نظام عدل و انصاف کی ضرورت!
شیخ شرف الدین مصلح سعدی شیرازیؒ 691-589)ھ) کا شمار اسلامی تاریخ کے ان عظیم کبیر جہاندیدہ بزرگوں‘ قادر الکلام شاعروں اور جامع الحیثیات مصلحین میں ہوتا ہے کہ جن کے فکر و فن‘ جادو بیانی‘ فصاحت و بلاغت‘ اعلیٰ اخلاق و کردار‘ بلند درجہ پندو موعظمت اور حقائق و معارف سے مالا مال تخلیقی گوہر ہائے نایاب کی عظمت کی دنیا معترف ہے ان کی کتابیں علم و حکمت‘ مکارم اخلاق اور اصول جہانینی و جہانبانی کا گنجینہ ہیں۔
وہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ گلستان‘‘ کے باب اول ’’ور سیرت پادشاہاں‘‘ میں مشہور ایرانی بادشاہ نوشیرواں عادل کی انصاف پسندی و عدل پروری کی حکمت عملی کو حکایت نمبر 20 میں یوں بیان کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ نوشیرواں عادل کیلئے ایک شکارگاہ میں ایک شکار کے کباب تیار کئے جا رہے تھے اور نمک نہ تھا انہوں نے ایک نوکر گاوں کی طرف روانہ کیا تاکہ نمک لے آئے نوشیرواں نے حکم دیا دام دے کر لانا کہیں یہ رسم نہ پڑ جائے اور گاؤں تباہ نہ ہو جائے۔ لوگوں نے کہا اتنے سے نمک سے کیا نقصان پیدا ہو گا؟ اس نے کہا ظلم کی بنیاد دنیا میں پہلے تھوڑی سی ہی تھی پھر جو بھی آیا اس نے اس میں اضافہ کیا یہاں تک کہ یہ اس درجہ کو پہنچ گئی۔
شیخ سعدی اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد ایک قطعہ لکھتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے
اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب کھاتا ہے۔
تو اس کے نوکر درخت ہی جڑ سے اکھاڑ ڈالیں گے اگر بادشاہ پانچ انڈوں کی خاطر ظلم روا سمجھے گا تو اس کے سپاہی ہزاروں مرغ سیخ پر چڑھا دیں گے۔
یہ عدل و انصاف کا وہ آفاقی اصول ہے کہ جس کی تہذیب انسانی کی آفرینش سے لے کر آج تک کی ساری انسانی تاریخ تائید کرتی ہے اس بارے میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ حکمران طبقہ اپنی رعایت کیلئے رول ماڈل‘ آئیڈیل اور عملی مثال ہوتا ہے اگر وہ دیانتدار نہ ہوں یا خائن ہوں تو ان کی بددیانتی اور خیانت صرف ان تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان کے تمام اعمال یا کارندوں کی سرشت میں داخل ہو کر قانون رائج الوقت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
پھر ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ قسم کے کارندے بے ایمانی اور اخلاق باختگی کے وہ کرتوت دکھاتے ہیں اور چھینا جھپٹی کی وہ سیاہ داستانیں رقم کرتے ہیں جو خود شاہ کی داستانوں کو بھی مات دے جاتی ہیں۔
کرپشن یا بدعنوانی اور ظلم و ناانصافی ہمیشہ سے انسانی تہذیب کا بڑا مسئلہ رہے ہیں مگر مادیت پرستی کے غلبے‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالنے‘ صحت مند و متوازن سماجی اطوار و رحجانات کو گلدستہ طاق نسیاں کی زینت بنانے اور خدا کے حضور معرض مسؤل ہونے کے تصور کی لو کے مدھم ہو جانے کی وجہ سے کثیر جہتی کرپشن آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
دنیا کا کوئی ملک اس عفریت سے مکمل طور پر بچا ہوا نہیں ہے مگر ہمارے ملک کی تو صورتحال ہی دوسری ہے یہاں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے یہاں پر معاشرتی‘ سماجی معاشی ‘ سیاسی‘ تعلیمی اور تمدنی بگاڑ کی بڑی وجہ مقتدر طبقہ خود ہے۔
