مقتول عزیز میمن اسلام آباد میں پناہ اور انصاف کی تلاش میں آیا تھا، جہاں کا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ وفاقی حکومت پر نوسر بازوں جعل سازوں اور غنڈوں کے ایک مافیا اور ککی گینگ کا قبضہ ہے جنہوں نے چند ماہ ہوئے ہیں کسی چھوٹے موٹے اخبار نہیں ،جناب! نوائے وقت کی جڑواں شہروں میں تقسیم روکنے کی کوشش کی تھی جس کی وڈیوز بھی موجود ہیں جس میں وہ گالم گلوچ کر رہے ہیں۔ چرس کے سوٹے لگا رہے ہیں لیکن کسی پارلیمان سینٹ یا اسمبلی نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا۔اسی طرح پریس کلب اور میڈیا ٹاؤن میں بچوں کے تنازعہ کی آڑ میں اس کالم نگار پر سنگین الزامات کے تک مقدمات درج کرا دئیے۔ ساتھی کالم نگار اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کو گمراہ کن اطلاعات کے ذریعے سپاہ صحابہ گوجرانوالہ کے کسی دہشت گرد کی آڑ میں تمغہ امتیاز کے حامل کالم نگار کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل کرانے کی بھرپور کوشش کی۔
جناب رحمن ملک کی مجبوریوں کایہ عالم ہے کہ وہ اس سنگین واردات پر صرف ہاتھ مل سکتے ہیں کر کچھ نہیں سکتے۔ شہید عزیز میمن کو تحفظ اس شہر ناپرساں میں کس نے دینا تھا؟سوچتا ہوں اگر یہ کالم نگار گوجرانوالہ کے راجپوتوں کا ‘‘پگ دار’’ نہ ہوتا تو اب تک میرا حال بھی ککی گینگ عزیز میمن جیسا کر چکا ہوتا جو مافیا نوائے وقت کی تقسیم روک کر بھی بڑھکیں مار رہے ہیں، کوئی ادارہ ان کے احتساب کے لئے متحرک نہیں ہوا ان کی راہ کون سا قانون روک سکتا ہے؟ عزیز میمن کا قتل ظلم عظیم ہے جس کو انصاف کی فراہمی چیف جسٹس جسٹس گلزار، وزیراعظم عمران خان اور وزیر داخلہ برگیڈئیر اعجاز شاہ کی ذمہ داری ہے۔
قائد تحریک صحافت افضل بٹ کی رہنمائی میںاخبارنویسوں کے ملک گیر احتجاج کے باوجود خدشہ یہی ہے کہ یہ خون بھی ‘رزق خاک ہو جائے گا ورنہ قاتل سامنے ہیں راہ میں رکاوٹ بھی کوئی نہیں۔ اب تو بلاول بھی قتل کی مذمت کر رہے ہیں، اس وقت تو سندھ کا پولیس کمانڈر کلیم امام اپنے تبادلے کے تنازعہ سے فارغ ہو چکا ہے۔ اسی شہر جفا میں پراسرار حالات میں مارے جانے والے ‘‘شہید صحافت’’ اسماعیل ملک یاد آرہے ہیں جن کا خون ناحق ابھی تک وفاقی پولیس کی گردن پر ہے ۔
محراب پور کے صحافی عزیز میمن کے قتل کے خلاف حیدرآباد سمیت سندھ بھر کے صحافی سراپا احتجاج بن گئے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے اپیل کی کہ صحافی عزیز میمن کے قتل کا از خود نوٹس لیا جائے، حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کے رہنماؤں اقبال ملاح اور حمید الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محراب پور کے صحافی عزیز میمن کا بہیمانہ قتل کھلی دہشت گردی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کو صحافیوں کے لئے مقتل گاہ بنادیا گیا ہے۔ عزیز میمن کا قتل بھی صحافیوں کی آواز کو دبانے کی سازش ہے، مقتول صحافی کا وڈیو بیان بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میں وہ قتل کی دھمکیوں کے بارے میں بتا چکا تھا لیکن اس کے باوجود اسے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ صحافی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ عزیز میمن کے وڈیو بیان کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا جائے، صحافی رہنماؤں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ عزیز میمن کے قتل کا از خود نوٹس لیں، صحافی عزیز میمن کے قتل پر خیرپور اور نوشہروفیروز کے درمیان حدود کے تنازعہ کو جواز بنا کر تحقیقات کا شروع نہ کرنا باعث تشویش اور افسوسناک امر ہے اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافی عزیز میمن کے قتل کی غیر جانبدارانہ انکوائری کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ہمارا کیا ہے ہم نے تو لکھتے رہنا ہے آواز لگاتے رہنا ہے ۔آگے بڑھتے رہنا ہے آبرو مندی سے خالی ہاتھ لڑتے رہنا ہے۔
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024