پاکستان اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی گوناگوں مشکلات کا شکار رہا۔ جب 14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا تو ہندوستان سے لُٹے پٹے قافلے پاکستان میں آباد ہونا شروع ہوئے اور یہاں سے ہندوئوں نے ہجرت کی۔ موقع شناس اور اثر و رسوخ کے حامل افراد نے ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضہ شروع کر دیا۔ حکومت پاکستان کے سامنے مسائل کا انبار تھا۔ بے گھروں کی آباد کاری، نظام حکومت کا قیام، سرکاری دفاتر اور ان کے چلانے کا انتظام، اوپر سے ہندوستان نے پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ نتیجتاً حکومت پاکستان کا خزانہ خالی۔ اس پر ستم ظریفی ابتدائی سالوں میں ہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خالق حقیقی سے جا ملے اور اس کے بعد ان کے دیرینہ ساتھی اور وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔
1950ء سے پھر سیاست دانوں نے لوٹ مار ، اقربا پروری کا وہ بازار گرم کیا کہ روز حکومتیں ٹوٹنے اور بننے لگیں۔ عوام پریشان ملک بدحال ایسے میں 1957ء اکتوبر میں اس وقت کے کمانڈر انچیف مرحوم جنرل محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی گئی۔ ملک میں قانون پر عملدرآمد اور خوشحالی کا آغاز ہوا۔ کراچی کی ایم اے جناح روڈ نے بڑے بڑے سرمایہ داروں ، سیاست دانوں اور شہر کے رئیسوں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کان پکڑے، سائیکل اٹھا کر چکر لگاتے اور سزائیں ملتے دیکھا۔ اس دور حکومت کے دس سالوں میں سیاسی بندش رہی مگر ملک میں ترقی کی رفتار بڑھی، ماہانہ تنخواہیں 100 روپے سے بڑھ کر 235 روپے ہو گئی۔ ٹیکسٹائل کی امپورٹ بڑھی ۔ پاکستان سے کپاس پٹ سن وغیرہ بڑی مقدار میں برآمد ہونے لگی اور پاکستان کا پنجسالہ منصوبہ دیگر ملکوں نے بھی اپنانا شروع کر دیا اور وہ ملک انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں جبکہ اسی دور میں پاکستان نے جرمنی کو 135 ملین کا قرضہ بھی دیا اور 9 عدد ڈیم جن میں تربیلا اور منگلا جیسے عظیم ڈیم شامل ہیں بنائے گئے۔ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا کہ اسے 1965ء کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جو ہندوستان نے تمام مروجہ اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان سے شروع کی۔17 دن تک جاری رہی گو یہ جنگ پاکستان نے اپنے سے 3 گنا طاقتور دشمن کے خلاف تقریباً جیت لی تھی مگر ہمارے حلیف امریکہ کی جانب سے اسلحہ اور فوجی سازو سامان پر پابندی کی وجہ سے تاشقند میں Ceasefire قبول کرنا پڑی اور جب بھارت کو اس بات کا پتہ چلا کہ اگر یہ جنگ بندی نہ ہوتی تو پاکستان 2 دن سے زیادہ اسے جاری نہ رکھ سکتا تھا تو بھارتی وزیراعظم اس صدمہ کو نہ برداشت کر سکے۔