آج کل کرپشن کے خاتمے کی بڑی مہم چل رہی ہے کیونکہ کرپشن کے ناسور نے اداروں کو کھوکھلا کر کے ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے اس حوالے سے تواتر سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بولا اور لکھا جا رہا ہے اس ضمن میں ایسے تجزیے بھی کئے جا رہے ہیں کہ کرپشن ہمارے سماج میں بالائی سطح سے لے کر گراس روٹ لیول تک ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے اسباب و محرکات کیا ہیں اور وہ کونسے عوامل ہیں جو اسے فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں؟ اس کا جواب کوئی مشکل نہیں سیدھی سادی بات ہے کہ اس ملک میں برسراقتدار آنیوالے لوگوں نے ہمیشہ کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا انہوں نے عوام کی خون پسینے کی کمائی پر ڈاکے مارے‘ سرکاری مال کے گلچھڑے اڑائے اور قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر غتربود کیا ان کی دیکھا دیکھی اب نچلے طبقات میں بھی کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
جائز ناجائز کوئی کام کرانا ہو لکشمی کی چمکتار دکھائیں اور کام کرائیں ہر محکمے میں کام کی نوعیت کے لحاظ سے رقم مقرر ہے گویا جس کو موقع ملتا ہے وہ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کرتا۔
بالادست طبقات کے لائے ہوئے کلچر کی بدولت معاشرے میں سوشل سٹیٹس کی ایک ایسی جنگ چھڑی ہوئی ہے کہ لوگ راتوں رات امیر بن کر اپنی دولت اور سماجی مقام و مرتبے کی نمائش کی فکر میں ہلکان ہو رہے ہیں ایسے لوگ ذرائع آمدن کے صحیح یا غلط ہونے کے تصور کو نظر انداز کر کے ننانوے کے پھیر میں مبتلا ہیں۔ اصول‘ اقدار‘ اخلاقیات اور قواعد و ضوابط کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ان کا مطمع نظر صرف اور صرف دولت ہے۔
کیسا خدا ‘ کیسا نبی
پیسہ خدا‘ پیسہ نبی
اگر ہم غیر جانبدار ہو کر ٹھنڈے دل و دماغ سے کرپشن‘ لوٹ مار اور ظلم و ناانصافی کے معاشرے میں پنپنے اور خوفناک شکل اختیار کر نے کی وجوہات کا جائزہ لیں تو بنیادی طور پر یہ دو ہیں ۔
-1 مقتدر طبقے کی بدنیتی اور کرپشن پر مبنی پالیسیاں
-2 احتساب کے شفاف‘ بے لاگ‘ مستعد اور غیر جانبدار نظام کا فقدان
لاطینی زبانی کا ایک مقولہ ہے جس کا امریکی ماہر تعلیم الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ نے اپنی تحریروں میں حوالہ دیا ہے۔ Corruptio optimi pessinra.
یعنی بہترین یا اعلیٰ مراتب کے حامل لوگوں کی کرپشن بدترین کرپشن ہے۔
اس امر کا احساس ہی سوہان روح ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اسی بدترین کرپشن کا شکار ہے یوں ارباب اقتدار کے عدل و انصاف کے اصولوں سے انحراف نے قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے شیخ سعدی نے تو آٹھ صدیاں قبل حکمران طبقے کو ملک کی ویرانی کا باعث قرار دیا تھا۔
گرگ میروسگ وزیر و موش ہادیوان شد
چوں ایں در ارکان دولت ملک ہاویران شد
سیاسی‘ سماجی جبر‘ معاشی عدم مساوات‘ لوٹ کھسوٹ و استحصال‘ بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی اور انصاف کا عدم حصول تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہیں ان کے ہوتے ہوئے معاشرے میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔
اس لئے ارباب حل و عقد سے استدعا ہے کہ ان تیرہ و تار فضاؤں میں بنیادی حقوق اور عدل اجتماعی کیلئے ترستے غریبوں‘ مظلوموں‘ مقہوروں‘بیکسوں اور بے سہاروں کو خواب آور ترانے اور ٹرخاؤ وعدے نہیں ان کے حقوق دیں‘ انہیں انصاف ان کی دہلیز پر دیں وگرنہ یہ سماجی اتھل پتھل‘ بیقراری اور بے چینی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن جائے گی۔