اسلام آباد:سپریم کورٹ نے ایف بی آر کا حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو دینے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیا کہ انتہائی حساس ڈیٹا نجی کمپنی کو کیسے دے دیاگیا؟،ایف بی آر کاریکارڈ حساس ترین ہوتا ہے،کیا ایف بی آر ٹیکس بھی جمع کرنے نجی کمپنی کو ہی دیتا ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پرال نامی کمپنی نجی نہیں پبلک لمیٹڈ ہے ۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آر افسران کے پورے پورے خاندان اس کمپنی میں ملازم ہیں۔پرال کمپنی کو ختم کرکے نیب کو تحقیقات کا کہہ دیتے ہیں۔ اور ایف بی آر اپناکام خود کرے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی سرکاری افسر پرال کمپنی سے تنخواہ نہیں لے رہا جبکہ چیف جسٹس کے استفسار پر چیئرپرسن ایف بی آر نے کہا کہ سول سروس میں تنخواہیں کم ہونے سے تکنیکی لوگ نہیں آتے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف بی آر کو پرال کے قیام سے کیافائدہ ہوا؟،کیا ایف بی آر کی ٹیکس ریکوری میں اضافہ ہوا؟ ایف بی آر افسران آن لائن پاس ورڈز کے ساتھ جو کھیل کھیلتے ہیں معلوم ہے ،بلاوجہ اربوں روپے کے ٹیکس ری فنڈ جاری کئے جاتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ غیرقانوی ٹیکس ری فنڈ کے کئی مقدمات عدالت میں ہیں ۔آن لائن سسٹم سے بھی دونمبری ہی ہونی تو اس کا کیافائدہ ؟،بعد ازاں عدالت نے ایف بی آر کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