آج سے 40/50 سال پہلے تک سیاست قوم اور ملک کی خدمت کا ایک مشن خیال کی جاتی تھی جسے عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا لیکن افسوس آج پیارے پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی بنا پر سیاست ایک گالی بن چکی ہے۔بدقسمتی سے بانی پاکستان حضرت قائداعظم ؒکے بعد ملک کو کوئی مخلص، محب وطن اور باکردار قائد نہیں ملا جو صیح معنوں میں قوم کا لیڈر ہوسیاست میں آنیوالے سبھی لوگوں نے اقتدار کو اپنی منزل سمجھا ان لوگوں کے پاس ملک اور اور قوم کی فلاح و بہبود کا کوئی ایجنڈا نہیں رہا اور نہ ہی ان کے پاس ملک و قوم کی خدمت کا کوئی وژن ہوتا ہے۔ چند سیاسی جماعتوں کے علاوہ اکثر پارٹیوںکے اندر خاندانی سیاست چل رہی ہے اسکی وجہ سے ہمارے جمہوری نظام میں عام آدمی کا سیاست اور الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے علاوہ کوئی کردار نہیں۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک چند خاندانوں کے لوگ ہی باری باری برسراقتدار رہے ہیں۔پاکستان کی سیاست میں جنرل ضیاء مرحوم کے 1985ء میں کرائے جانے والے غیرجماعتی الیکشن کے نتیجے میں ملکی سیاست کے اندر ایک نیا طبقہ اور ٹرینڈ سامنے آیاکیونکہ سیاسی جماعتوں نے اس الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا تو کچھ پرانے اور زیادہ تر نئے لوگ غیرجماعتی الیکشن میں سامنے آگئے۔ اسی کھیپ میں میاں نوازشریف کی فیملی بھی جنرل جیلانی کی وساطت سے سیاست میں داخل ہوئی جنہوں نے سالہاسال تک مرکز اور پنجاب پر حکمرانی کی حالانکہ اس سے پہلے ان کا ماضی میں سیاست سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا اسی غیرجماعتی الیکشن میں پہلی بار کاروباری طبقے اور امیر امیدواروں کیطرف سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے سرمائے کا استعمال شروع ہوا پہلے اس کی ابتداء ووٹروں کو چائے پانی اور کھانے کھلانے سے کی گئی بعد ازاں ووٹ لینے کیلئے پیسے دینے کا رواج زور پکڑتا گیا اس سے پہلے سیاستدانوں کے پاس پیسہ نہیں تھا ارکان اسمبلی غریب ہوتے تھے اور وہ لاہور و اسلام آباد اسمبلی کے اجلاسوں میںجانے کیلئے پبلک ٹراسپورٹ استعمال کرتے تھے ا کیونکہ اکثر ممبران اسمبلی کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں تھیں پھر سیاست میں کاروباری لوگ آگئے انھوں نے سرمائے کے استعمال سے سیاست کو ایک انڈسٹری اور کاروبار بناکر رکھ دیا یونین کونسل کی سربراہی حاصل کرنے کیلئے کونسلروں تک کے ووٹ خریدے گئے انھیں چھانگا مانگا سے لے کر غیرممالک کے سیرسپاٹے کرانے کا آغاز ہو ارکان اسمبلی،اور چھوٹے موٹے سیاستدانوں کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں اسلحہ بردار گارڈ رکھنے کو رواج پیدا ہوا ان خراجات کو پورے کرنے لیے ممبران اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں اور اربوں روپے کے فنڈز دئیے گئے اس طرح سیاست باقاعدہ کاروباربن گیا جس نے سیاست میں کرپشن کا وہ ناسور بویا کہ اللہ کی پناہ سیاستدانوں نے کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کیے سرے محل سے لے کر پانامہ تک کرپشن کی کہانیوںنے اتنی شہرت حاصل کی کہ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی میاں نواز شریف نے ،قرض اُتارو ملک سنوارو؛ کا نعرہ لگایا قوم نے اس میں حکومت کو اربوں روپیہ دیا لیکن آج تک نہیں پتہ چل سکا کہ قوم کے یہ اربوں روپے کہاں گئے