پیر ‘ 24؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 20؍ جنوری2020 ء
لاہور پاکستان کا دل ہے‘ میں یہ نہیں مانتا‘ اسد عمر
اب کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل تو نہیں جاتی۔ سو یہی جواب ہے اسد عمر کے دل کے نہ ماننے کا۔ ویسے تو بہت لوگ انہیں بھی حقیقی معیشت دان نہیں مانتے۔ کیونکہ اگر وہ واقعی ماہر معاشیات ہوتے تو کم ازکم اپنی حکومت ہی انہیں یوں یک بینی ودوگوش وزارت سے باہر نہ کرتی۔ لاہور پاکستان کا دل ہے یا نہیں اسکا فیصلہ اسدعمر نے نہیں کرنا۔ کروڑوں پاکستانی لاہور کو پاکستان کا دل کہتے ہیں۔ چاروں صوبوں کے عوام کسی اور بات پر متفق ہوں یا نہ ہوں مگر لاہور کی مقبولیت اور محبوبیت پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ ویسے ہمیں تو انکی یہ بات بھی ان کی طرف سے سیاسی مجبوری میں دیاگیا بیان معلوم ہوتی ہے کیونکہ موصوف آج کل کراچی کے دورے پر ہیں، جہاں انکی حکومتی ٹیم اپنے ایم کیو ایم کے اتحادیوں کو منانے کیلئے
روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چل آئی
بات کرے نہ دیکھو مجھ سے ظالم بڑا ہے ہرجائی
والی کیفیت میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں اسد عمر کو بھی حق ہے کہ وہ کراچی والوں کی خوشی کے لئے ان کا دل رکھنے کے لئے کراچی کو پاکستان کا دل کہیں یا دماغ، گردہ کہیں یا جگر‘ یہ ان کی مرضی ہے۔ کسی نے کونسا ان کی بات پر دھیان دینا ہے۔ کراچی پاکستان کا عروس البلاد ہے۔ روشینوں کا شہر ہے‘ غریب پرور شہر ہے‘ معاشی حب ہے اور یہ بات سب مانتے ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ اس بے مثال شہر میں جب امن تھا تو راتیں جاگتی تھیں۔ آج بھی اگر امن قائم ہو جائے، صنعتی ترقی شروع ہو جائے، کاروبار بحال ہو جائے تو یہ ممبئی اور دبئی سے ٹکر لینے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کارکن تیار رہیں‘ اسلام آباد مارچ کا دوبارہ اعلان کرسکتے ہیں: فضل الرحمن
خدا خیر کرے یہ بیٹھے بٹھائے اچانک مولانا فضل الرحمن کی باسی کڑی میں ابال کیوں آنے لگا ہے۔ کیا پہلے اسلام آباد مارچ کے زخم مندمل ہوگئے ہیں کہ وہ ایک اور مارچ کی نوید دے رہے ہیں جو شاید فروری یا مارچ کے مہینے میں ہوگا۔ یہ دو مہینے تو بہار کے ہوتے ہیں۔ بقول شاعر:
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
ایسا موسم جو بلبل وگل سے منسوب ہے‘ پھول مہک رہے ہوتے ہیں‘بلبلیں نغمہ سنج ہوتی ہیں‘ مولانا ڈنڈا بردار فورس کے ہمراہ اسلام آباد قلعہ پر چڑھائی کا پلان بنا رہے ہیں۔ یہ تو اس دلفریب موسم کی توہین ہے۔ ان کا پہلا تجربہ کونسا اچھا ثابت ہوا تھا کہ اب وہ ایک اور نیا تجربہ کرکے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ:
موسم بدلا رُت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہاراں کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
انکے کارکن بھی اپنے گریباں چاک کرنے کے لئے بے تاب ہیں ۔ بس خطرہ یہ ہے کہ کہیںاختلافات رکھنے والے کارکن آپس میں ہی ایک دوسرے کے گریباں چاک کرنے نہ لگ جائیں۔ مگر مولانا فضل الرحمن نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں‘ وہ پہلے ہی جلد خوشخبری ملنے کی آس دلا کر کارکنوں کا دل بڑا کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جماعت اسلامی کا انوکھا احتجاج، موبائل تندور نکال لیا
