اب کیوں نہیں؟

الیکشن ہوگئے ،ہارنے والوں نے کھلے دل سے ہار تسلیم کی ،جیتنے والوں کو مبارکباد دی، نیک خواہشات کا اظہار کیا ایسی باتیں تو اب ہمارے خیالوں سے بھی دور ہوتی جارہی ہیں۔ تاریخی دھاندلی،مینڈیٹ چوری ،راتوں رات نتائج تبدیل ایسے بیانات نہ سن لیں تو لگتا ہی نہیں ملک میں انتخابات جیسا کچھ ہوا ہے، رواں صدی میں یہ پانچواں الیکشن تھا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے مہنگا الیکشن ،سب سے زیادہ امیدوار اور سب سے زیادہ ووٹرز ،ان پانچ انتخابات میں 2013 کا الیکشن سب سے بہتر قرار دیا جاسکتا ہے جس میں تمام پارٹیوں اور تمام بڑے سیاسی رہنماو¿ں نے حصہ لیا، 2002 میں دونوں بڑی پارٹیوں کے سربراہان نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ملک میں ہی نہیں تھے،2008 میں نوازشریف نااہلی کے باعث انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے جبکہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی جماعتیں بائیکاٹ کر چکی تھیں ۔
2018 میں نواز شریف الیکشن سے باہر اور جیل کے اندر تھے جبکہ اس بار ایسا عمران خان کیساتھ ہوا تو 2013 کا الیکشن بلاشبہ واحد الیکشن تھا جسمیں سبھی تھے اور بھرپور مہم بھی چلارہے تھے دہشت گردی کی وجہ سے اے این پی جیسی جماعتوں کی مہم ضرور متاثر ہوئی،ان انتخابات میں پہلی بار آئین کے تحت حکومت اپوزیشن مشاورت سے مقرر کی جانیوالی نگران حکومتیں اور الیکشن کمشن تھا لیکن ہوا کیا۔ ایک جماعت نے انتخابی نتائج کو لیکر ملک کو ہیجان میں مبتلا کردیا۔ کئی مہینوں کے احتجاج اور دھرنوں نے حکومتی اور ملکی امور کو معطل کرکے رکھ دیا،نگران حکومت ،عدلیہ، میڈیا پر بھی دھاندلی میں سہولت کاری کے الزامات لگائے گئے۔ وہ پینتیس پنکچر کی باتیں بھی سب کو یاد ہی ہوں گی اور پھر کیا ہوا ،یہ واحد الیکشن ثابت ہوا جس کو عدالتی تحقیقات کے بعد درست قرار دیا گیا لیکن ان الزامات نے ملکی معشیت کو جو دھچکا پہنچایا، جو کاروباری نقصانات ہوئے، عوام نے جو مشکلات برداشت کیں وہ تو کسی گنتی میں آئیں نہ ہی اس کا باعث بننے والوں کا کوئی محاسبہ ہوا۔ 
ہمارے یہاں نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت تو پرانی ہے لیکن نتائج کو لیکر ملک میں افراتفری پیدا کرنے، ہر ادارے اور ہر مخالف کو متنازعہ اور برا بنا کر پیش کرنے کی روایت زیادہ پرانی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دھاندلی ہوتی کیسے ہے؟ پولنگ اسٹیشن پر ڈبے سیل کرنے سے کھولنے،گنتی کرنے، حتمی نتیجہ مرتب کرنے کا تمام تر عمل تمام امیدواروں کے نمائندوں کی موجودگی میں ہوتا ہے پھر بھی کسی کو اعتراض ہو تو الیکشن ٹریبونلز اور عدالتیں موجود ہیں،تو دھاندلی کی زیادہ گنجائش نہیں البتہ دھونس کی ضرور ہے ٹھپے لگانا ڈبے بدل دینا یہ دھونس ہی تو ہے لیکن آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں دھونس جمانا بھی مشکل تر ہوگیا ہے۔ 
