نندی پور پاور پراجیکٹ ریفرنس میں بابراعوان کی بریت کی درخواست پرایک بار پھر فیصلہ محفوظ کرلیا ، جو 25 فروری کو سنایا جائے گا، جج نے کہایہ بات توتسلیم شدہ ہے کہ منصوبے میں تاخیر ہوئی، بابر اعوان کو بری کردیا جائے توباقی ملزمان کے ساتھ کیاہوگا؟تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں بابر اعوان کے خلاف نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے متعلق ریفرنس پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی ، بابر اعوان اسلام آباد عدالت میں موجود تھے ۔سماعت میں احتساب عدالت کے جج نے کہا میں کچھ باتیں مزیدجانناچاہوں گا، یہ بات تو تسلیم شدہ ہے نندی پور منصوبے میں تاخیر ہوئی ، صرف یہ بات تسلیم شدہ نہیں کہ تاخیر وزارت قانون کی وجہ سے ہوئی، حکومتوں کا کام تو منصوبوں کو آگے بڑھاناہوتاہے التوا میں ڈالنا نہیں۔جج نے کہا کہ ایک سوال نیب سے بھی پوچھنا ہے، بابر اعوان کو بری کردیاجائے تو باقی ملزمان کے ساتھ کیا ہوگا؟ آج میں بریت کی درخواست پرفیصلہ نہیں سنا ﺅ ں گا، ابھی ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے، صرف پہلے ان سوالوں کا جواب چاہتا ہوں۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا بابراعوان کو بری کیاگیا تو باقی ملزمان بھی آڑلیں گے، سارے ملزمان بابر اعوان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، باقی ملزمان تو کہیں گے ہم نے اپنا کام کر دیا تھا آگے وزارت نے نہیں کیا۔بابر اعوان نے کہا کہ آپ نے کہا کہ نندی پور منصوبے میں تاخیر ہوئی، ای سی سی نے یہ منصوبہ 27 دسمبر2007 کو منظور کیا، اس منصوبے میں تاخیر کے مختلف مراحل ہیں، 2009 سے پہلے 14 ماہ گزر چکے تھے، زاہد حامد اور فاروق ایچ نائیک اس وقت وزیر قانون تھے۔جج ارشد ملک نے کہا اگرایک ملزم کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو باقیوں کے ساتھ کیا کریں گے ، جس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سمری میرے ہوتے ہوئے کابینہ میں گئی اور منظور بھی ہوئی۔نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جب منسٹری کی طرف سے لسٹ مانگی اس میں ٹاپ پر نام موجود ہے، جس پر بابراعوان نے کہا مارچ 2009 میں منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اس وقت میں وزیر قانون نہیں تھا، عظمی چغتائی نے پہلی بار سمری پر دستخط سے انکار کیا، عظمی چغتائی استغاثہ کی گواہ بن گئیں، میں اس وقت بھی وزیر قانون نہیں تھا۔بابراعوان نے دلائل میں مزید کہا وزارت پانی و بجلی نے 17اپریل 2009 کو ایک سمری بھیجی، سمری میں کہاگیا کہ یہ ای سی سی میں جائےگی، 25 اپریل 2009 کو وزارت قانون نے رائے دی سمری لے جا ئیں، ای سی سی نے پروجیکٹ 27دسمبر2007 کومنظورکیا، پہلی تاخیر 8 ماہ کی اور دوسری 6 ماہ کی بنتی ہے، یہ جرم ہے تو پہلے 14 ماہ گزرگئے، زاہد حامد پھر فاروق نائیک وزیرقانون رہے۔دلائل میں بابر اعوان کا کہنا تھا کہ معاہدہ پرچین میں دستخط ہوئے، 15 اپریل2009 تک کوئی ملزم نہیں تھا، قانون سے رائے مانگی گئی کہ سمری کوای سی سی میں لے کے جاناچاہتے ہیں، میں نے 11 اپریل 2011 کو وزارت سے استعفی دیا، میں نے اداروں کے احترام میں استعفی دیا، لوگوں پربہت سارے کیسزہیں جن میں بعض پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، میں کیس تک محدودہوں اورعدالت میں کیس لڑناچاہتاہوں۔بابراعوان نے سوال کیا کیاریفرنس میں تاخیرجرم ہے؟اب میں آج بھی سمری ڈھونڈرہاہوں جس وقت وزارت پرتھا، اگرتاخیرجرم ہے توہمیں اپنے قوانین میں تبدیلی کرناپڑےگی، وہ وزیراعظم کہاں ہے جس کے دور میں کابینہ کا اجلاس ہوا، 13 جولائی 2009 میں کابینہ نے سمری واپس بھیج دی، اس کے بعد 2011 میں سمری 2 سال بعد پھر سے بھیجی گئی، پہلی سمری بھی وزارت پانی وبجلی نے بھیجی تھی اوردوسری بھی۔بابراعوان نے کہا میں اپریل2011میں چلاگیااوراس کے بعدبھی یہ تاخیرہوتی رہی، وہ سمری ہے کہاں میں توابھی بھی ڈھونڈ رہاہوں، کہاں میں نے تاخیرکی، کوئی جرم نہیں ہے تومیں بھی مجرم نہیں،اگرجرم ہے تودیگربھی مجرم ہیں۔احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد بابراعوان کی بریت کی درخواست پرایک بارپھر فیصلہ محفوظ کرلیا ، فیصلہ 25 فروری کو سنایا جائے گا۔پراسیکیوٹرنیب نے بتایا کہ جوتاریخیں دی گئی ہیں وہ درست نہیں ہیں،درستگی کراناچاہتاہوں، جن14مہینوں میں تاخیرکاکہاگیااس میں کوئی تاخیرنہیں ہوئی، معاہدہ تو ہوچکا تھا اس کے بعد وزارت قانون فارم جاری کرنے تھے، وزارت قانون نے معاہدہ کرنے کاگرین سگنل دیاپھررائے اینی تھی۔،پراسیکیوٹر نے کہا عظمی چغتائی گواہ ہیں،ان پرجرح میں یہ باتیں ان سے پوچھی جا سکیں گی، جوبیان انہوں نے دیاوہ عدالت میں پیش ہوکرہی تشریح کرسکیں گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024