اس جنگ کے بعد پاکستانی معیشت اور وسائل پر بہت شدید دبائو آیا اور ترقی کی رفتار سست ہونا شروع ہو گئی ہماری GDP 6.4% سے گر کر 4.8% ہوئی۔ اسی دوران بھارت نے ایک اور منصوبے پر عمل شروع کیا اور بنگلہ دیش (اس وقت کے مشرقی پاکستان) میں مکتی باہنی کو عوامی لیگ اور اس کے نظربند لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ ملکر تربیت دینا شروع کر دی۔ ادھر مغربی پاکستان میں سیاسی بے چینی بڑھنے لگی اور سیاست دانوں میں دبے لفظوں میں ایوب خان کے خلاف آوازیں اٹھانا شروع کر دیں جس میں ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو جن کو کابینہ سے برطرف کر دیا گیا تھا‘ پیش پیش تھے۔ اسی دوران ایوب خان شدید علیل ہوئے اور فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا یہ مارچ 26 (1969ئ) کا دن تھا اور عنان اقتدار سنبھال کر ملک میں صاف شفاف انتخابات کا عندیہ دیا۔ بھارت نے ایک دفعہ پھر پوری تیاری مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی مدد اورحمایت سے حملہ کیا اور اس طرح 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس طرح بھٹو اقتدار کی سیڑھی چڑھے اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے واحد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے ان کے 5 سالہ دور حکومت میں تمام اہم صنعتوں کو قومیا گیا اور پھر تمام سرکاری محکموں میں بے شمار بھرتیاں کی گئیں ۔ نتیجتاً نفع بخش ادارے خسارے کا شکار ہونے لگے۔ ملک پر قرض (اندرونی و بیرونی) قرض بڑھنے لگا گوکہ زرمبادلہ کی ترسیل پاکستانی لیبر جو بھٹو نے مشرق وسطی بھیجی تھی بڑھنے لگی تھی مگر اتنی نہ تھی کہ قرض کی قسطیں اترتیں سیاسی بے چینی کے نتیجہ میں ایک اور مارشل لاء جنرل ضیاء الحق جو اس وقت فوج کے سربراہ تھے نے لگایا۔ ان کے 11 سالہ دور میں ملک کچھ استحکام کی طرف بڑھا نہ صرف امریکہ سے ایف 16 طیاروں کے دو اسکواڈرن حاصل کئے بلکہ تینوں افواج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ 4.48 بلین ڈالر کی فوجی و اقتصادی مدد بھی لی اور نہایت خاموشی کے ساتھ افغانی جنگ کے تناظر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جس کا آغاز 1961ء میں ایوب خان نے کراچی میں فرانس کی مدد سے ایٹمی ریکٹر لگا کر کیا تھا اورمرحوم بھٹو نے اس کا باقاعدہ پروگرام جاری رکھنے کے لیے انتہائی تگ و دو کی تھی۔
ضیاء الحق کی ہوائی حادثہ میں ہلاکت کے ملک میں برسراقتدار حکمرانوں نے جن میں نواز شریف ، بے نظیر اور زرداری شامل ہیں۔ ملکی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دینے کی بجائے ایسے منصوبوں میں ہاتھ ڈالا جن کے ذریعہ انہوں نے بے شمار دولت Kicks back کی صورت میں وصول کی اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نواز شریف اس وقت تقریباً 10 بلین ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں جبکہ 1970-80 ء کی دہائیوں ان کے کل اثاثے چند لاکھ میں تھے جبکہ آصف زرداری تقریباً11 بلین ڈالر مالیت کے اثاثوں کے مالک اور پاکستان ان کے 3 دور میں لیے کھربوں کے قرضوں کا مقروض ہے جن کی قسطوں کی ادائیگیوں کے لیے تقریباً0 300 کھرب روپوں کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ حکومت کی کل آمدنی 3600 کھرب روپے بتائی جاتی ہے۔
یہی وہ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بجلی ، گیس، پٹرول اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کا رحجان پایا جاتا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ ملک میں اتنا عملہ موجود نہیں ہے کہ وہ ہرجگہ ریٹ لسٹ چیک کرے یا اس پر عمل درآمد کرا سے جس کی بنا پر ہر کوئی من مانی قیمتیں وصول کرتا ہے اور مہنگائی کا یہ نہ کنٹرول ہونے والا جن عوام کو بے حال کئے جا رہا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال میں دئیے دیتا ہوں جس سے آپ کو واضح ہو جائیگا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔ پچھلے ہفتہ ہمیں سبزی منڈی جانے کا اتفاق ہوا وہ جو ہم نے ریٹ دیکھے وہ دھڑی (5 کلو) کے ریٹ تھے جن میں سبزیاں اور فروٹ پیاز ، ٹماٹر ، لہسن وغیرہ شامل تھے۔
