قومی اسمبلی: بچوں کے تحفظ انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی مانیٹرنگ کیلئے 10رکنی خصوصی کمیٹی قائم
اسلام آباد ( وقائع نگار+ ایجنسیاں) ملک میں بچوں کے تحٖٖفظ انسانی حقوق کی پارلیمانی نگرانی کے لئے حکومت اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی کی دس رکنی خصوصی کمیٹی قائم کردی گئی۔ کمیٹی وفاق اور صوبوں سے بچوں کے تحفظ کے لئےکارکردگی رپورٹس طلب کرے گی اور اسے متعلقہ قوانین پر نظر ثانی کا بھی اختیار ہوگا تاکہ اس معاملے میں سزاؤں میں اضافہ تجویز کیا جاسکے۔ پہلے اجلاس میں بریفنگ کے لئے چاروں چیف سیکرٹریز و ہوم سیکرٹریز کو مدعو کیے جانے کا امکان ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کمیٹی کے قیام کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔ پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) سے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب‘ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری‘ سابق وزیرقانون زاہد حامد‘ شائستہ پرویز ملک‘ جے یو آئی (ف) کی شاہدہ اختر‘ پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر عذرا فضل‘ رومینہ خورشید عالم‘ ایم کیوایم کی کشور زہرہ‘ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ اور پاکستان تحریک انصاف کے علی محمد خان شامل ہیں۔ یہ کمیٹی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بچوں سے جنسی زیادتی جیسے واقعات کے بارے میں عدالتوں میں مقدمات کی پیروی‘ اس حوالے سے قانون سازی اور موثر اقدامات تجویز کرے گی جبکہ کمیٹی 30 دن کے بعد اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے گی۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال ایکٹ 2017ء کا نفاذ کردیا گیا ہے‘ اس کے تحت قائم کمشن بچوں سے متعلق موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر نئی قانون سازی تجویز کرے گا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران عامرہ خان کے سوال کے جواب میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے راجہ جاوید اخلاص نے بتایا قومی کمشن برائے بہود و ترقی اطفال کو وزارت قانون کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ بچوں کے حقوق بارے موثر رابطے‘ نگرانی اور فروغ کے سلسلے میں قومی کمشن برائے حقوق اطفال ایکٹ 2017ء کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ کمشن بچوں سے متعلق موجودہ قوانین کا جائزہ لے گا اور بچوں کے حقوق سے متعلق نئی قانون سازی تجویز کرے گا۔ دریں اثنا جے یو آئی (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں چائلڈ پروٹیکشن کے تمام مراکز بند ہیں‘ یہاں فرانزک لیب نہیں ہے‘ مردان کے واقعہ پر فرانزک ٹیسٹ کے لئے سیمپل پنجاب بھجوائے گئے ہیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران نعیمہ کشور نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں فرانزک لیب نہیں ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن مراکز سارے بند ہیں۔ جس پنجاب کو برا بھلا کہا جاتا ہے، مردان واقعہ کی فرانزک رپورٹ اس پنجاب کی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لئے بھیجی ہے۔ سپیکر نے کہا کہ آئندہ ہفتہ قومی کمشن برائے انسانی حقوق کی ایک سال کی رپورٹ پیش کی جائے۔ راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے نوجوان کے حوالے سے بھی رپورٹ اس کے ساتھ پیش کریں گے۔ سپیکر نے وزارت کے حکام کو آگاہ کیا کہ وہ لاپتہ افراد سمیت تمام اہم نکات جو ممبران اٹھا رہے ہیں نوٹ کرلیں اور تفصیلی جواب دیں۔ سپیکر نے کہا کہ قانون بنا ہے تو عملدرآمد نہیں ہوتا۔ عدالتوں سے بھی فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ ہم حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل دس رکنی کمیٹی بناتے ہیں جس سے ایک ماہ میں رپورٹ لیں گے۔ راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ ہم نے انسانی حقوق کی پامالی روکنی ہے‘ بچوں سے زیادتی کے واقعات سے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ جمال الدین نے کہا کہ میرے حلقہ میں ایک نوجوان نقیب اللہ کا کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہوا اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔ نوید قمر نے کہا اس پر تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے کل تک اس کی رپورٹ آجائے گی۔ اس کا انتظار کیا جائے۔سپیکر نے وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی کہ آئندہ ہفتے نقیب کی مبینہ مقابلے میں ہلاکت کی رپورٹ کے ساتھ لاپتہ افراد کی تفصیلات بھی شامل کرکے پیش کی جائیں۔ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کراچی میں قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی تفصیلات دی جائیں جبکہ خواجہ سہیل منصور نے کہا کراچی میں لاپتہ افراد کی تفصیلات بھی سامنے لائی جائیں۔قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