امریکہ پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرکے مسئلہ کشمیر حل کرا سکتا ہے
دورہ امریکہ: شاہ محمود قریشی نے باور کرا دیا اب اسے پاکستان کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ خطہ کسی نئی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کیلئے مذاکرات کے ذریعے معاملات کے پرامن حل کا حامی ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ جامع، طویل المدتی اور کثیر الجہتی شراکت داری پر مبنی دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ وزیر خارجہ نے وائٹ ہاؤس میں امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ کی ستمبر 2019 کو تعینات ہونے والے نئے امریکی مشیر برائے قومی سلامتی سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ شاہ محمود نے امریکی مشیر کو ان کاوشوں سے آگاہ کیا جو پاکستان خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور قیام امن کیلئے بروئے کار لا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکی مشیر کو خلیجی ریاستوں کے دارالحکومتوں میں کیے گئے اپنے حالیہ دوروں کا احوال بتاتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کیلئے، مذاکرات کے ذریعے معاملات کے پرامن حل کا حامی ہے۔ خطے میں پائی جانے والی کشیدگی پاکستان کیلئے شدید تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ خطہ کسی نئی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اسی لئے پاکستان، کشیدگی کے خاتمے اور خطے میں قیام امن کے لیے اپنا تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے کئے گئے یکطرفہ اقدامات پانچ ماہ سے جاری مسلسل لاک ڈائون، ذرائع ابلاغ پر پابندی سمیت مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مختلف مظالم کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ اس انسانی المیے کا نوٹس لیتے ہوئے کرفیو کے خاتمے اور کشمیریوں کو ان کا جائز حق ’’حق خود ارادیت دلانے‘‘ کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے۔ وزیر خارجہ نے پاکستان کی طرف سے افغانستان قضیے کے سیاسی تصفیے اور افغان امن عمل میں مصالحانہ کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ امریکی مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ او برائن نے افغانستان میں قیام امن کی امریکی کوششوں کو عملی جامہ پہنانے اور افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کو سراہا۔
جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ متصل خطے کے تین سلگتے مسائل ہیں۔ مسئلہ کشمیر خطے کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ افغان مسئلہ بھی دہائیوں سے کبھی چنگاری اور کبھی شعلہ بنتا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد افغان مسئلہ نے خطے کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور خود افغانستان برے طریقے سے عدم استحکام کا شکار ہوا۔ افغانستان ہی خطے میں دہشت گردی کا سبب بنا جس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ تیسرا مسئلہ ایران امریکہ کشیدگی ہے۔ ایران امریکہ تعلقات میں بھی اتار چڑھائو آتا رہا ہے۔ ایران کے نیوکلیئر انرجی بارے معاملات نے ایران امریکہ کشیدگی کو اس انتہا تک پہنچایا کہ آج خلیج میں دونوں ممالک کیل کانٹے سے لیس آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ خطے کے مذکورہ تین تنازعات میں سے آخرالذکر دو میں امریکہ کا براہ راست تعلق ہے جبکہ مسئلہ کشمیر میں بھی امریکہ کو کلی طور پر لاتعلق نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی طرف سے کئی بار مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششیں ہی نہیں‘ بعض صدارتی امیدواروں نے جیتنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل کا اعلان بھی کیا۔ ان میں اوباما صدر بنے مگر اپنا وعدہ بوجوہ ایفا نہ کر سکے۔ صدر بل کلنٹن نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی لی مگر معاملہ دلچسپی ہی تک محدود رہا۔ موجودہ صدر ٹرمپ متعدد بار پاکستان اور بھارت کو کشمیر ایشو پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسی لئے ثالثی کی پیشکش بھی بھارت نے مسترد کر دی اور امریکی صدور جو مسئلہ کشمیر کے حل میں سرگرم ہوئے بھارت کی سردمہری کے باعث انہوں نے بھی خاموش رہنے کو بہتر سمجھا، مبادہ امریکہ بھارت تعلقات میں کشیدگی کا عنصر شامل ہو جائے۔ لہٰذا یہ مسئلہ یوں کا توں نہ صرف موجود ہے بلکہ بھارت کے مظالم اور بربریت میں اضافے ہونے سمیت بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پر تیزی سے عمل بھی جاری ہے۔
