پاکستان اور ترکیہ کے درمیان 24 معاہدے

Feb 20, 2025

اسد اللہ غالب

پاکستان اور برادر اسلامی ملک ترکیہ کے تعلقات تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پرانتہائی گہرے اور مضبوط ہیں۔پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی جڑیں اس وقت سے ملی ہیں، جب برصغیر کے مسلمان خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں تحریکِ خلافت (1919-1924ء) کے دوران ترکی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔ ترکی نے 1947ء میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اسے تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط تر ہوتے گئے۔ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھتے ہیں اور مختلف عالمی و علاقائی معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ترکی نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔پاکستان نے بھی ترکی کے مختلف عالمی امور پر موقف کی تائید کی ہے جن میں فلسطین اور آرمینیا تنازعہ شامل ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے مختلف مواقع پر پاکستان کے دورے کیے، جو ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کا باعث بنے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی خصوصی دعوت پرترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے چند روز قبل پاکستان کا دورہ کیا۔ ترک صدر، خاتون اول اور سرمایہ کاروں اور تاجر رہنمائو ں کے ہمراہ نور خان ائیر بیس پہنچے تو صدر پاکستان آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔ترک صدر کو 21 توپوں کی سلامی دی گئی ۔ رجب طیب اردوان کی وزیراعظم ہائو س آمد پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔وزیراعظم ہائو س آمد پر شہباز شریف نے ترک صدر اور خاتون اول کا پرتپاک استقبال کیا اور ایف سولہ طیاروں کی فارمیشن نے فلائی پاسٹ پیش کر کے معزز مہمانوں کو سلامی دی۔ شہباز شریف سے ترک صدر کی اہم ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نے مہمان خصوصی کی وفاقی کابینہ کے اراکین سے ملاقات بھی کروائی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی رجب طیب اردوان سے ملاقات کی اور خوش آمدید کہا۔ان ملاقاتوں میں ترک صدر نے پاکستان میں تعلیمی منصوبوں کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا۔ترک صدر نے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔وزیر اعظم نے ترکیہ کی عالمی امور پر پالیسیوں کو سراہا، خاص طور پر فلسطین اور روہنگیا کے مسائل پرکردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ترک صدر کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے درمیان 24 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ وزیراعظم اور ترک صدر نے مفاہمت کی ان یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے۔پاک ترکیہ اسٹریٹجک تعلقات مزید مستحکم کرنے کے اعلامیے پر دستخط کیے گئے، سماجی و ثقافتی بنیادوں پر ملٹری، سول وفود کے تبادلے کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے۔دونوں ممالک کے درمیان ائیر فورس الیکٹرانک وارفیئر اور انرجی ٹرانزیشن کے شعبے میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے۔اس کے علاوہ کان کنی کے شعبے میں تعاون، ہائیڈروکاربنزکے شعبے میں پاک ترک تعاون کے معاہدے میں ترمیم کے پروٹوکول کے علاوہ ایکسپورٹ کریڈٹ بینک ترکیہ اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک پاکستان ، سامان کی تجارت بڑھانے کے حوالے سے مشترکہ وزارتی اسٹیٹمنٹ ،صنعتی پراپرٹی میں تعاون ، ترکیہ سیکرٹریٹ آف ڈیفنس انڈسٹریز اور وزارت دفاعی پیداوار میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔ترکیہ ایرو اسپیس انڈسٹریز اور نیول ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ اور پاکستان  کے مابین تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔
حلال ایکریڈیٹیشن اتھارٹی آف ترکیہ اور پاکستان حلال اتھارٹی، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے جبکہ لیگل میٹرولوجی انفرا اسٹرکچر کے قیام کے حوالے سے بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔پاکستان اور ترکیہ کے درمیان میڈیا اور کمیونیکیشنز کے شعبوں میں تعاون، مذہبی خدمات اور مذہبی تعلیم کے شعبوں میں تعاون، سائینٹفک اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ کونسل ترکیہ اور این ٹی یو فیصل آباد کی مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت اور فارماسیوٹیکل کے شعبوں میں تکنیکی تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے۔
ترک صدر نے مختلف مواقع پر پاکستان کے دورے کیے، جو ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ کا باعث بنے۔ ان کے حالیہ دورے میں باہمی تجارت، سرمایہ کاری، دفاع اور تعلیمی و ثقافتی تعاون پر بات چیت ہوئی۔ مشترکہ فوجی مشقوں اور ٹیکنالوجی کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا۔دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔پاکستان اور ترکیہ دفاعی میدان میں قریبی شراکت دار ہیں۔ترکیہ نے پاکستان کو جدید جنگی ساز و سامان اور ہیلی کاپٹر فراہم کرنے پر معاہدے کیے۔ترک سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے خصوصی مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔
پاک ترک تعلقات نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی انتہائی گہرے اور مضبوط ہیں۔پاکستانی عوام ترکیہ کو ہمیشہ ایک برادر ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ترک ڈراموں اور ثقافت کا پاکستان میں بڑا اثر ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہو رہے ہیں۔دونوں ممالک مختلف اتحادوں میں شراکت دار رہے۔پاکستان اور ترکیہ نے دفاعی پیداوار میں مشترکہ منصوبے شروع کیے۔ 2003ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں نمایاں بہتری آئی۔ترکیہ کی کمپنیاں پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
ترکی-پاکستان ’اسٹریٹجک اکنامک فریم ورک‘کے تحت دونوں ممالک تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے پُر عزم ہیں۔ دوطرفہ تجارت کے حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف طے ہوچکاہے۔ترکی نے پاکستان کو ’’میلجم کلاس جنگی جہاز‘  فراہم کرنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جدید ہتھیاروں کی تیاری میں تعاون جاری ہے۔اگرچہ پاک ترکیہ تعلقات انتہائی مضبوط ہیں مگر کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں، جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔علاقائی اور عالمی دبائو بعض عالمی طاقتیں پاکستان اور ترکیہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو ناپسند کرتی ہیں۔پاکستان کی ترکیہ کو برآمدات کم ہیں جبکہ ترکیہ کی برآمدات زیادہ ہیں۔دفاعی معاہدوں میں تاخیر اورکچھ دفاعی منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیںترک صدر کا حالیہ تاریخی دورۂ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان قائم دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوااور دونوں ممالک کے درمیان ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اگر معاشی، دفاعی، اور ثقافتی تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے تو پاکستان اور ترکیہ نہ صرف ایک دوسرے کے بہترین اتحادی بن سکتے ہیں بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی ایک مضبوط مثال بن سکتے ہیں۔ 

مزیدخبریں