2020ء کی اہم ترین خبر مشرف کی سزا کا ختم ہونا ہے‘ ضیاء الحق نے کہا تھا آئین کیا ہے؟12صفحوں کی کتاب‘ کسی بھی وقت پھاڑ کر پھینک دوں‘ یہ آئین توڑنا تھا‘ ایمرجنسی تو دستور میں شامل ہے‘ ایمرجنسی لگانا آئین میں شامل اگر یہ کام آمر کے بجائے حکومت کرے تو کیا غداری کا مقدمہ بنے گا۔ بھٹو کا نعرہ تھا طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نظریہ کدھر گیا؟ زمینی حقائق سے نظریں چرانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ تحریک انصاف چند چھوٹی اتحادی جماعتوں کی حمایت اور معمولی عددی برتری سے ملک پر حکومت کر رہی ہے اتحادی اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہیں‘ ایم کیو ایم کو منانے کا حکومتی مشن ناکام ٹھہرا ہے متحدہ کے 7ووٹ تعداد میں کم وزن میں بھاری بھرکم ہیں۔ حکومتی ڈھانچہ اپنی بقاء کے لئے چھوٹی جماعتوں کے چند ووٹوں کا مرہون منت ہے۔ اتحادی حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں لیکن اپنے مطالبات پر سختی سے قائم ہیں۔ سیاسی خرابیاں معاشی خرابیوں کو جنم دیتی ہیں۔ ہم مقامی ضرورت کے مطابق کپاس تک پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ ملک مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے کبھی ٹماٹر کا بحران سر اٹھا لیتا ہے اور کبھی گندم اور آٹے کی قلت کے خدشات سر ابھارنے لگتے ہیں پھر ہماری مشرقی اور مغربی سرحدیں بھی مسلسل ہنگامہ خیزی کی زد میں رہتی ہیں۔ گزشتہ 72سال میں آج تک صرف تین بار پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور وزیراعظم ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہو وزیراعظم کو قبل از وقت گھر یا جیل جانا پڑا۔ اب پھر صورتحال بے یقینی والی ہے۔ شریف برادران لندن کے ریستوران میں ڈنر کر رہے ہیں اور زرداری کی بھی سلاخوں سے جان چھوٹ گئی۔ این آر او کی تعریف پر نظر ثانی درکار ہے۔ احتساب کی بتی ٹرک سمیت دریا برد ہو گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 28 روپے سے زائد لٹر کا اضافہ ہوا۔ وزیراعظم کے 22غیر ملکی دوروں پر 119.57 ملین روپے خرچ ہوئے۔ 50لاکھ نہ سہی سوا لاکھ نئی بھرتیوںکی ہدایت تو کر دی گئی ہے۔ سوا لاکھ بار آیت کریم پڑھنے سے بڑی سے بڑی مشکل ٹل اورحل ہو جاتی ہے۔ یہ بھی قرب قیامت کی علامت ہے کہ قرآن پاک کو سیاسی معاملات کے بیچ لایا جا رہا ہے۔ جھوٹے پر اللہ کا قہر کہہ کر قومی اسمبلی میں شہریار آفریدی اور رانا ثناء اللہ دونوں نے قرآن اٹھا لیا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ سکیورٹی خطرات سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت نے شرح سود اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی اور شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے صنعتی یونٹ جو پہلے ہی چالیس فیصد پیداواری صلاحیت کے ساتھ چل رہے ہیں بند ہونا شروع ہو سکتے ہیں کئی کار مینو فیکچرنگ پلانٹ جزوی طور پر بند ہو چکے ہیں جس سے ملک کی مقامی پیداوار 40 سے 60فیصد تک کم ہو گئی ہے اور ہزاروں افراد ملازمت سے فارغ ہو چکے ہیں کاروں کی قیمتوں میں اوسطاً 13لاکھ روپے اضافہ ہوا ہے۔ ملکی قابل کاشت رقبے کا 26فیصد شور زدہ ہو گیا ہے صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو غذائی ضروریات میں مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عمران حکومت قائم ہوئے500 دن ہو چکے ہیں۔ انتخابات سے پہلے جاری کردہ ایجنڈے کا کیا ہوا؟ کیا طرز حکومت میں تبدیلی کی کوئی مشکل دکھائی دیتی ہے؟ انتخابی منڈی میں بہت اونچی بولیاں دی گئیں۔ 2020ء تہلکہ خیز ہو گا سارا نظام تبدیل کر کے اس کی جگہ صدارتی سسٹم لایا جا سکتا ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان تنائو برقرار رہے گا معاملات جنگ کی طرف نہیں جائیں گے ایران پر حملے کی آر میں امریکہ ’’سی پیک‘‘ کو نشانہ بنا سکتا ہے گوادر کی بندرگاہ اپنے ہاتھ میں لے کر خطے میں چین کا اثروسوخ ختم کرنا چاہتا ہے۔ ابھی سیاسی تبدیلی نہیں آرہی‘ (ن) لیگ کی قیادت کون؟ یہ بھی کسی کو پتہ نہیں۔ ایم کیو ایم نے کراچی کارڈ ’’کیوں کھیلا‘‘۔ ایم کیو ایم کو وفاق کے بدلے صوبائی وزارتیں دینے کی پیش کش کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ شراکت میں متحدہ کے حلقوں کی سنجیدگی دیکھنے میں آرہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں ایک بار پھر جرگہ سسٹم بحال ہونے جارہا ہے‘ کابینہ میں ایک بار پھر ردوبدل کے فیصلے پر خواتین ارکان اسمبلی کے ساتھ کارکن خواتین میں بھی مایوسی پھیل گئی۔ کسی خاتون رکن کو کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی تھی اور اس بار بھی ایسا ہی کیا گیا۔ بلوچستان میں حکمران جماعت کے ارکان الیکشن ٹربیونل سے نااہلی نے 2018ء انتخابات کے بارے میں نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ بلوچستان میں ماضی میں بھی انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے شکایات سامنے آئی ہیں۔ مزاحمتی سیاست میں ایک بڑا نام کمانے والے جنوبی پنجاب کے سیاستدان جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب کا نام ’’ہاں میں باغی ہوں‘‘ رکھا انہوں نے (ن) لیگی قیادت کی جلا وطنی کے دوران جیل کاٹی‘ کریڈٹ چودھری نثار کو ملا۔ (ن) لیگ میں آج بھی جاوید ہاشمی کا خلا ہے وہ (ن) میں ہوتے ہوئے بھی (ن) میں نہیں یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ بیمار صنعتوں کی بحالی کا پروگرام 1982ء کے اوائل میں بیگ کمیٹی کے نام سے شروع ہوا تھا۔ ہزاروںکی تعداد میں صنعتی یونٹ بند ہونے سے لاکھوں افراد اور ہنر مند بے روزگار ہو چکے ہیں یہ سب بینکوں کے ڈیفالٹر تھے اب ایک بار پھر ان کی بحالی کے لئے پاکستان کارپوریٹ ری سٹرکچرنگ کمپنی قائم کی گئی ہے۔ 10 بڑے بینک اس کمپنی کا حصہ ہیں۔ صنعتوں کو بیماری 1973ء میں نیشنل ئزیشن کے بعد لاحق ہوئی تھی واللہ اعلم مذکورہ کمپنی مردوں میں کس مسیحائی سے جان ڈالے گی؟۔ایک زمانہ تھا کہ راشن ڈپو اور راشن کارڈ ہوا کرتے تھے اس وقت ملک میں 5491 یوٹیلٹی سٹورز ہیں ان کے ذریعے سات ارب روپے کے ریلیف پیکج کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس ضمن میںوزیراعظم کی طرف سے جلد راشن کارڈ کے اعلان کا انتظار ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز پر وقتاً فوقتاً چھاپوں کے دوران جعلی‘ ناقص اور زائد المیعاد اشیاء بھی برآمد ہوتی رہی ہیں۔ متحدہ رہنما خالد مقبول صدیقی کا استعفیٰ حکومت کے لئے پیغام ہے‘ سیاسی جماعتیں مسائل سے زیادہ کراچی پر قبضہ کی خواہش پالے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا اعلان چائے کی پیالی میں طوفان ہے۔ حکومت کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہو گی‘ حکومت بنانے والے جب تک حکومت کے ساتھ ہیں تب تک کچھ بھی نہیں ہو گا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے معیشت کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔ ساڑھے تین ارب ڈالر خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہو رہے ہیں۔ خوردنی تیل کی پیداوار بڑھی ہے لیکن بڑے پیمانے پر انحصار کے لئے فی ایکڑ پیداوار 25من فی ایکڑ ہونی چاہئے۔ ہمارے پاس گیس کا ذخیرہ کرنے کے حوالے سے کوئی سہولت نہیں۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان پاکستان میں ہی کھل جاتا ہے۔ افغانستان جا کر واپس پاکستان آجاتا ہے گزشتہ مالی سال غلط ڈیکلریشن اور انڈرانوائسنگ کے ذریعے چار ارب ڈالر ریونیو نقصان ہوا۔ رواں سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے ہے۔ گزشتہ سال حکومت 3822ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر سکی تھی۔ چند ارب کے احساس پروگرام یا نوجوان پاکستان پروگرام لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار نہیں دے سکتے۔ قانون سے بے خوفی کایہ عالم ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا جب فوڈ اتھارٹی چھاپے مار کر ملاوٹی مال برآمد کرتی ہے مٹھائی‘ دیسی گھی اور کھویا کے یونٹوں میں چوہے اور حشرات پکڑتی ہے۔ یونٹ سر بمہر کرتی جرمانے اور نوٹس جاری کرتی ہے۔ جیسے پولیس میں بار بار انکوائریاں بھگتنے اور سزا پانے والے تگڑی سفارشوں پر بحال ہو جاتے ہیں حیرت ہے شہریوں پر جھوٹے مقدمات درج کرنے کے الزامات میں قصور ثابت ہونے سمیت بدعنوان انسپکٹر دوبارہ تھانوں میں حکمرانی کرتے ہیں۔ کرپٹ سرکاری ملازم اینٹی کرپشن کو آنٹی سمجھتے ہیں دے دلا کر باہر آجاتے ہیں۔ پنجاب بھر میں آوارہ کتوں کے کاٹے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاہور کی سوا کروڑ آبادی کے لئے کتے کاٹے کی صرف46 ویکسین دستیاب ہیں۔ مرغی کا گوشت بھی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ ایران امریکہ حالیہ کشیدگی سے عالمی منڈی میں بے چینی سے سونے کی قیمت 7 سال کی بلدن سطح پر پہنچ گئی‘ خام تیل کی قیمتیں تین ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں جبکہ 2فیصد اضافے کے ساتھ تیل کی فی بیرل قیمت 71ڈالر سے زائد ہو گئی جو گزشتہ سال سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد سے بلند ترین سطح ہے پاکستان میں پچھلے چار سال کی نسبت افراط زر میں دگنا اضافہ ہوا ہے سرکار کے نزدیک معیشت پہلے سے بہتر ہے روپیہ بھی کنٹرول میں ہے کاروباری طبقہ مہنگائی کر رہا ہے آئی ایم ایف کے ہر پروگرام کے بعد اگلی حکومتیں بھی یہی کہتی تھیں کہ ہم یقین دلاتے ہیں یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا گراں فروشوں کے خلاف حکومتی کارروائی معمولی جرمانوں اور بعض کی گرفتاری سے کبھی آگے نہیں گئی ہر ریڑھی والے کو پابند کیا جائے کہ وہ بھی ہر پھل کی ٹوکری پر موٹے لفظوں سے سرکاری مارکیٹ کمیٹی کی قیمت کا کارڈ آویزاں کرے خیبر سے کراچی تک گڈز ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام رہنے سے اشیائے ضروریہ سے لیکر ادویات تک کی نقل و حمل بند رہی۔ رزاق دائود کا شمار تو پاکستان کے 22خاندان والے سیٹھوں میں ہوتا ہے وہ یہ تو بتا دیں کہ بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کاروباری طبقہ کرتا ہے یا سرکاری ان کا شکوہ ہے کہ پاکستانیوں میں عالی وژن ہے نہ صبر۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024