پاکستان کی آبادی 60فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر یہ ملک ترقی کرسکتا ہے، اس کی پیش نظر حکومت نے نیشنل یوتھ ڈویلپمنٹ انڈیکس پروگرام فوری طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اس منصوبے کا نام ’’کامیاب نوجوان‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کا مشترکہ پروگرام ہوگا۔اس پروگرام کے تحت ملک بھر کے نوجوانوں سے متعلق ڈیٹا بیس اکٹھا کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ملک بھر میں اضلاع اور تحصیل کی سطح پر سروے کیا جائے گا۔تعلیم ،صحت اور روزگار کے حوالے سے نوجوانوں کی ترجیحات کا تعین کیا جائیگا اور حکومت پتہ لگائے گی،کس صوبے میں نوجوانوں کو کون سے مسائل ہیں ،حکومت سروے کے دوران ہر نوجوان کی ذاتی رائے بھی لے گی۔یقینا حکومت کا یہ ایک احسن اقدام ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتااور یہ بات بھی سچ ہے کہ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔قوم کے معمار ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔دنیا بھر میں نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں۔اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواں ہو تو پورا جسم کمزور پڑ جاتا ہے،جسم میں سکت نہیں رہتی۔ راہ راست ہی نوجوانوں کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے ،جس کی سب سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔جیسا کے میں آغاز میں بھی عرض کر چکا ہوں کہ محتاط اندازوں کے مطابق 60فیصد پاکستانی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں،اسی لئے بہت سے نوجوان بین الاقوامی سطحوں پر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں ،جو نوجوانوں کا خاصہ تصور کی جاتی ہیں۔ان میں ہمت ہے، جذبہ ہے ،یہ قابل ہیں، ذہین ہیں بہادر ہیں، اور محنتی بھی ہیں۔
نوجوان ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح ؒنے تحریک پاکستان کے دوران نوجوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میں آپ کی طرح جوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے،آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے‘‘۔نوجوان دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ہمت و جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ ان کی خوبی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔اس قوم کی راہ ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں۔جن قوموں کے نوجوان ان صفات سے عاری یعنی سست وکاہل ہوں گے، وہ قومیں خودبخود بربادی کی طرف رواں ہو جائیں گی۔
علامہ اقبا لؒ نے بھی اپنی شاعری میں نوجوانوں کو ہی بیدار ہونے پر زور دیا ہے ، اُن کی شاعری کا مسلم جوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ الگ وطن حاصل کرکے ہی دم لیا۔ مسلم جوانانِ ہند نے کردکھایا کہ ان میں عقابی روح موجود ہے۔بقول علامہ ؒ
نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مومن ہے‘ خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
حکومت کے اس احسن اقدام کو جس قدر سراہا جائے وہ کم ہو گا کیوں کہ آج ہمارے ہاں نوجوانوں کو سب سے بڑ ا جو درپیش مسئلہ ہے ،وہ بے روزگاری ہے۔تعلیم و ہنر کا فقدان تو برسوں سے چلا آ رہا ہے اس میں کمی بھی ہورہی ہے۔مگر بے روزگاری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔لاکھوں روپے کے خرچ اور محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان ادھر ہی کھڑا رہتا ہے، جہاں وہ ڈگری حاصل کرنے سے پہلے تھا۔نوجوانوں کی ضروریات اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہماری ریاستی ناکامیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ہمارے ہاں ہمیشہ کی طرح سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان نوجوانوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ،انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔تعلیم کا چاہے حرج ہو جائے،ان کے جلسوں میں ضرور شامل ہوں۔حکومت اگرنوجوانوں کے لئے کوئی پالیسی بنا تی ہے ،تو اس کی شرائط ہی اتنی کٹھن ہو تی ہیں کے نوجوان اس سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ بلکہ سیاستدانوں کے لاڈلے اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہ سابق حکومتوں کا ہی سب سے بلنڈر ہے کہ آج کے نوجوان یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ یا میرا پاکستان میں مستقبل کیا ہے؟ یہ دو انتہائی اہم ترین سوال ہیں جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں مستقل گردش کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اندر پھیلی ہوئی لاقانونیت، کرپشن اور اقرباء پروری کے باعث ذہن میں اِس طرح کے سوالات کا اُٹھنا کچھ غلط بھی نہیں ہے، اور کبھی نا کبھی انسان یہ بات سوچنے پر ضرور مجبور ہوجاتا ہے کہ اُس کو اپنے مستقبل کے سہانے خواب کسی اور ملک میں ہی سجانے چائیے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں۔ میرا تو اِس بات پر یقین ہے اور آپ سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ بھی اِس بات پر یقین رکھیے کہ دنیا کی کوئی قوم اور ملک اِس وقت یہ دعوی کرنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ وہ فنا ہونے کے خطرے سے دوچار نہیں۔ آپ پورے یورپ کو اٹھاکر دیکھ لیجیے، ہر وقت اُن کے سنجیدہ طبقات میں یہی گفتگو جاری ہے کہ کس طرح ہم اپنے سماج کو بچائیں؟ کسی کو اپنے مذہب کے فنا ہونے کا خطرہ ہے، کسی کو اپنی معیشت کے بیٹھ جانے کا ڈر تو کسی کو باصلاحیت افراد کی کمی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ آئے دن وہ مختلف عنوانات سے دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قسم کے افراد کو اپنے ہاں بلاتے ہیں۔ لیکن اُن کے سنجیدہ طبقات میں جاری یہ بحث کبھی ملک پر سوالیہ نشان کی صورت میں چوک اور چوراہوں پر نہیں ہورہی ہوتی اور نا ہی اُن کی نوجوان نسل کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بس یہ ملک اب ڈوبنے کے قریب ہے۔ اگر کسی ڈوبتی ہوئی کشتی کا ملاح اِس بات کا اعلان کردے کہ بس اب ہمیں اب ڈوبنے سے کوئی نہیں بچاسکتا تو اُس کشتی میں پھیلنے والی مایوسی کی بدولت کچھ لوگ سمندر میں چھلانگ لگا کر اپنی جان ضائع کردیں گے تو کچھ مایوسی سے اپنی موت کا تماشہ دیکھیں گے۔ لیکن اِس کے برعکس اگر وہی ملاح اِس بات کا اعلان یوں کرے کہ اِس کشتی میں ایک سوراخ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پانی اندر آرہا ہے، اور یہ پانی ہمارے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے تو لوگوں کی سوچ مختلف ہوگی اور اُن کی سوچ کا محور و مرکز صرف اور صرف کشتی میں موجود سوراخ کو بند کرنا ہوگا۔ لہٰذا وہ مایوس ہوکر کشتی سے کودنے کے بجائے سوراخ کو بند کرنے کی جدوجہد کریں گے اور منزل تک پہنچنے کی اُمید زندہ رکھیں گے۔ یعنی اِس پوری مثال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک ہی مسئلے میں سوچ کے فرق کی وجہ سے عمل مکمل طور پر تبدیل ہوسکتا ہے۔
آج کل ہمارے جوانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیرونِ ملک جانا اور وہاں جاکر کوئی بھی ملازمت کرلینا ہمارے ملک کے نوجوانوں کا ایک خواب ہے جس کی تعبیر میں وہ ایک کثیر سرمایہ خرچ کرکے بیرون ملک جاتے ہیں، اور وہاں ہمارے نوجوان ہر وہ کام کرتے ہیں جس کو اپنے ملک میں کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن پھر بھی باہر جاکر وہ سب کام کرنے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ سارے کام صرف ناخواندہ افراد کررہے ہوتے تو شاید معاملہ قابل ذکر نہیں ہوتا، کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں غیر مقامی لیبر فورس موجود ہوتی ہے، لیکن اب اِس کی زد میں ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بھی آچکے ہیں جو آنکھوں میں مستقبل کے حوالے سے سنہری خواب سجائے بیرون ملک سدھار جاتے ہیں اور وہاں جاکر معمولی ملازمت کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اِن نوجوانوں کے باہر جانے کا سبب پاکستان اوران کے مستقبل کے بارے میں پیدا ہونے والے وہی سوالات ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا، اور جب اِن نوجوانوں کو اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملتے تو شاید نہ چاہتے ہوئے بھی باہر جانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں کے لوگ پیدا کئے ہیں۔ ہمارے نوجوان ہر قسم کی صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن شومئی قسمت کہ ہم ان کی اُس طرح سے تربیت نہیں کر سکے جن کے وہ مستحق تھے اور اب اگر حکومت نے اس جانب تو جہ دی ہے تو نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس حوالے سے حکومت کا حصہ بنیں اور صحیح آگاہی فراہم کریں!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024