یو این سیکرٹری جنرل کی صرف پانچ رکن ممالک کے پاس ویٹو پاور ہونے پر فکر مندی اور آج کے تقاضے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویٹرس نے امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرتارپور راہداری کھولنا پاکستان کا امن دوست اقدام اور اس کی امن دوست خواہش کی عملی مثال ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے یو این سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عالمی سطح پر بھی ممالک میں مساوات نہیں ہے۔ افراد اور ممالک میں مساوات قائم کرنا آسان کام نہیں بلکہ ایک طویل عمل ہے۔ انہیں پاکستان آ کر بہت خوشی ہوئی۔ ماضی کے مقابلے میں پاکستان اب بہت محفوظ ملک ہے۔ ان کے بقول 21 ویں صدی میں نوجوانوں کا اقوام متحدہ میں اہم کردار ہو گا۔ ہمیں نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنا ہو گا۔ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر سمیت ہر جگہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے صرف پانچ رکن ممالک کے پاس ویٹو پاور ہے جو برابری کی مثال نہیں۔ ان کے بقول وہ یکجہتی کی خاطر پاکستان آئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز سماجی رابطے کے نیٹ ورک ٹویٹر پر بھی اپنے پیغام میں پاکستان کی ستائش کی اور کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز میں پاکستان سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز کرتارپور راہداری کا دورہ بھی کیا۔ سکھوں کی مذہبی رسومات میں شرکت کی اور ان کے ساتھ لنگر کھایا ۔ اس موقع پر انہیں سکھ یاتریوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان میں سکھ برادری سمیت تمام اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولنا رواداری اور برداشت سے متعلق اسلام کے فلسفہ کا حقیقی معنوں میں عکاس ہے۔
یو این سیکرٹری جنرل پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کے 40 سال مکمل ہونے پر دو روزہ عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تاہم ان کے اس دورہ پاکستان کی اہمیت اس لئے بھی دوچند ہو گئی کہ آج بھارت یو این قراردادوں کے برعکس مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر کے ایک مستقل فساد کی بنیاد رکھ چکا ہے جو پاکستان بھارت ایٹمی جنگ کی صورت میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ بھارت کی مودی سرکار کے انتہاء پسندانہ جنونی اقدامات کے باعث علاقائی اور عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی بجانے والی اسی صورتحال کو بھانپ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کرانے کی مسلسل پانچ بار پیش کش کی اور یورپی یونین ، امریکی کانگرس ، برطانوی پارلیمنٹ، شنگھائی کانفرنس، او آئی سی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں اور منتخب فورمز پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پیدا کردہ جبر کی فضا اور اس کے جاری مظالم پر تشویش کا اظہار کیا گیا جبکہ سلامتی کونسل نے بھی اپنے ہنگامی اجلاس طلب کر کے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردادیں یاد دلائیں اور انہیں روبہ عمل لانے کا تقاضہ کیا۔ اسی طرح چین، ترکی، ملائیشیا کی قیادتیں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اورکنٹرول لائن پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف جاری اس کی سازشوں پر کھل کر پاکستان کے مؤقف کی حمائت کر چکی ہیں اور اسے پاکستان ہی کی طرح اپنا مسئلہ قرار دے چکی ہیں۔ اس تناظر میں یو این سیکرٹری جنرل کا پاکستان آ کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کو ضروری گرداننا اور ثالثی کی پیش کش کرنا معنی خیز ہے جس سے ایک تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اب تک عملدرآمد نہ ہو پانے کے معاملہ میں اس نمائندہ عالمی ادارے کی بے بسی کی عکاسی ہوتی ہے اور دوسرے اس حوالے سے اقوام متحدہ کے موثر رکن ممالک کے دہرے کردار کا بھی عندیہ ملتا ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کی اتھارٹی تسلیم کرانے کا کبھی تردد نہیں کیا۔
