جمعرات ‘ 25 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 20 ؍ فروری 2020 ء
پارلیمنٹ لاجز میں مریم اورنگ زیب کے فلیٹ میں آتشزدگی سپیکر نے تحقیقات کا حکم دیدیا
یہ بات تو واقعی حیرانی کی ہے۔ اگر آگ کو لگنا ہی تھا تو اسے کوئی اور جگہ کیوں نہ ملی یہ دیکھ بھال کر آگ نے اپوزیشن کی ترجمان کا فلیٹ ہی کیوں تاک لیا۔ مریم اورنگ زیب بے باک اور نڈر سیاسی کارکن ہیں۔ حکومت کی درجن بھر آگ اُگلتی توپوں کا روزانہ تن تنہا مقابلہ کرتی نظر آتی ہیں۔ اس لئے اب اپوزیشن کو انہی کے فلیٹ میں آتشزدگی پر حیرت تو ضرور ہو گی۔ کہیں کسی ارسطو ثانی نے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے کی مثال پر آگ کو آگ سے بجھانے کی یہ نئی ترکیب تو نہیں ایجاد کر لی۔ اس طرح کوئی شعلہ بیاں اپوزیشن ترجمان کی شعلہ بیانی بند کرنے یا ان کو ڈرانے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔ اب اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس واقعہ پر اظہار تشویش تو کیا جانا ہی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے بھی اس واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ آخر اس آگ کو لگنے کے لئے صرف مریم اورنگ زیب کا ہی فلیٹ ملا تھا۔ شکر ہے فائربریگیڈ والوں نے بروقت پہنچ کر آگ پر قابو پا لیا جو نقصان ہونا تھا اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔ مگر یہ آگ جو سلگتی ہوئی افواہیں پھیلا گئی ہے اس پر قابو کون پائے گا۔
٭٭٭٭٭
مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی پالیسی نوبل انعام حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ نوم چومسکی
چلیں یہ بات ہی سہی۔ اس سے کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ اگر اس بہانے سے ہی مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو ہونے دیں۔ خدا کرے ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی بلا کر پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلہ کو حل کرا ہی دیں۔ تاکہ ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیاں جو ایٹمی جنگ کی سولی پر لٹکیں ہیں محفوظ ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کئی مرتبہ شر کے پہلو سے ہی خیر برآمد ہوتا ہے۔ اقبال بھی کہہ چکے ہیں، ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ اب بھی مسئلہ کشمیر پر ایسا ہوتا ہے تو ہونے دیں۔ ہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ پیشکش کہیں کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نئے تنازعہ کو نہ جنم دے۔ کوئی نئی پٹاری نہ کھول دے۔ اس لئے حل کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہی ہونی چاہئے۔ا گر ٹرمپ بھی امن کی خواہش میں اتنے ہی مخلص ہیں تو کشمیری یہ چاہتے کہ ان کی آزادی کا یہ دیرینہ مسئلہ اگر ٹرمپ جی حل کرا دیں تو انہیں نوبل پرائز کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق سمیت تمغہ کشمیر بھی دیا جائے۔ صرف یہ نہیں اگر دس پندرہ اور بھی انعام ہوں وہ بھی عطا کئے جائیں۔ ویسے تو غازی کشمیر مجاہد کشمیر کا اعزاز بھی دیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات کومذاق میں لیا جائے۔ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ بھی سب بخوبی جانتے ہیں۔ خدا کرے مسئلہ کشمیر پر بھی وہ ثالثی کر کے اس کا کوئی حل نکالیں۔ ویسے بھی تو ہم سب ایسے ہی کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