لال انار جو دکانوں اور تھیلوں پر پرچون میں آپ کو نظر آئیگا اس کا ریٹ دوکاندار اور ریڑھی والا 260-300 روپے کلو طلب کرتے ہیں جبکہ منڈی میں ایک دھڑی (5 کلو) 540 میں بک رہا ہے اسی طرح ہر چیز کا ریٹ ایک چوتھائی کے برابر دھڑی کا ریٹ ہے تو اصل منافع یہ دکاندار اور ریڑھی والے کما رہے ہیں اور مجبوری میں ان کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ وہ منڈیوں کا ریٹ اور دکانوں پر با ریڑھیوں پر بکنے والے ریٹ کو عوام تک نہ صرف پہنچائے بلکہ ایسے تمام منافع خورں کے خلاف کارروائی کر سکے۔
دوسرا بڑا مسئلہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتوں کا اتار چڑھائو بھی ہے لیکن اس سے زیادہ عوام کی بے خبری بھی ہے۔ اگر آپ بجلی کے بل کو غور سے دیکھیں تو اس میں بھاشا ڈیم، بجلی کی ترسیل میں چوری کے چارجز اور پھر ہر مد میں ٹیکس لگا کر ٹوٹل بل پر پھر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے جو سراسر ناجائز ہے اور حکومت اس سے بے خبر بھی ہے۔ یہی حال پٹرول کا ہے اس میں تقریباً 34 روپے تو ایسٹ پاکستان ریلیف فنڈ، 65 وار فنڈ، 71 وار فنڈ کے ساتھ 35 روپے PTV چارجز وصول کئے جاتے ہیں بے شک آپ کے گھر میں TV ہے یا نہیں یا آپ نے کبھی PTV دیکھا بھی نہیں ہو گا مگر یہ جرمانہ میری نظر میں اگر حکومت عوام کی مشکلات حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے مارکیٹوں کے نظام اور ریٹ لسٹوں پر نہ صرف توجہ دینی پڑے گی بلکہ ان نرخوں پر عملدرآمد بھی کرانا پڑے گا۔ ساتھ ہی Imported خورد و نوش کی اشیاء اور غیر ضروری چیزوں کی درآمد مکمل طور پر بند کرنی پڑے گی۔ برآمد کنندگان کو فوری طور پر Rebeates ، صنعتی یونٹوں کو بجلی، گیس کی ترسیل تاکہ پیداوار بڑھے، کارخانے کام کرینگے تو Jobs بھی پیدا ہونگی جب کارخانے بند ہوں یا خام مال اور دیگر اشیاء استعمال کی قیمتوں میں بے سبب بے شمار اضافہ ہو جائے تو پھر پیداوار نہیں ہو گی اور کارخانوں ، فیکٹریوں کے ساتھ مزدوری بھی ختم ہوتی جائیگی۔
ارباب اختیار اور خصوصی طور پر وزیراعظم پاکستان کو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کر کے لائحہ عمل بنانا ہو گا اگر ان مسائل کوحل کرنے کی بجائے صرف تقریروں اور بجٹ کی شعبدہ بازیوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی تو پھر ہم بہت جلد واپس پتھر کے دور کی طرف چلے جائیں گے اور یا پھر عوام پوری طاقت سے باہر نکلیں گئے اور سیاستدانوں ، حکمرانوں اور لوٹ مار کرنے والے لیڈروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں اب بھی وقت ہے ہم سب اپنا قبلہ درست کر لیں کہ دشمن تاک میں ہے اور ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے کہیں اس کا آسان شکار نہ بن جائیں اور عوام اور ایٹمی طاقت دیکھتی رہ جائے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024