آئل انڈسٹری کی مدد سے قومی خزانے کو بھرنے کی موجودہ حکومت کی پالیسی سنگین ترین معاشی بحران کو جنم دینے جا رہی ہے۔ ایک جانب حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کو ملک میں پیٹرول کی تلاش کیلئے مراعات اور سہولتیں دینے کا اعلان کردیا ہے دوسری جانب پاکستانی سرمایہ داروں کی آئل کمپنیوں کو مندے اور خسارے کی دلدل میں پھینک کر انہیں دلبرداشتہ کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کردیا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جب پوری دنیا میں آئل سٹریٹجی پر شد و مد سے کام ہو رہا رہا ہے کہ ہر طرح کے ہنگامی حالات خاص طور پر جنگوں اور دہشت گردی میں الجھے ملکوں میں تیل کے ذخائر اور اس کو ذخیرہ کرنے کے نظام کو زیادہ بہتر بنا کر اس کو پینتالیس سے نوے دنوں تک لے جایا جا سکے جبکہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ کو مستحکم کرکے عوام کے ساتھ آئل انڈسٹری کو بھی ریلیف دیا جا سکے مگر حال ہی میں حکومت نے دو بڑے غلط قدم اٹھائے ہیں جن میں سے ایک تو پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی میں 126 فیصد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس سے جنوری میں صرف پیٹرول اور ڈیزل پر عائد ٹیکسوں سے حکومت کو چوبیس ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ دوسری جانب اوگرا نے ڈالر کے بڑھتے رجحان کے تحت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ پہلے سے مقرر کردہ نرخوں کے برعکس اضافی رقوم وصول کرنی شروع کر رکھی ہیں جس سے ادائیگیوں کی وصولی کا نظام ای سی سی کے مقرراصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ لوٹ مار کا ایسا طریقہ کار ہے جس سے آئل کمنپیوں کو گھاٹے پر تیل فروخت کرنا پڑا ہے اور اربوں روپے کا دھچکا کھا کر انہیں سنبھلنے کا موقع نہیں مل رہا۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں ملک میں سٹرٹیجک آئل کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ پچھلی صدی سے تیل کے ذخائر پر قابو پانے اور تیل کی مارکیٹ پر اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ’’آئل ڈپلومیسی اور سٹریٹجی‘‘ کو بہترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں خانہ جنگی اور بیرونی و اندرونی دہشت گرد قوتوں کے ساتھ جنگیں جاری ہیں وہاں سب سے پہلے تیل کے ذخائر اور مارکیٹ کو مفلوج کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت اور مدافعت کو کمزور کرکے ملک کو ختم کیا جا سکے۔ دہشت گردی اور جنگ میں الجھے ملکوں کیلئے یہ سبق نوشتہ دیوار بن چکا ہے لہذا ہر وہ ملک جہاں ایسی صورتحال کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں تیل کے ذخائر کو وسعت دی جاتی ہے اور ان ذخائر کو محفوظ رکھنے کیلئے ترجیحاً کام کیا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان پچھلے ستر سال سے قومی و دفاعی سالیمت کے اس اہم ترین معاملہ پر بحث و مباحثہ کیا جا رہا ہے۔ اسکی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں اور اس کا درحقیقت ذمہ دار کون ہے کہ جس کی وجہ سے ملک میں کسی بھی ناگہانی جنگی صورتحال میں ملک میں تیل کے ذخائر کو کم از کم پینتالیس روز تک یقینی طور پر قابل استعمال بنانے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں سٹریٹجک آئل پر وزیر پیٹرولیم اور پیٹرولیم کے تحقیقی اداروں نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں سٹریٹجک آئل کی کوئی پالیسی نہیں ہے جبکہ یہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں مصروف ہے اور معمول کی ضروریات سے زیادہ تیل کے ذخائر کو محفوظ رکھنا اس کی اہم ترین دفاعی ضرورت بھی ہے۔ مگر نہ جانے اس جانب پیش رفت کیوں نہیں کی گئی۔ اس کا ذمہ دار اوگرا کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہ اس کی اس ضمن میں اب تک کی کارکردگی رہی ہے کہ اور وہ اس اہم ترین قومی و دفاعی منصوبے پر کیوں عمل نہیں کرا سکا۔ یار رہے کہ پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کا آئل سٹریٹجی کیلئے ایک مکمل ادارہ انڈین سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو برسوں سے کام کر رہا ہے۔ جو اس شعبے میں اپنی کارکردگی سے سٹریٹجک آئل کو یقینی بنانا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں اوگرا کسی مرد بیمار کی طرح رسمی کارروائیاں میں پڑا ہوا ہے۔ اوگرا نے البتہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ کم از کم بیس سے اکیس دن تک کیلئے تیل کو ذخیرہ کرنا یقینی بنائیں جبکہ عملاً دس سے تیرہ دن تک ہی یہ تیل ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اس کوتاہی کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ اوگرا کی ڈالر پالیسی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ جس کی بدولت اوگرا نے او ایم سیز (آئل مارکٹنگ کمپنیاں) کو دلبرداشتہ کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ اوگرا کی ڈالر پالیسی کی وجہ سے کمپنیوں کو ہر ماہ اربوں روپے کا گھاٹا ہو رہا ہے جس پر انہیں ریلیف بھی نہیں دیا جا رہا۔ لہذا ایسے حالات میں اوگرا کا سٹریٹجک آئل کے منصوبے پر عمل کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سٹریٹجک آئل منصوبے پر فوری کام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس وقت دیکھا جائے تو امریکہ چین ہالینڈ برطانیہ جیسے بڑے ملکوں نے سٹریٹجک آئل کا ماڈل تیار کر لیا ہے۔ جس کی تلقید میں ترقی پذیر ممالک اور خاص طور وہ ممالک جنہیں جغرافیائی طور پر پیدائشی دشمن ملک نصیب ہوئے ہیں وہاں سٹریٹجک آئل کومارکیٹٹنگ کمپنیوں کی مدد سے بہترین شکل میں ترقی دی جا رہی ہے۔ البتہ پاکستان میں ہنوز اس معاملہ میں کوتاہی برتی جا رہی ہے۔اوگرا کو چاہئے کہ وہ او ایم سیز کی مدد سے ایسی جامع حکمت عملی بنائے کہ پاکستان کسی بھی ناگہانی صورتحال میں سٹریٹجک آئل کا منصوبہ مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔ اس کیلئے او ایم سیز کو اعتماد میں لینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان پیٹرولیم توانائی کے کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024