سنٹرل سپیرئیر سروس (C.S.P) کلاس بیوروکریسی کا وہ حصہ کہلاتا ہے جو مقابلے کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن پر ہوتا ہے۔ عموماً جو نوجوان میرٹ پر یا کوئٹہ سسٹم کے تحت پہلی بیس پچیس نشستوں کو کوالیفائی کرتے ہیں ۔ وہ موجودہ ایڈمنسٹریٹو سروس یا سابقہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (DMG) کا حصہ بنتے ہیں جس وقت پاکستان وجود میں آیا تو انڈین سول سروس کے مسلمان بیوروکریٹس پاکستان آ گئے اور انہوں نے حکومتی انتظامی اور دفتری معاملات کو ریگولیٹ کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت کے نمایاں بیوروکریٹس میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کے نام نمایاں تھے۔ ان دونوں اصحاب نے اپنی قابلیت اور ہنر مندی سے اسکندر مرزا اور ایوب خان کی حکومتوں کو اپنے انداز میں چلایا۔ پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد اور وزیر اعظم چودھری محمد علی بھی بیورو کریسی سے ابھر کر ہی اقتدار کی سنگھاسن پر براجمان ہوئے۔
قدرت اللہ شہاب کس قدر ایوب خان پر اثرانداز تھے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب ایوب خان نے سکندر مرزا کا تختہ الٹا تو قدرت اللہ شہاب سکندر مرزا کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ سکندر مرزا کا تختہ الٹنے کے بعد بھی وہ اپنی پوسٹ پر برقرار رہے اور سکندر مرزا کے بعد ایوب خاں کی ناک کا بال بھی بن گئے جس پر ان کے متعلق یہ شعرزبان زدِعام ہو گیا؎
جہاں انقلاب ہوتا ہے
وہاں قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے
الطاف گوہر بھی بڑے پرمغز دماغ کے حامل افسر تھے۔ ایوب خان کے کہنے پر اُنہوں نے پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈیننس بنایا۔ جس کی وجہ سے اخبارات سنسر کی شدید پابندیوں کی زد میں آ گئے۔ نوائے وقت اخبار کے اکثر ایڈیشن صرف اپنے ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوتے اور تمام خبریں اور مضامین سنسر کی نذر کر دئیے جاتے۔ چونکہ نوائے وقت تحریک پاکستان کا نظریاتی علمبردار تھا اور مدیر نوائے وقت مجید نظامی فاطمہ جناح کی حمایت میں چٹان کی طرح کھڑے تھے۔ لہٰذا نوائے وقت بغیر خبروں اور تبصروں کے شائع ہوتا مگر پھر بھی لوگ دھڑا دھڑ اس لیے خریدتے کہ وہ فاطمہ جناح کا حمایتی ہے اور اظہار یکجہتی کے لیے بھی لوگ اس کو ایک سوغات سمجھ کر خریدتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد الطاف گوہر صاحب نوائے وقت میں بڑے زبردست مضامین بھی لکھتے رہے اور ایوب خان کے پریس کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو غلط بھی قرار دیتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر بیورو کریسی کے وہ افسانوی کردار تھے جو بھی نوجوان مقابلے کے امتحان میں ایڈمنسٹریٹو سروس میں شامل ہوتا ہے وہ یہی خواب دیکھتا ہے کہ وہ بھی قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کی طرح بااثر اور طاقتور ہو۔ مگر یہ بات بھول جاتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے پرانے بیورو کریٹس اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے تھے۔ مگر وہ نہ تو کرپٹ تھے اور نہ ہی حکمرانوں کو اپنی دانست میں پاکستان کے خلاف کوئی کام کرنے دیتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب قدرت الہ شہاب نے مارشل لاء غلط قرار دیا تو وہ معتوب ٹھہرے اور انہیں ملازمت چھوڑنا پڑ گئی۔
قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جب انتظامی عہدوں پر فائز تھے یعنی وہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے تو کبھی طاقتور حکمرانوں کو بھی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اُنہیں غلط طور پر کسی کی سفارش کریں۔ اگر کوئی بیورو کریٹ قابل اور دیانتدار ہے۔ وہ کرپشن نہیں کرتا ، پاکستان کے ساتھ وفادار ہے۔ حکومتی قوانین کے قاعدوں اور ضابطوں میں پابند رہ کر حکمرانوں کی کرپشن اور ناجائز کاموں کا آلہ کار نہیں بنتا اور اپنی نوکری کو بھی دائو پر لگا دیتا ہے تو ایسی بیوروکریسی تو ملک کے لیے قابل قدر سرمایہ ہوتی ہے۔ مگر جب ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران نے پاکستان کی خدمت کرنے کی بجائے شریفوں اور زرداریوں کی وفاداری کا حلف اُٹھا لیا۔ خود بھی کرپشن کے ذریعے اپنے بچوں کو بیرون ملک کی مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلوانی شروع کر دی اور پاکستان کے ہر شہر اور کیپٹل میں جائز اور ناجائز طور پر کئی کئی پلاٹس مہنگے سیکٹرز میں الاٹ کروا لیے تو پھر ایسی قابلیت اور اہلیت پر تف ہے جو ذاتی اور گروہی مقاصد کے لیے ہو۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے بعد موجودہ حکومت میں ٹاپ بیورو کریسی پر ’’خان گروپ‘‘ کا راج ہے۔ اس سے پہلے فواد حسن فواد کا راج تھا۔ فواد حسن فواد تمام اہم عہدوں پراپنے بیج میٹس اور پسندیدہ افسروں کوتعینات کرواتا تھا۔ انہیں آوُٹ آف ٹرن پروموشن دلواتا تھا۔ اُن پر مبینہ طور پر نیب کا الزام ہے کہ وہ کامران کیانی کے ساتھ راولپنڈی میںپانچ ارب مالیت کے پلازہ میں حصہ دار ہیں۔ فواد حسن فواد کا موقف ہے کہ وہ پلازے کے حصہ دار نہیں ہیں اور اس پلازے کی مالک کمپنی میں اُن کے بھائی اور بیوی کے حصے ہیں۔ ویسے فواد حسن فواد اور کامران کیانی کے ماں باپ بڑے غریب تھے مگر جب غریب خاندان کا کوئی بھی فرد ملک کی طاقتور مافیا کا حصہ بن جائے تو غریب بہن بھائی ارب پتی ہو ہی جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ریٹائرڈ اعلیٰ افسران سیاستدانوں اور افسران کے بڑے بڑے گھروں اور شاپنگ پلازوں کے ماتھے پر ھذا من فضل ربی کی تختی آویزاں رہتی ہے۔ آج جو پوسٹنگز اور ترقیاں ہو رہی ہیں وہ بھی ایک مخصوص گروپ کی ہو رہی ہیں ۔ پاکستان کی بیورو کریسی کے متعلق اکثر سنتے ہیں کہ ان کی گردنوں میں سریا ہوتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹو سروس کو پڑھے لکھے نوجوان اِسی لیے جائن کرتے تھے کہ یہاں پروموشن میں ٹائم سکیل ہے۔ ایک 17 گریڈ میں بھرتی ہونے والا افسر 21 اور 22 گریڈ میں ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتا تھا۔ ایڈمنسٹریٹو سروس ایک منظم اور ڈسپلن ادارہ تھا اور اس کو کسی حد آرمی کی ڈسپلنڈ سروس کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اِس سروس کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بھٹو صاحب نے 313 افسروں کو نوکریوں سے نکالا۔ یحییٰ خان نے بھی اپنے ناپسندیدہ افسروں کو نوکریوں سے فارغ کیا ۔ مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام لا کر ڈی ایم جی کی سروس کو تباہ کیا تو مقابلے کے امتحان میں یہ تیسرے نمبر کی ترجیح بن گئی۔(جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024