عدالت عظمیٰ میں اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ انتخابات کیلئے حکومتی ریفرنس کی سماعت اور فاضل چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس گلزار احمد نے سینٹ انتخابات کیس کی سماعت کرنیوالے عدالت عظمیٰ کے بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے ریمارکس دیئے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں پیسہ چلنے کے شواہد سامنے آئیں تو الیکشن کمیشن کارروائی کریگا۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سینٹ انتخابات 2021ء کیلئے کوئی ہدایت نامہ تیار ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن ووٹرز کیلئے بنایا گیا یہ ہدایت نامہ عدالت میں جمع کرائے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سینٹ انتخابات میں پیسے کا لین دین نہ ہو تو بات ہی ختم ہو جائیگی‘ انتخابی عمل میں کرپشن پر استثنیٰ نہیں مل سکتا‘ ووٹ خفیہ رکھنا جرم کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے موقف اختیار کیا کہ اگرچہ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے تاہم ووٹ ڈالنے کے بعد اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ آئین کی دفعہ 63۔اے کا اطلاق سینٹ انتخابات پر نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کیخلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں جس نے پارٹی کیخلاف ووٹ دینا ہے‘ کھل کر دے۔ سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پر ہو سکتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ آئین کی دفعہ 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ دفعہ سینٹ کے حوالے سے ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دفعہ 59‘ اور دفعہ 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا۔ خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ فاضل عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ آئین بذات خود ایک سیاسی دستاویز ہے‘ آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام کررہی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے میثاق جمہوریت میں ہارس ٹریڈنگ کو تسلیم کیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی میں بالخصوص سینٹ انتخابات ہارس ٹریڈنگ کی بدترین مثال بن کر سامنے آتے رہے ہیں۔ آئین کی دفعہ 226 کے تحت ماسوائے وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے انتخاب کے‘ دوسرے تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرانا طے کئے گئے ہیں۔ بے شک آئین کی دفعہ 59 سینٹ کے ادارے اور اسکے انتخابات کے طریق کار سے متعلق ہے جس کی کسی شق میں بطور خاص خفیہ رائے شماری کا ذکر نہیں۔ تاہم آئین کی دفعہ 226 میں دوٹوک انداز میں وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے سوا تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرانا آئین کا تقاضا ہے تو اس آئینی دفعہ کا سینٹ کے انتخابات پر بھی اطلاق ہوگا اور اسی تناظر میں اب تک سینٹ کے چیئرمین‘ ڈپٹی چیئرمین اور ارکان کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی ہوتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے جسٹس اعجازالاحسن کا یہ استدلال بادی النظر میں درست ہے کہ سینٹ انتخابات کے حوالے سے ہمیں آئین کی دفعہ 59 کو دفعہ 226 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا۔
اس وقت جو اہم اور اصل معاملہ درپیش ہے وہ ماضی کے تلخ تجربات کی بنیاد پر سینٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کی لعنت کو روکنے کا ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے گزشتہ تاریخ سماعت پر فاضل عدالت کے روبرو انکشاف کیا تھا کہ اس وقت بھی لوگ نوٹوں کے بیگ بھر کر اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ کرپشن کی بدترین مثال ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی تحریک انصاف کرپشن فری سوسائٹی کا ایجنڈا لے کر سیاست اور اقتدار میں آئی ہے۔ اس تناظر میں حکمران پی ٹی آئی سینٹ انتخابات کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے یہ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی سوچ کھتی ہے جس کیلئے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کیا گیا ہے اور صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ اوپن بیلٹ کا آرڈی ننس بھی جاری ہو چکا ہے جس پر عملدرآمد سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے تو یہ حکمران پی ٹی آئی کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے۔ بے شک ہارس ٹریڈنگ روکنا بھی شفاف انتخابات کی جانب ایک قدم ہے جس کیلئے سابقہ اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی متفق ہوچکی ہیں جنہوں نے میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کی شق بطور خاص شامل کی تھی اور اس کیلئے آئین کی متعلقہ دفعہ میں ترمیم کا عہد کیا تھا۔ اسکی بنیاد پر یقیناً موجودہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بھی مجوزہ آئینی ترمیم کے ساتھ کھڑا ہوگا تاہم حکمران پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کیلئے پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا راستہ اختیار کرلیا اور پھر اس کیس کی سماعت کے دوران اوپن بیلٹ کیلئے صدارتی آرڈی ننس بھی جاری کر دیا جس سے اپوزیشن کو اس معاملہ میں تحفظات پیدا ہوئے۔
سپریم کورٹ کو یقیناً آئین کی تشریح کرنیوالے برتر ادارے کا درجہ حاصل ہے جس کیلئے زیرسماعت ریفرنس کے فیصلہ کے ذریعے عدالت عظمیٰ آئین کے تقاضوں کی روشنی میں سینٹ انتخابات کے طریق کار کیلئے گائیڈ لائن متعین کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ کی فکرمندی بھی بجا ہے اور وہ اسی تناظر میں الیکشن کمیشن سے ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے کردار ادا کرنے کی متقاضی ہے۔ یہ ایسے تصفیہ طلب معاملات ہیں جن کے بارے میں آئین کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر عدالت عظمیٰ ہی کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے چنانچہ اس وقت سینٹ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پوری قوم عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی منتظر ہے۔ اس فیصلہ سے سینٹ انتخابات کا شیڈول یقیناً متاثر نہیں ہوگا کیونکہ عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی الیکشن کمیشن کومتعینہ شیڈول کے اندر ہی انتخابات کرانے کا پابند کردیا ہے۔ اگر فاضل عدالت اوپن بیلٹ کے طریقہ کار کیلئے فریقین کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنے کا حکم صادر کرتی ہے تو ہنگامی بنیادوں پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اس میں پولنگ سے پہلے پہلے مجوزہ ترمیم سرکاری اور اپوزیشن بنچوں کے اتفاق رائے سے منظور کی جا سکتی ہے۔ اب یہ معاملہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم پر زیربحث آیا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی منطقی انجام ضرور سامنے آنا چاہیے۔ اگر سپریم کورٹ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے پیرامیٹرز متعین کردیگی تو اس سے پارلیمنٹیرین حضرات کو آئینی ترمیم کیلئے بھی گائیڈ لائن مل جائیگی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024