سیاست کرنے والی 9 مذہبی جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی نے ملک میں نفاذ نظام مصطفیؐ کا نعرہ لگایا لیکن کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔1985ء کے بعد جب سیاست کمائی کا ذریعہ بن گیا تو سیاستدانوں نے اپنے بچوں کو غیرممالک میں تعلیم دلانا شروع کردی ملک کا سرمایہ دوسرے ممالک میں لے جاکر وہاں کاروبار قائم کیے اورمہنگی ترین رہائشیں بنائیں حتیٰ کہ اب سیاستدان اپنی معمولی سے معمولی بیماری کا علاج بھی امریکہ اور یورپ کے ممالک میں کراتے ہیں پاکستان کیساتھ ان کا مفاد صرف اور صرف ووٹ لینے اور اقتدار حاصل کرنے کی حد تک رہ گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکمران ،وزرا، اور ممبران اسمبلی تو بہت زیادہ ہیں لیکن قوم کا لیڈر کوئی نہیں نظر آتا جس کی وجہ سے ہم ہر لحاظ سے دنیا میں بہت پیچھے ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد1968ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے صدر جنرل ایوب سے راہیں جدا کرکے اپنی پارٹی بنائی تو اس کے پاس اپنا ایک سیاسی وژن تھا جس کی بناء پر اس نے نہ صرف ملک کے اندر مقبولیت حاصل کی بلکہ دنیا بھر میں شہرت پائی پیپلز پارٹی اور بھٹو کی سیاست سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس نے اپنی سیاست کیلئے ہی سہی مگر اپنی جاگیردار کلاس کیخلاف بغاوت کرکے غریبوں کے مفاد کی بات کی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور عام آدمی کو نہ صرف سیاسی شعور دیا بلکہ کئی بالکل غیر معروف لوگوں کو اسمبلیوں میں پہنچایا غریب آدمی کو وزیر مشیر بنایا ۔ اور اپنے سیاسی اصولوں کی پاسداری کی بھٹو پھانسی پا گیا لیکن اس نے اپنا فلسفہ نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی سیاست میں آج بھی اس کا نام زندہ ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی پارٹی بھی اپنی اقدار کھو چکی ہے اور اسکے نام اور پارٹی کو اب تک اقتدار کے حصول کیلئے کیش کرایا جارہا ہے ۔حالانکہ پیپلز پارٹی کی سیاسی وراثت بھی اب کسی بھٹو کے پاس نہیں بلکہ زرداری خاندان کے پاس ہے آج اگر دیکھا جائے تو بڑی دیر بعد سہی ملک کی سیاست میں عمران خاں کی صورت میں اپناا یک وژن رکھنے والا سیاستدان سامنے آیا ہے بنیادی طور عمران خان بھی سیاستدان نہیں ایک کرکٹر ہے جس نے پاکستان کو کرکٹ کے عالمی چمپئین کا اعزاز لے کر دیا ملک میں کینسرجیسی موذی بیماری کیلئے شوکت خانم میموریل ہسپتال اور عام آدمی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے نمل یونیورسٹی جیسے منصوبے مکمل کیے۔کچھ عرصہ سے وہ ملک کی سیاست میں ہے اس نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ملک میں انصاف اور تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے یہ عمران خاں کا ایک وژن ہے جس سے بہت لوگوں اور سیاسی جماعتوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے البتہ اس نے اپنے اس نعرے سے لوگوں کو ایک شعور دیا اور یہ حقیقت ہے کہ اسکے تبدیلی اور انصاف کے نعرے نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور 2018 ء کے عام الیکشن میں کامیاب ہو کر وزیراعظم بن گئے انھیں برسراقتدار آئے ڈھائی سال سے زیادہ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک عوام کو تبدیلی نظر نہیں وہ بھی ماضی کے روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024