مسئلہ کشمیر اور افغان ایشو خطے میں بدامنی میںاپنی مثال آپ ہے ہی کہ اس دوران امریکہ ایران کشیدہ تعلقات شعلہ جوالا بنتے نظر آنے لگے۔ امریکہ نے عراق میں مہمان ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر راکٹوں سے حملہ کر دیا۔ ان کے ساتھ 6 عراقی بھی جاں بحق ہو گئے۔ اس پر ایران کا شدیدردعمل آنا فطری امر تھا۔ اس کی طرف سے انتقام کا اعلان کیا گیا۔ امریکہ کی طرف سے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی دھمکی دی گئی۔ امریکہ نے گویا جنگ کی چنگاری کو ہوا دینے کی اپنی سی سعی کر دی تھی۔ تیسرے دن ایران نے عراق میں امریکی تنصیبات پر راکٹ فائر کئے۔ 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ امریکہ نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ اسی لمحہ امریکہ ایران کشیدگی اور جنگ کے بادل مزید گہرے ہو گئے۔ جنگ کے خطرات منڈلاتے واضح نظر آرہے تھے۔اس موقع پر عالمی برادری نے فریقین کو تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔ پاکستان کی طرف سے ایران امریکہ کشیدگی میں کمی کی کوششوں کے ساتھ غیرجانبدار رہنے کا دو ٹوک اعلان کر دیا گیا۔ امریکہ کو نازک صورتحال کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس نے ایران تنازع کو مزید آگے بڑھانے سے گریز کیا جس سے جنگ وقتی طورپر ٹل گئی مگر فریقین کی توپوں کے رخ بدستورایک دوسرے کی جانب ہیں۔ کوئی غلط فہمی یا تیسری قوت کی شرارت پھر صورتحال کو ابتری کی پستی تک لے جا سکتی ہے۔
پاکستان نے بنیادی طورپر ایران امریکہ تعلقات میں بہتری لانے کیلئے کوشش کی۔ فوری طورپر وزیراعظم نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فریقین، خطے کے اس تنازعہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والے ممالک کے ہم منصبوں سے رابطوں کی ہدایت کی۔ اس کے ساتھ ہی وزیرخارجہ‘ ایران‘ سعودی عرب‘ امریکہ‘ قطر اور دیگرممالک کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ ان کے دورے سے ایران امریکہ کشیدگی میں کمی کے بارے میں مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ اس دورے میں خصوصاً امریکہ کے دورے کے دوران انہوں نے امریکہ پرخطے میں امن کیلئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ ان میں سب سے اہم کشمیر ایشو ہے۔ بھارت اس معاملہ کو اپنا اندرونی معاملہ باور کراتا ہے۔ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی نے امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھارت کے موقف کی نفی کی ہے۔ہمیں پریشانی ڈیموگریفک تبدیلی 35A- کی ہے جس کے ذریعے وہ ڈیمو گریفک تبدیلی اور ایک اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پر ہمیں تشویش ہے اور ہم بات کر رہے ہیں اور میں امریکہ سے کہوں گا کہ وہ اپنی عینک کا نمبر تبدیل کرے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے کہا کہ اگر بھارت نے فالس فلیگ اپریشن کیا تو پاکستان جواب دے گا۔ امریکہ سے کہہ دیا آپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آیا۔ امریکہ نے افغان طالبان کی با اختیار کمیٹی کا مطالبہ کیا جو پورا ہوا۔ دو امریکی مغویوں کی بازیابی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔
شاہ محمود قریشی نے امریکہ کو خطے کی حقیقی تصویر دکھانے کے ساتھ آئینہ بھی دکھایا ہے۔ پاکستان خطے میں امن اور امریکہ کے مفادات کیلئے جو کچھ کر سکتا تھا‘ وہ کیا اب امریکہ کی باری ہے۔ وہ پاکستان کے مفادات کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان اس حوالے سے امریکہ سے امداد کا قطعاً طلبگار نہیں ہے۔پاکستان کی کوششوں سے افغانستان میں امن بحال ہوتا نظر آرہا ہے۔ طالبان نے اپنی کارروائیاں محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خلیج میں پاکستان کی کوششوں سے کشیدگی میں کمی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ضرورت اندرونی امن ہے۔ جو خطے کے امن سے بھی جڑا ہوا ہے اور خطے میں بدامنی کا سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کو شرما دینے والی پابندیاں لئے کرفیو کو چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ کشمیری ایک قیامت سے گزر رہے ہیں۔ انسانی المیہ بدترین شکل اختیار چکا ہے۔ امریکہ بھارت تعلقات میں بھی بڑی قربت ہے امریکہ بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا اعتراف کر چکا ہے۔ اس کی طرف سے بھارت کو مظالم سے باز رہنے کی تنبیہ بھی کی گئی۔ تشویش کا اظہار تو بار بار کیا گیا مگر بھارت پر اس کا کبھی پہلے اثر ہوا‘ اب ہو رہا ہے نہ آئندہ ہوگا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ مخلص‘ خطے میں امن کا دل سے خواہاں ہے تو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زور ڈالے۔ بھارت یقینا امریکہ کے دبائو کو قبول نہیں کریگا۔ امریکہ کی طرف سے بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کے حل جو اقوام متحدہ نے استصواب کی صورت میں تجویز کیا ہے‘ اس پر رضامند ہونے تک بھارت پر دفاعی و اقتصادی سمیت ہر قسم کی پابندیاں عائد کر دے۔ یہی ایک طریقہ بھارت کو راہ راست پر لا سکتا اور کشمیریوں کو جینے کا حق مل سکتا ہے۔