٭٭٭٭٭
’’تو نے کیسا جادو کیا‘‘ جمائمہ نے پوسٹر سوشل میڈیا پر جاری کر دیا
جمائمہ خان کی طرف سے بہت کم اپنے سابق مجازی خدا کے حوالے سے کوئی خبر یا تبصرہ سامنے آتا ہے۔ طلاق کے باوجود وہ ایک مغربی خاتون کم اور مشرقی خاتون کا کردار زیادہ نبھاتی آئی ہیں۔ جب بھی خان صاحب کو کسی مسئلے میں ان کی ضرورت پڑی جمائمہ نے ان کا ساتھ دیا۔ بنی گالہ کی وسیع العریض رہائشگاہ اس کی زندہ مثال ہے۔ خان صاحب کے دو بیٹے بھی جمائمہ کے زیر سایہ اپنے ننھیال میں پرورش پا رہے ہیں جو اب جوان ہو چکے ہیں۔ گاہے بگاہے اپنے والد سے ملنے پاکستان بھی آتے رہتے ہیں۔ طلاق کے بعد اب پہلی مرتبہ جمائمہ نے میڈیا پر جو پوسٹر بنا کر وائرل کیا ہے وہ بذات خود ایک خوبصورت فنی کاوش ہے۔ مگر اس کا جو عنوان انہوں نے انگریزی اور اردو میں تحریر کیا ہے وہ تو لاجواب اور ان کے ذہین و فطین ہونے کا ثبوت ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں وہ کوئی عام ایویں شیویں خاتون نہیں نہایت باریک بین بھی ہیں۔ پوسٹر میں ٹاپ پر خاتون اول کی باحجاب تصویر ہے جس میں انہوں نے جادوئی شیشے کے گلوب پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں نیچے عمران خان کی تصویر ہے درمیان میں تیز شوخ رنگ ہیں اور تصویر کا عنوان ہے۔ ’’تو نے کیسا جادو کیا‘‘ پہلی نظر میں تو یہ تصویر کسی فلم یا ڈرامے کا پوسٹر لگتی ہے۔ جاذب نظر اور پرمعنیٰ بھی ۔ ایک کونے میں جمائمہ کی اپنی تصویر لگی ہے۔ تصویر میں خاتون اول کی آنکھیں نمایاں ہیں اس پر تو واقعی
’’کیسا جادو کر دیا ‘‘
والا گیت خودبخود دماغ میں گونجنے لگتا ہے۔ شاید جمائمہ بھی یہی کہنا چاہتی ہوں گی۔
٭٭٭٭٭
سوشل میڈیا 30 ، 30 ہزار لے کر دن بھر تنقید کرتا ہے۔ فواد چودھری
حکومت آج کل سوشل میڈیا کے پیچھے کچھ زیادہ ہی پڑی ہوئی ہے۔ اس کام میں حکومت کا سب سے موثر ہتھیار وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چودھری فواد کی شکل میں ہمہ وقت میڈیا پر سوشل میڈیا کی کلاس لیتے نظر آتے ہیں۔ موصوف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وزیر ریلوے کی طرز پر ہر وقت دوسروں کے معاملے میں ٹانگ اڑانا فرائض منصبی میں شمارکرتے ہیں۔ اب بھی شاید وہ بھول رہے ہیں کہ میڈیا کے حوالے سے وزارت اطلاعات و نشریات موجود ہے۔ وفاقی سطح پر بھی اور صوبائی سطح پر بھی۔ اس لیے انہیں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت لانا ضروری نہیں۔ متعلقہ وزارت اور وزیر اس حوالے سے کچھ کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ کیا حکومت نے فواد چودھری کو سوشل میڈیا پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرنے کا کام سونپا ہے۔ بے شک سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی مناسب نہیں۔ مگر صرف حکومت پر تنقیدکو مادر پدر آزادی تو نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاںکچھ لوگ حکومت پرتنقید کی آڑ میں سوشل میڈیا کے پر کترنے کی باتیں کرتے ہیں مگر وزیر اعظم اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کو پروموٹ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے چودھری جی ذرا ہتھ ھولا رکھیں ۔
٭٭٭٭٭