آج کل ملک بھر میں ویسے ہی آٹا آٹا ہو رہا ہے۔ ایسی ہاہا کار مچی ہے کہ لگتا ہے پاکستان سے آٹا عنقا ہوگیا ہے۔ باعث شرم ہے کیونکہ گندم کی پیداوار میں یہ ملک خودکفیل ہے۔ اسکے گودام اور سٹور بھرے پڑے ہیں۔ اگر سال دو سال ’’خاکم بدہن‘‘ قحط کی سی صورتحال ہو تب بھی ہمارے گندم کے سٹاک کے باعث آٹے کا بحران پیدا نہیں ہوگا، مگر کیا کیجیے اس حرص کا جو ملز مالکان‘ ڈیلرز اور ذخیرہ اندوزوں کو لاحق ہے جن کی ملی بھگت سے آٹے کی قیمت میں اضافہ کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی سے تنگ ہیں، انکی پریشانی میں اضافہ وزراء کے بیانات سے بھی ہو رہا ہے، جو نمکدان جیب میں لیے رہتے ہیں اور موقع بموقع عوام کے زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہیں۔ شیخ رشید کو دیکھ لیں کہتے ہیں نومبر دسمبر میں لوگ زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں ا سلئے آٹے کا بحران پیدا ہوا ہے۔ شوکت یوسفزئی کہتے ہیں روٹی کا وزن کم کرکے آٹے کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ فیاض الحسن کہتے ہیں آٹے کا بحران ہے ہی نہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حکومت آٹے کی ملوں پر چھاپے کیوں مار رہی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک موبائل تندور بنا کر عوام کے دکھ کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ تندور کتنے دن چلتا ہے۔ فی الحال تو اطلاعات کے مطابق گھریلو خواتین آٹے کے پیڑے بنا کر اس تنور پر روٹیاں لگانے جاتی ہیں۔ غریبوں کو البتہ مفت روٹی دی جارہی ہے۔ اسے ہم غیر سرکاری لنگر بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاید اسی تنور کے زور پر سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ عوام کے پاس آخری چوائس جماعت اسلامی ہی ہے۔
٭٭٭٭٭
انتہا پسند ہندوئوں نے گلوکارہ کو قوالی سے روک دیا
بھارت کے ان انتہا پسند ہندوئوں تو لگتی ہے ’’بدھی‘‘ (دماغ) کہیں کھو چکی ہے۔ یاوہ جان بوجھ کر سرسنگیت سے دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ صدیوں سے ہزار برسوں سے لاکھوں مندروں میں دیو داسیاں ناچ گا کر دیوی دیوتائوں کی پوجا کرتی ہیں۔ بھجن بھی ساز کے ساتھ گائے جاتے ہیں۔ رقص کو جسے جدید لوگ اعضا کی شاعری کہتے ہیں ۔ہندو شاستروں کے مطابق دھرم کا ایک حصہ ہے۔ رقص کی دیوی کی مورتی گواہ ہے کہ اس کی بھی پوجا ہوتی ہے۔ پھر یہ لکھنو میں’’رقص صوفی‘‘ پر ان بدھی مانوں نے حملہ کیسے کر دیا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اسلام میں رقص کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے اسلامی عبادات میں سازو آواز کے ساتھ ناچنے گانے کا کوئی تصور نہیں۔ بعد میں صوفیا کی بدولت سماع (قوالی) کو فروغ ملا تو اس میں بھی بڑا حصہ برصغیر کے صوفیا کا ہے۔ جنہوں نے قوالی کی شکل میں حمد و نعت و منقبت کے ذریعے آسان عوامی زبان میں لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کیا۔ شاید اس کا انتہا پسندوںکو غصہ ہے۔رقص صوفی بھی خالص ترک صوفی ازم کی پیداوار ہے مولانا روم کے پیروکار گھومتے ہوئے خاص انداز میں حالت جذب میں چلے جاتے ہیں ۔اب قوالی ہو یارقص صوفی اس سے ہندوئوں کو کیا تکلیف۔منجری چترویدی ایک مہان کلاسیکی کلاکار ہیں۔ ان کے نرت بھائو اور رقص میں مہارت کی ایک دنیا دیوانی ہے۔ انہیں لکھنو کی سرکاری تقریب میں رقص صوفی پیش کرتے ہوئے جس طرح ہندو انتہا پسندوں نے روکا وہ ان بدذوقوں کی کوڑھ مغزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں قوالی ہو رہی ہے۔ اب بھلا انہیں قوالی اور رقص صوفی کا فرق کون سمجھائے اگر قوالی نہ بھی ہوتی وہ کسی مسلم آئیٹم کو پیش کرنے کی اجازت یہ تب بھی نہ دیتے مسلمانوں کی ہرچیز سے نفرت کی یہ آگ رواداری کی ہرنشانی بھسم کرتی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