وزیراعظم عمران خاں نے بھی گزشتہ سال -27 ستمبر کو یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اس نمائندہ عالمی فورم پر بے نقاب کئے اور باور کرایا کہ اگر اقوام متحدہ مودی سرکار کی جنونیت کے آگے بند باندھنے اور اسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے میں ناکام رہا تو بین المملکتی ہم آہنگی پیدا کرنے اور اقوام متحدہ کی رکن ریاستوں میں جنگ و جدل رکوانے میں ناکامی کی بنیاد پر اس نمائندہ عالمی ادارے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ اس تناظر میں انہوں نے اقوام متحدہ کی افادیت اور بقاء کا سوال بھی اٹھایا۔ آج اقوام متحدہ کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے یہی تجسس اس کے سیکرٹری جنرل گویٹرس کے خیالات میں بھی نظر آتا ہے جن کے بقول سلامتی کونسل کے صرف پانچ ممالک کے پاس ویٹو پاور ہونا اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں برابری کی کوئی اچھی مثال نہیں۔ اگر اس نمائندہ عالمی ادارے نے ماضی کی روایات کی طرح محض نشتند، گفتند ، برخاستند کی پالیسی ہی اختیار کرنی ہے تو پھر انسانی معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فلسفہ ہی روبہ عمل ہو گا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اکتوبر 2017ء میں ایک یادداشت کے ذریعے اقوام متحدہ کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے منظور کی گئی اس کی قراردادیں یاد دلائی تھیں اور اس امر پر تاسف کا اظہار کیا تھا کہ یہ نمائندہ عالمی ادارہ محض چند بڑی طاقتوں کی باندی کا کردار ادا کرتا ہے اور دنیا کی مظلوم اقوام کے حقوق مفادات کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے لئے منظور کی گئی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا اور اس حوالے سے ہمیشہ بڑی طاقتوں کے مفادات کی نگہداشت کی ہے۔ اگر اقوام متحدہ نے منافقت سے کام نہ لیا ہوتا اور کشمیر و فلسطین کے حوالے سے اپنی قراردادوں کو ان کی روح کے مطابق عملی جامہ پہنایا ہوتا تو نہ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعات طول اور شدت اختیار کرتے اور آج کشمیری عوام اقوام متحدہ کا ودیعت کردہ حق خودارادیت بروئے کار لا کر اپنے پرامن اور خوشحال مستقبل کی جانب رواں دواں ہوتے۔ اس طرح انہیں مودی سرکاری کے -5 اگست 2019 ء والے انتہاء پسندانہ اقدام کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ ہی وہ دنیا کے طویل ترین کرفیو کی زد میں آتے جس کی قہرناکیاں وہ آج 199 ویں روز بھی بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح فلسطینی عوام بھی اپنے آزاد اور خودمختار ملک فلسطین میں امن و سکون سے رہ رہے ہوتے جن پر آج بھی امریکی ایماء پر اسرائیل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے یو این جنرل اسمبلی کی قرارداد کو ٹھوکر مار کر آج مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اور تو اور ، اقوام متحدہ کی بے عملی کے باعث روہنگیا مسلمان بھی اپنے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں میانمار کی سفاک فوجوں کے ہاتھوں آئے روز گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں، جن کی خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانا بھی برمی فوجوں نے اسی طرح اپنا حق گردان لیا ہے جس طرح مظلوم کشمیری خواتین بھارتی فوجوں کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔
اگر اقوام متحدہ نے ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے کوئی عملی کردار ادا ہی نہیں کرنا تو اس میں اور سابقہ لیگ آف نیشنز میں کیا فرق رہ جاتا ہے جبکہ لیگ آف نیشنز کی بے عملی کے باعث ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد -24 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کے چارٹر میں اس کی رکن اقوام کو جنگی جنون سے محفوظ کرنے کا عہد کیا گیا اور انسانی آلام کم کرنے کے لئے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ یو این چارٹر کے تحت چھوٹے یا بڑے ہونے کے باوصف اس کے ہر رکن ملک کی مساوی حیثیت ہے جبکہ امن و برداشت یو این چارٹر کی روح ہے۔ اگر آج یو این سیکرٹری جنرل بھی اس حوالے سے ویٹو پاور والے اس کے پانچ رکن ممالک کے اس ادارے پر عملی غلبہ کا رونا رو رہے ہیں جس سے اس ادارے میں بھی عدم توازن اور ناانصافی کی عملداری نظر آتی ہے تو بزعم خویش بڑی طاقتوں کے ہاتھوں اس ادارے کے یرغمال بننے پر اس منتخب فورم کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے متفکر ہونا چاہئے اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مربوط بنانے کی حکمتِ عملی طے کرنی چاہئے تاکہ تمام رکن ممالک سے اس کے چارٹر پر یکساں طور پر عملدرآمد کرایا جا سکے۔ اس کے لئے اگر سلامتی کونسل کے تمام پندرہ ارکان کو ویٹو پاور دے دی جائے یا ویٹو پاور سرے سے ختم کر کے اکثریت رائے ہی کو کسی فیصلہ کی بنیاد بنایا جائے تو کشمیر اور فلسطین جیسے سنگین ایشوز کو طے کرنے کے لئے اس عالمی ادارے کا کردار موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگرلیگ آف نیشنز کی طرح یہ عالمی ادارہ بھی اپنی افادیت کھو دے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024