آج کے کالم کی سرخی میں الفاظ معمول سے زیادہ ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ دو حصوں میں ہے۔ گذشتہ برس بارہ مئی کو شائع ہونے والے سائرن میں حکومت اور ذمہ داران کو آٹے کے ممکنہ بحران سے خبردار کیا تھا آج بیس جنوری ہے لگ بھگ نو ماہ گذرنے کے بعد آج پورے ملک میں ہر طرف آٹا آٹا کی پکار ہے۔ حکومتی وزراء کوا ب ہوش آئی ہے کوئی زیادہ روٹیاں کھانے کو وجہ بتا رہا ہے کوئی چھاپوں کی تصاویر پوسٹ کر رہا ہے تو کوئی شہر کے کسی حصے میں بڑی گاڑیوں پر آٹے کے تھیلوں کی تصاویر لگا کر معاملے کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت میں یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ مہنگائی، اشیاء خوردونوش کے میکنزم کے حوالے سے جتنا سائرن میں لکھا گیا ہے پاکستان میں شاید ہی کسی نے اس موضوع پر اتنی تفصیل اور تسلسل سے لکھا ہو۔ بدقسمتی ہے کہ تمام قابل عمل تجاویز کو نظر انداز کیا گیا۔ پنجاب کے وزراء ٹھنڈے کمروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہوئے اور آٹا ستر روپے فی کلو ہو گیا ہے۔ گذشتہ برس غالباً مئی میں ہی اسد عمر نے اس وقت چینی کے بحران کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا تھا آئندہ دنوں میں وہ کالم بھی دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
موجودہ صورت حال پر کچھ نیا لکھنے کے بجائے ہم بارہ مئی دوہزار انیس کو لکھے گئے کالم کے کچھ حصے دوبارہ قارئین نوائے وقت اور حکومت کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
"حکومتی اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ مسائل کو دیکھتے ہوئے بروقت بہتر منصوبہ بندی کریں تاکہ کسی بھی قسم کے بحران سے بچا جا سکے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم بیٹھے دیکھتے رہتے ہیں روایتی سست انداز میں سوچتے ہیں کہ جب ہو گا دیکھا جائے گا۔ جب مصیبت ٹوٹتی ہے، طوفان آتا ہے، بحران پیدا ہوتا ہے تو ادھر ادھر بھاگتے ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ہم جلد بازی میں فیصلے کرتے ہیں اور مزید نقصان اٹھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کاموں میں سب سے زیادہ نقصان عام آدمی عام پاکستانی کا ہوتا ہے۔ وہ پاکستانی جس کی قوت خرید کم ہے، وہ پاکستانی جس کے وسائل کم ہیں ریاستی اداروں کی روایتی سستی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ آبادی میں ایسے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور جب کسی اہم چیز کی قلت پیدا ہوتی ہے تو پورا ملک اسکی لپیٹ میں آتا ہے۔پھر بات حکومت کے قابو سے باہر نکل جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ بہت بڑے بڑے مسائل عمران خان کی حکومت کو ورثے میں ملے ہیں۔ لیکن کئی مسائل ایسے جو حکومت کی کمزور حکمت عملی کی وجہ سے سامنے آئے ہیں، کئی مسائل میں حکومت بہتر اور بروقت اچھی منصوبہ بندی کرنے، سٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملا کر حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے عوام کو بنیادی ضرورت کی اشیاء کے حوالے سے کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بارہ مئی تک چینی ستر سے اسی روپے فی کلو کے حساب سے مل رہی تھی۔ جنوری دوہزار انیس کو ہم نے چینی کی قیمتوں میں قابو میں رکھنے کے لیے لکھا لیکن حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے قیمتوں پر قابو پانا تو دور کی بات چینی کی بلاتعطل فراہمی مسئلہ بن گئی تھی۔ پھر قیمت بڑھتی رہی اور 75، 80، نوے اور 95 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ صورت حال اب بھی قابو میں نہیں ہے اور یہ معیار کے اعتبار سے ایک سو سے ایک سو پچاس فی کلو کے درمیان میں فروخت ہو گی۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں وہ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔ چینی ساٹھ سے پچھتر اور سو روپے تک حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پہنچی ہے اور ایک سو سے ایک سو پچاس تک فروخت ہوتی ہے تو یہ بھی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور وزراء کی نالائقیوں کی وجہ سے ہی ہو گا۔ گذشتہ برس کرشنگ شیزن میں گنے کے کاشتکاروں کے لیے بروقت ادائیگیوں کو یقینی بنایا گیا ہے۔ گذشتہ برس مئی جون تک چینی ملکی ضرورت سے زیادہ موجود تھی لیکن اسکے باوجود قلت کی اطلاعات سامنے آتی رہیں اور قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی کی قیمت کو قابو میں رکھنے اور بلا تعطل فراہمی کے معاملے میں حکومت نے تین بڑی غلطیاں کیں۔ چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دینا مناسب فیصلہ نہیں تھا، دوسرا پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن سے بات چیت مناسب انداز میں نہیں کی گئی، یہ سب پاکستانی ہیں، ملک کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، انہیں بات چیت کے ذریعے قائل کر کے راضی کیا جا سکتا تھا، انکے سرمائے اور کاروبار سے ملک کو فائدہ پہنچ سکتا تھا، مل مالکان کی جائز ضروریات اور جائز مطالبات پر بات چیت کر کے چینی کی قیمتوں کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا لیکن اس اہم پہلو پر حکومت ناکام ہوئی۔ گیارہ لاکھ ٹن چینی باہر بھیجنے کی اجازت کیوں دی گئی، تیسری بڑی غلطی ایڈمنسٹریشن کے ذریعے چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دکاندار چھیاسٹھ روپے کلو چینی خرید کر ساٹھ روپے کلو فروخت کر دے۔ انتظامیہ جرمانے کرتی ہے، دکانیں بند کرتی ہے لیکن اسکا اثر بھی عام آدمی کی جیب پر پڑتا ہے۔ دکاندار جرمانے کی رقم بھی آسانی سے صارفین سے نکلوا لیتا ہے یوں ہر صورت میں بوجھ خریدار کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ہم نے گذشتہ برس جنوری میں انہی صفحات پر چینی کے ممکنہ بحران کے حوالے سے دو کالم لکھے تھے اور مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انکے حل کی تجاویز بھی پیش کی تھیں لیکن حکومتی اداروں نے کان نہیں دھرے اور آج ایک سال گذر گیا ہے معاملہ جوں کا توں ہے بلکہ حالات پہلے سے بگڑ کر بے قابو ہو چکے ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی،حکمت عملی، سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اچھے ماحول میں مذکرات، انکے جائز مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اور رسد کے طریقہ کار کو بہتر بنا کر ہم مسائل حل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس مشق کے لیے مکمل ہوم ورک، پیپر ورک، بات چیت سے قائل کرنے اور دلیل سے منانے کی اہلیت و صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے بھی اہم قومی ذمہ داری کا احساس اور ہر وقت عوام کی خدمت کا جذبہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ان دنوں لیموں کی قلت بھی سب کو یاد ہے۔ اس معاملے میں حکومت اپنا کردار نبھانے میں ناکام رہی۔
اب اس سے بھی اہم مسئلہ کی طرف آ جائیں، یہ گندم کا مسئلہ ہے۔ بارش کی وجہ سے بڑی مقدار میں گندم خراب ہوئی ہے۔ مختلف سرکاری اداروں کے اعدادوشمار ایک جیسے نہیں ہے۔ محمکہ شماریات کے نزدیک پندرہ فیصد گندم استعمال کے قابل نہیں رہی۔ ہماری رائے میں تیس فیصد گندم قابل استعمال نہیں ہے اور یہ خراب گندم فیڈ مل مالکان کو جائے گی۔ اس کے علاوہ بڑی تیزی کے ساتھ بڑی مقدار میں گندم افغانستان بھی جا رہی ہے۔
