یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارتی حکمرانوں خصوصاً BJP نے کوئی بھی چنائو جیتنے کیلئے ایک آسان اور تیر بہ ہدف نسخہ ایجاد کر رکھا ہے اور تاحال انھیں اس کے خاطر خواہ نتائج بھی مل رہے ہیں۔ پونے چھ سال پہلے جب 26 مئی 2014 کو بھارتی لوک سبھا کے نتائج سامنے آئے تو BJP واضح اکثریت سے جیت چکی تھی اور اس کے بعد سے تو یہ فارمولا ایک طرز عمل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے چند روز پہلے جب دہلی کا انتخابی شیڈول سامنے آیا تو ہر باشعور سنجیدہ حلقے کو بجا طور پر یہ خدشہ محسوس ہونے لگ گیا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے دہلی یا بھارت کے کسی بھی حصے میں تخریب کاری کا کوئی واقعہ سر انجام دینے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں تا کہ اس کے نتیجے میں ایک نئی انتخابی فتح حاصل کی جا سکے۔ اس سے مودی سرکار کو دو فائدے حاصل ہوں گے، ایک تو دہلی کے انتخابات میں اس کی جیت کے امکانات قدرے بڑھ جائیں گے تو دوسری جانب ہندوستانی عوام کی توجہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل سے وقتی طور پر ہٹ جائے گی اور ہمیشہ کی طرح اس واقعے کی ذمہ داری بھی پاکستان کے کندھوں پر ڈال کر مودی اور اس کے ہمنوائوں کا ٹولہ بآسانی سرخرو ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ دہلی کی 70 رکنی صوبائی اسمبلی کا چنائو 9 فروری کو ہوگا جبکہ گیارہ فروری کو نتائج سامنے آئیں گے۔ 2015 میں عام آدمی پارٹی کو دہلی میں 67 نشستوں پر مشتمل یکطرفہ مینڈیٹ حاصل ہوا تھا اور تجزیہ نگاروں کے مطابق تاحال دہلی میں اروند کجریوال کی زیر قیادت عام آدمی پارٹی کو کسی حد تک سبقت حاصل ہے۔ دوسری جانب سونیا گاندھی کی سربراہی میں کانگرس بھی ہر ممکن سعی کر رہی ہے کہ دہلی میں اپنی واپسی کی راہ ہموار کر سکے۔ واضح رہے کہ کانگرس کی شیلا دکشت 15 سال تک دہلی میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں اور ابھی چند ماہ پہلے ہی ان کی وفات ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ BJP ہر قیمت پر دہلی کو جیتنے کی خواہاں ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 20 برس پہلے سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی قیادت میں BJP دہلی میں برسر اقتدار رہی تھی۔
بہرحال بھارت ’’پلوامہ ٹو‘‘ کی غالباً حتمی منصوبہ سازی مکمل کر چکا ہے اور اس کی جزئیات تک طے کر لی گئی نظر آتی ہیں۔ اسی لئے بھارتی میڈیا کو یہ ’’ٹاسک‘‘ دیا جا چکا ہے کہ وہ پاکستان سے ’’مبینہ‘‘ تخریب کاروں کی بھارت میں آمدکا ڈھنڈورا پیٹتا رہے اور اس تاثر کو مزید پختہ کرتے چلے جائیں۔ یاد رہے کہ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر چند روز قبل انڈین پولیس کے جموں و کشمیر تعلق رکھنے والے ڈی ایس پی رویندر سنگھ کو دو مبینہ حزب المجاہدین کے کارکنوں نوید بابا اور الطاف کے ہمراہ گرفتار کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا گیا کہ رویندر سنگھ انڈین آرمی کی پندرہویں کور کے ہیڈ کوارٹر سے بالکل متصل رہائش گاہ تعمیر کر رہے تھے اور خالصتان تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ حالانکہ بھارت پاکستان پر الزام لگانے سے قبل مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے کھولتے لہو اور گھائل سینوں کو کیوں فراموش کر دیتا ہے جو آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کسے علم نہیں کہ 14 فروری 2019 کو مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ ضلع میں مبینہ خودکش حملے کے نتیجے میں 40 سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے تھے، بھارتی حکومت نے اپنی سابقہ روش کے عین مطابق اس کی ذمہ داری بھی پاکستان کے کندھوں پر ڈال دی تھی، مگر جھوٹ کے پائوں کہاں ہوتے ہیں؟ خود کئی بھارتی حلقوں نے اس بات کا ببانگِ دہل اظہار کیا کہ بھارت میں پاکستان کی جانب سے کوئی دہشتگردانہ کارروائی نہیں ہوئی بلکہ یہ تمام ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھاتبھی تو بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈی ایس ہوڈا نے بھارتی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنی مقدار میں پاکستان سے کوئی شخص بارودی مواد تقریباً 150 کلومیٹر دور لے جا سکے اور وہ بھی ایک ہائی سیکورٹی زون میں ، اوریہ سوال تاحال جواب طلب ہے کہ ارد گرد موجود 2500 بھارتی فوجیوں کے عین درمیان 350 کلو بارودی مواد گاڑی میں رکھ کر کوئی شخص تنِ تنہا اتنا اندر کیسے جا پہنچا ؟ ‘‘۔
علاوہ ازیں پاکستان کے تمام علاقوں خصوصاً بلوچستان ، فاٹا میں بھارت جو مسلح مداخلت کر رہا ہے اس کا اعتراف خود امریکہ کے سابق وزیر دفاع ’’ چک ہیگل ‘‘ ایک سے زائد مرتبہ کر چکے ہیں ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بھارتی حکمران اپنے ان گناہوں کو چھپانے کے لئے الٹا پاکستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کو بدنام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر ’’ اجیت ڈووال ‘‘ اعلانیہ طور پر اس امر کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ ان کی حکومت نے پاکستان اور دیگر ہمسایوں کے خلاف ’’ اوفینسیو ڈیفینس ‘‘ یعنی جارحانہ دفاع ‘‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے ۔
اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ 26 جنوری بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کو کشمیری و دیگر انسان دوست حلقے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور 5 اگست 2019 کے بعد سے تو قابض بھارتی فوجیوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے، اس کا اعتراف ہر شخص کر رہا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 26 جنوری 1950 کو بھارت میں آئین کا نفاذ عمل میں آیا تھا اور اسی حوالے سے ہر سال یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے اور بھارت کی مذہبی و لسانی اقلیتیں اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہیں ۔
اس سے بھارتی حکمرانوں کے قول و فعل میں تضادات واضح ہو جاتے ہیں اور بھارت کے جمہوری دعوؤں کی قلعی بھی پوری طرح کھل جا تی ہے ۔ ایسے میں عالمی برادری کو بھی غالبا ً بہتر اندازہ ہو جانا چاہیے کہ بھارت کے اکثر علاقوں میں ہندوستانی یومِ جمہوریہ کو سیاہ دن کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے اور نام نہاد جمہوریت کی اصل شکل کیا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024