سابقہ دور میں ہونے والے ڈسکہ کے انتخابات اس کی بڑی مثال ہے۔ دور دراز علاقوں میں جہاں میڈیا کی رسائی یا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دستیابی نہیں وہاں شاید ایسا ممکن ہو لیکن دارلحکومت جیسے جدید پڑھے لکھے لوگوں کے شہر میں یہ دھونس یا دھاندلی کیسے ممکن ہے؟ درحقیقت ہمارے یہاں سپورٹرز کو آدھی یا اپنی مرضی کی حقیقیت بتا کر اپنی شکست کا جواز پیدا کیا جاتا ہے اور پورے انتخابی عمل، اس کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں اور نظام کو ہی متنازعہ بنادیا جاتا ہے۔ 
اس میں سیاسی جماعتوں کا تو ہاتھ ہے ہی لیکن ہمارے میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ پروگریسو رزلٹس یعنی پولنگ اسٹیشنز وائز نتائج سے ابہام پیدا ہوا یا پھر کہا جائے کہ کیا گیا، انتخابی سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہر امیدوار کے کچھ مضبوط پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں اور امیدواروں کو علم ہوتا ہے کہ کہاں سے وہ بڑی لیڈ لیں گے کہاں سے ہار جائیں گے تو ہر حلقے میں پولنگ آسٹیشنز وائز نتائج بدلتے رہتے ہیں لیکن عوام میں فلاں آگے اور فلاں پیچھے کی میڈیا کی دوڑ کو ابہام پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اب جو نتائج ٹی وی چینلزنے دئیے ان کی ذمہ داری بھی انہی چینلز کی بنتی ہے اگر بعد میں الیکشن کمشن کا نتیجہ مختلف آجاتا ہے پوچھا ٹی وی چینلز سے جانا چاہے نہ کہ الیکشن کمشن سے ، انتخابی عمل کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والے سمجھتے ہیں کہ ووٹوں میں چند ہزار کا فرق تو شاید ادھر ادھر کیا جاسکتا ہے لیکن کسی کی چالیس پچاس ہزار کی لیڈ کیسے ختم کی جاسکتی ہے ؟ پھر اگر کوئی جماعت اتنی بااثر ہے کہ وہ اس بڑے پیمانے پر نتائج میں ہیر پھیر کر یا کروا سکتی ہے تو اپنے اہم ترین رہنماو¿ں کو الیکشن کیوں نہیں جتوا سکتی؟
 اس بار تو شدید معاشی مشکلات میں گھرے ہمارے وطن عزیز میں انتخابی عمل پر پچاس ارب روپے سے زائد خرچ کئے گئے تاکہ ملک میں منتخب حکومت آجائے، کچھ سیاسی استحکام پیدا ہو ، معاشی استحکام کے لئے کام ہوسکے لیکن ہوا کیا انتخابی عمل اتنا متنازعہ بنادیا گیا کہ دنیا بھر میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ ابھی تک ان انتخابات سے متعلق کوئی ایک بڑی دھاندلی کسی عدالتی فورم پر ثابت نہیں ہوئی، اصول تو یہی ہے کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوتا آپ معصوم ہیں ، اس اصول کے تحت تو ہمارے انتخابات بھی اب تک شفاف ہی سمجھے جانے چاہیں ، لیکن یہاں تو حالت یہ ہے کہ الزامات کی زد میں فوج اور سپریم کورٹ جیسے ادارے بھی آگئے ہیں۔لیکن اس بار اس معاملے کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے مکمل ،کھلی اور غیر جانبدار تحقیقات ہو سب کچھ عوام کے سامنے لایا جائے۔ دھونس یا دھاندلی ہوئی تو کرنے والوں اور نہیں تو الزمات لگانے والوں کو بےنقاب کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے آخراس سلسلے کو کہیں نہ کہیں تو توروکنا ہوگا تو اب کیوں نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...