ہفتہ‘ 7 رجب المرجب 1442ھ‘ 20؍ فروری 2021ء
ٹماٹر کی بے قدری ، حیدر آباد میں 10 کلو کے تھیلے مفت تقسیم
لگتا ہے ، ٹماٹروں کو بھی کسی کی نظر لگ گئی ہے ، کبھی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں ، یوں ٹماٹر کا ’’مزاج‘‘ بھی آسمان پر ہوتا ہے ۔
جب کبھی تین ، چار سو روپے کلو فروخت ہوتا ہے تو ٹماٹر کے رنگ ہی کچھ اور ہوتے ہیں ، کلو کے حساب سے تو بہت دور کی بات ، لوگ ٹماٹر کے دانے ، دانے کا حصول اعزاز سمجھتے ہیں اس وقت ٹماٹر کی اتنی قدر ہوتی ہے کہ کھیت سے منڈی تک ٹماٹر کا سفر اتنے ’’پروٹوکول‘‘ کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس کو تھیلوں میں بھرنے کی بجائے ، ٹوکریوں میں رکھا جاتا ہے اور اتنا خیال کیا جاتا ہے کہ کہیں ٹماٹر کو ’’ٹھیس‘‘ نہ لگ جائے۔
اک وہ بھی زمانہ تھا ، اک یہ بھی زمانہ ہے
کے مصداق 10 کلو کے تھیلے میں ٹھونس کر حیدرآباد کے لوگوں میں مفت تقسیم کیا جارہاہے۔ اس لئے ٹماٹر سمیت ہرچیز کو اپنی ’’اوقات‘‘ میں ہی رہنا چاہئے۔ عروج پر اِترانا نہیں چاہئے کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا
٭٭٭٭٭
7 ماہ میں -185 ارب 12 کروڑ کے موبائل فون درآمد
ایسی ’’بے ضرورت‘‘ درآمدات پر بھاری زرمبادلہ کا ضیاع یقیناً ’’شاندار‘‘ تجارتی و معاشی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے اور ہمارے ماہرین معیشت کی ’’صلاحیتوں‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے، جولائی (2020) سے جنوری (2021) تک موبائل فونز درآمدات میں 56 فیصد اضافے سے ہمارے اجتماعی رحجان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف ہم مہنگائی کا رونا روتے ہیں (جو اگرچہ سچ ہے) لیکن دوسری طرف ہم ’’اللوں تللوں‘‘ میں سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ یہ بھی یقیناً سچ ہے کہ موبائل فونز کی اربوں روپے کی درآمدات سے مستفید ہونے والا طبقہ روٹی کو ترس کر رہ جانے والا نہیں بلکہ یہ وہی طبقہ ہے جو شادیوں ، بیاہوں ، منگنی اور سالگرہ کی تقریبات کے موقع پر ’’امپورٹیڈ‘ ‘ اور قیمتی موبائل فونز لٹا دیتا ہے جو ’’رج کھان دیاں ساریاں مستیاں نیں۔‘‘ کیونکہ …؎
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر ، خواہش باغ و چمن نہ ہو
بھوکے ، غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے ، کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
٭٭٭٭٭
جہانگیر ترین پھر متحرک ، حفیظ شیخ کی حمایت کا اعلان
جہانگیر ترین نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ’’یار مار نہیں ، یار پال ہیں۔‘‘ ورنہ جو ’’حسن سلوک‘‘ ان کے ساتھ کیا گیا تھا اس کے بعد تو یاری ، دوستی قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا تاہم انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا ، حفیظ شیخ کے ساتھ دوستی نبھانے کی پھر ٹھان لی اور خصوصی طیارے پر فیصل آباد پہنچے جہاں انہوں نے جڑانوالہ اور دیگر مقامات پر ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں۔ حفیظ شیخ کو سینٹ الیکشن میں کامیاب کرانے کاکہا ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر شفقت محمود نے بھی کہا ہے کہ ’’ترین دشمن نہیں ، ان سے ووٹ مانگنے میں کیا مسئلہ ہے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ جہانگیر ترین خود تو ایم این اے نہیں ، لیکن انہوںنے اپنے دوست کو کامیاب کرانے کے لئے ملک بھر میں ’’پروازیں‘‘ شروع کر دی ہیں۔
اک شخص کررہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
انہوں نے سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
اب یہ حفیظ شیخ پر منحصر ہے کہ وہ سینٹ الیکشن کے بعد جہانگیر ترین کے ساتھ حق دوستی کس طرح نبھاتے ہیں بہرحال دوستی کے حوالے سے دونوں ہی میاں محمد بخش کی نصیحت پلّے بلکہ ’’پلُّو‘‘ کے ساتھ باندھ لیں تو یقیناً شکوہ وشکایت کی نوبت نہیں آئے گی کہ …؎
دنیا تے جو کم نہ آیا ، اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضے سنگی کو لوں بہتر یار اکیلے
٭٭٭٭٭
محمد علی سدپارہ اور دیگر 2 کوہ پیمائوں کی موت
موت کا وقت کبھی ایک لمحہ (سیکنڈ) آگے ہوتا ہے نہ پیچھے ، اسی طرح زندگی کی سانسیں پوری ہونے کی جگہ بھی ایک سینٹی میٹر کم یا زیادہ نہیں ہوتی۔ اسباب بھی انسان کو اس جگہ اور وقت پر لے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ محمد علی سدپارہ اوران کی ٹیم کے ساتھ ہوا جن میں آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوی اور چلّی کے جان پاہلو موہر بھی شامل تھے۔ 5 فروری کو ’’کے ٹو‘‘ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو رابطہ منقطع ہو گیا۔ طویل جدوجہد کے باوجود سراغ نہ ملنے پر تینوں کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔ گلگت ، بلتستان کے وزیر سیاحت راجہ ناصر علی خان نے محمد علی سدپارہ کے لیے سول اعزازات کا اعلان کیا ہے۔ ایسے مہم جو یقیناً قومی ہیرو ہوتے ہیں جنہوںنے مشن کے لیے جان دیدی کیونکہ…؎
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ،
اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
قوم اپنے ہیرو کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ ایسے لوگ واقعی نایاب ہوتے ہیں۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں ، نایاب ہیں ہم