مدد سے اپنے ممالک میں ایئرلائنز قائم کیں جو آج دنیا کی بہترین ایئر لائنز بن چکی ہیں لیکن اس دوران نوے کی دہائی میں ہماری قومی ایئر لائن کے انحطاط کا آغاز ہوا اور گزشتہ بیس برس سے آنیوالی ہر حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اسکی کارگردگی مسلسل زوال کا شکار ہے اور ہر سال اس کو ہونے والے نقصان میں اضافہ ہی ہوتا گیاہے۔ سمجھ نہیں آتا جن روٹس پر انٹر نیشنل تو کیا پاکستانی کی نجی ایئر لائنز بھی منافع میں جا رہی ہوں وہاں بھی کئی برسوں سے پی آئی اے کی قسمت میں نقصان ہی نقصان لکھا ہے( اور کسی نے کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی) اس مالی نقصان اور آپریشنل جہازوں کی نہایت قلیل تعداد کے مقابلے میں پی آئی اے کے ملازمین کی لمبی چوڑی تعداد کو دیکھیں توسمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اتنا عملہ کرتا کیا ہے؟ اس وقت پی آئی اے کے پاس ٹوٹل تقریباَ38 طیارے ہیں( جن میں سے بہت سے اس وقت ’’ آپریشنل‘‘ نہیں ہیں)۔ آپریشنل طیاروں کی تعداد کیمطابق اسوقت پی آئی اے میں فی طیارہ تقریباََ 700 کے قریب ملازمین ہیں جو شاید ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی اکثر ائیر لائنز میں فی جہاز ملازمین کی اوسط تعداد 150 تا180 ہے۔ ترکی کی قومی ایئر لائن میں 236 جہاز اور فی جہاز ملازمین کی تعداد صرف 81 ہے۔
ہماراپی آئی اے بطور ادارہ بضد ہے کہ ہماری قومی ائیر لائن کی پروازیں کسی بھی دیگر ائیر لائن جتنی محفوظ ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ 1947 سے اب تک امریکہ میں ہوائی جہاز کے کل 794 حادثات ہوئے جن میں 10639 لوگ ہلاک ہوئے اور اس کے مقابلے میں پاکستان میں صرف 14 جہاز حادثات کا شکار ہوئے جن میں 920افراد ہلاک ہوئے۔ پہلی بات تو یہ کہ پی آئی اے کا ادارہ 195 5میں قائم ہوا تھا 1947 میں نہیں۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کی ایئر لائنز کے ساتھ پی آئی اے کا اس طرح کا مقابلہ کرنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ پی آئی اے اس وقت اپنے قلیل اور مختصر ہوائی بیڑے کے ساتھ 22 ملکی اور28 بین الاقوامی روٹس کے ساتھ کل 3000 سے بھی کم پروازیں آپریٹ کر رہی ہے جب کہ امریکہ کی ’’ امریکن ایثر لائن ‘‘ 952، ’’ ڈیلٹا ایئر لائن 800، یونائیٹڈ ایئر لائنۛ52جہازوں کے ساتھ بلا مبالغہ لاکھوں پروازیں آپریٹ کررہی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ہم صرف گزشتہ برس کے دوران پی آئی اے کی پروازوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات کو دیکھیں جن میں جہاز صرف اور صرف قسمت کی بنا پر بچ گئے وگرنہ ان کی نوعیت ایسی تھی کہ یہ (خدانخواستہ) کسی بڑے سانحے میں تبدیل ہو سکتے تھے تو انکی تعداد کسی کو بھی خوفزدہ کر دیتی ہے۔اگر ہم پی آئی اے کی پہلی شان و شوکت بحال کرنا چاہتے ہیں تو سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ’’ سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپنے کی بجائے اس ادارے میں موجود خرابیوں اور کوتاہیوں کو شناخت بھی کریں اور تسلیم بھی اور پھر ان کو دور کرنے کیلئے جلد از جلد اور ’’ میرٹ‘‘ پر اقدامات کریں ۔ یہی ’’میرٹ‘‘ ہمارے تمام اداروں کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ لیکن یہ ہے کہاں؟ پرانے پاکستان میں بھی کہیں چھپا رہتا تھا اور نئے پاکستان میں بھی کسی ادارے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ کوئی اسے ڈھونڈ کے لائے، نہ جانے کہاںیہ کھو گیا؟
پی آئی اے،1955 تا 2021ء
Jan 20, 2021