قصور، قصور وار اور بے قصور
قصور شہر کو نسبت تو حضرت بابا بلھے شاہ ؒ سے ہے جن کا صوفیانہ کلام پیار، محبت اور امن کا درس دیتا ہے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات میں پنجاب میں لاکھوں مرد و خواتین کا قتل عام ہوا، خواتین کے خون کی ہولی کھیلی گئی، ایک ہندو شاعرہ امریتا پریتم نے اپنے کلام میں بابا بلھے شاہ ؒ سے کہا کہ وہ اپنی قبر میں سے اٹھ کر بولیں اور پنجاب کی بیٹیوں کے قتل عام کے بارے میں کچھ کہیں، کیونکہ امرتا پریتم کو یقین تھا کہ اس قتل عام پر بزرگ صوفی کی روح تڑپ گئی ہو گی۔ یہ بات تو قیام پاکستان کی تھی لیکن اس واقعے کے ستر سال بعد بھی قصور شہر میں چند ایسے واقعات، اور پھر ان میں سے خاص واقعہ ننھی بچی زینب کے اغوا اور درندگی سے قتل کئے جانے، کا واقعہ پیش آیا۔ ذی شعور درد دل رکھنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس واقعے پر بھی بزرگ صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہ ؒ کی روح تڑپ گئی ہو گی۔ اس دلخراش، دردناک اور اندوہناک حادثے پر قلم اٹھانے کے لئے بھی ہمت چاہیے، واقعے پر افسوس کئے جانے کے ساتھ ساتھ اس بات پربھی حیرت ہو رہی ہے کہ وہ انسان نما بھیڑیا جس نے یہ درندگی کی، ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا۔
زینب کے واقعے سے قبل بھی چند واقعات پیش آئے اور وہ بھی قصور شہر ہی میں، ان کے مجرم بھی پکڑے نہیں جا سکے۔ اب جبکہ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے، ٹیکنالوجی اور انتہائی جدید آلات کی مدد سے مجرموں کو پکڑا جا سکتا ہے، تاحال مجرم کا پکڑا نہ جانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ پریشانی کا باعث بھی ہے، اس بچی کے والد نے تفتیش سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور فوج کے سپہ سالار سے گزارش کی ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کو انصاف دلائیں۔ صرف بچی کے خاندان کو متاثرہ خاندان کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ اس سے تو نہ صرف پورا پنجاب بلکہ پورا پاکستان متاثر ہوا ہے۔ اس درندے کو قانون کی گرفت میں لانا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پنجاب کے لئے چیلنج بن چکا ہے، جدید ترین سہولتیں میسر ہونے کے باوجود اور اتنا عرصہ گزرنے کے ساتھ معاملے کی شدت اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
جب قصور شہر ہی میں اسی نوعیت کا پہلا واقعہ پیش آیا تھا تو حکومتی اداروں کو اسی واقعے کو چیلنج سمجھتے ہوئے اس کے مجرموں کو کیفرکردار بلکہ عبرت ناک انجام تک پہنچا دینا چاہیے تھا لیکن پے در پے واقعات پیش آئے اور پھر اس دلخراش واقعے نے سول سوسائٹی کو ہلا ڈالا اور پورا ملک متحرک ہو گیا، مظاہرے اور مذمتی قراردادیں پیش کی گئیں، اسمبلیوں میں بھی آواز اٹھائی گئی کہ عوام یہی کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ نہ تو وہ صاحب اقتدار ہیں اور نہ ہی صاحب اختیار۔ لیکن یہ واقعہ پوری دنیا میں ہمارے ملک اور ملکی نظام کے لئے رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس واقعے پر تبصرے کئے ہیں۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ غفلت کہاں پیش آ رہی ہے اور مشکلات کیا کیا ہیں؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے کہ اس وقت متاثرہ بچی کے خاندان کے ساتھ ساتھ پورے ملک کی امیدیں ان سے ہی بندھ گئی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لئے فوج اور رینجرز بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ننھی اور بے قصور بچی زینب مرحومہ اور دیگر بچیوں کے وحشی قاتلوں کو قانون کی گرفت میں لایاجائے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے تاکہ خوف کی موجودہ فضاء کو ختم کیا جاسکے جو شہر قصور کے ساتھ ساتھ پنجاب کے دیگر شہروں میں چھائی ہوئی ہے۔