بارش میں فصل خراب ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں گندم کا بحران پیدا ہونے کے واضح امکانات ہیں، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ اب وقت ہے کہ گندم اور آٹے کی عام آدمی تک دستیابی اور اسکی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے ورنہ حکومت کو بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی تو تمام اداروں کے لیے مسائل ہونگے۔ آٹا بنیادی اشیاء میں سب سے اہم ہے، اسکی دستیابی میں کمی یا پھر قیمت میں اضافے کی حکومت کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ لہذا فوراً اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ گوکہ حکومت کے پاس گندم موجود ہو گی، بالکل اسی طرح جیسے چینی کی کوئی قلت نہیں، لیکن کمی کا مصنوعی بحران پھر بھی نظر آ رہا ہے، قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور عوامی سطح پر تنقید بھی ہو رہی ہے بالکل اسی طرح گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہو گا اور اسکے اثرات تباہ کن ہونگے۔ تمام متعلقہ اداروں کے افسران اور تمام ذمہ دار وزرا کمر کس لیں، بہتر ہے کہ ابھی مناسب کام کر لیں تاکہ ممکنہ بحران سے بچ جائیں۔ وزراء اپنا کام مکمل ایمانداری اور دلجمعی سے کریں۔ ٹھنڈے کمروں سے باہر نکلیں، عوام کے مسائل سنیں اور انکے حل کے لیے بروقت اور فوری اقدامات کریں"
یہ وہی کالم ہے جو گذشتہ برس بارہ مئی کو شائع ہوا تھا۔ اسے پڑھیں اور سر پیٹیں کہ عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم ایسے باہر بیٹھے لوگ ان حالات کو بھانپ سکتے ہیں تو عوام کے لیے مصیبت بننے والے ان وزراء کو تو جو بھی سزا دی جائے وہ کم ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ آج کا نوجوان تبدیلی کے نام سے نفرت کرنے لگا ہے نہ نیا پاکستان بن سکا، نہ اس کی بنیاد رکھی جا سکی، نہ عوام کو ریلیف ملا نہ مسائل کم ہوئے اور نہ ہی غریب کو دو وقت کی روٹی مل رہی ہے۔ آج لوگ جھولیاں اٹھا کر حکومت کے جانے اور حکمرانوں کے مرنے کی دعائیں کر رہے ہیں۔ ووٹ مانگنے والے اور ووٹ دینے والے دونوں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس اس کا کوئی جواب ہے۔ کیا آٹا بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن ہو گا، کیا انہیں بھی کوئی سزا دی جائے گی، کیا ان سے عہدے واپس لیے جائیں گے، کیا ان کا احتساب ہو گا۔ آٹا بحران میں شامل افراد عوام کے مجرم ہیں۔ ان کی نااہلی ثابت ہو چکی ہے دیکھتے ہیں ان طاقتوروں کے خلاف کھڑا ہونے کی جرات کون کرتا ہے۔
ہم نے آٹے کے ممکنہ بحران کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، پنجاب کے تین چار متعلقہ وزراء اور سیکرٹریز کو لگ بھگ نو ماہ قبل خبردار کیا اور سائرن بجا دیا تھا لیکن سب سوئے رہے اور اب کوئی کچھ بول رہا ہے تو کوئی کچھ بول رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو تکلیف پہنچنے کے اصل ذمہ داران ایوان اقتدار میں ہیں یہ کسی اور کا قصور نہیں ہے اصل مجرم سرکاری گاڑیوں میں ہیں اور سرکاری دفاتر میں ہیں۔ انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔ یہ سراسر بدانتظامی ہے۔ اسکا ذمہ دار نہ کوئی مافیا ہے نہ کسی اور صوبے کی حکومت ہے یہ جہاں جہاں قلت ہے وہاں کے حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024