مودی سرکار کو دو ایٹمی ممالک میں جنگ کا ممکنہ انجام بہرصورت سامنے رکھنا چاہیے
وزیراعظم عمران خان کا بھارتی حملے کی صور ت میں فوری اور بھرپور جواب دینے کا دوٹوک اعلان
وزیراعظم عمران خان نے جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو باور کرایا ہے کہ اس نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہم اس پر سوچیں گے نہیں بلکہ فوری اور بھرپور جواب دینگے۔ پلوامہ دہشت گردی کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کیخلاف جارحانہ انداز میں کی جانیوالی الزام تراشی اور وزیراعظم مودی کی پاکستان کیخلاف کارروائی کی ہرزہ سرائی پر پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں‘ جنگ شروع کرنا تو آسان ہے‘ مگر اس کا اختتام انسان کے بس میں نہیں ہوتا‘ جنگ کے کیا نتائج نکلیں گے‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘ بھارت کو جنگ کی دھمکیاں دینے سے پہلے سوبار سوچنا چاہیے کہ دو ایٹمی قوتوں میں جنگ کا کیا انجام ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے معاملہ پر بات چیت کیلئے تیار ہے۔ پلوامہ واقعہ کا بغیر ثبوت پاکستان پر الزام عائد کیا گیا۔ ہمیں بھلا ایسے واقعات کا کیا فائدہ پہنچتا جبکہ ہم خود دہشت گردی کا شکار رہے ہیں اور اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی شہادتوں اور اپنی معیشت کا سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ہم 17 برس سے دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بھارت نے پلوامہ حملہ کا ہم پر الزام تو لگادیا مگر یہ نہ سوچا کہ ہمیں اس کا کیا فائدہ تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی یکطرفہ الزامات کے باوجود ہم پلوامہ حملے کی تحقیقات کیلئے تیار ہیں۔ بھارت اپنے الزامات کے ٹھوس ثبوت اور شواہد پیش کرے‘ ہم کارروائی کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آج امن کی طرف جارہا ہے۔ اس پر ایسے الزامات سے بھارتی انتخابات میں فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہم تو خود چاہتے ہیں کہ خطے میں دہشت گردی ختم ہو۔ آج نیا پاکستان ہے اور اس میں نیا مائنڈسیٹ اور نئی سوچ ہے۔ کیا بھارت ماضی میں ہی پھنسا رہنا چاہتا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مسئلہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے جس طرح افغانستان کا مسئلہ آج بات چیت کے ذریعے حل ہورہا ہے۔ بھارت میں نئی سوچ آنی چاہیے اور اسے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ آخر کن حالات کی وجہ سے کشمیر کے نوجوان اس انتہاء تک جا پہنچے ہیں کہ ان میں موت کا ڈر ہی ختم ہو گیا ہے۔ آج بھارتی سیاست دانوں کی آوازیں آرہی ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھانا ہے اور اس سے بدلہ لینا ہے۔ اگر پاکستان پر کسی قسم کی مہم جوئی کی گئی تو پھر ہم سوچیں گے نہیں بلکہ فوری جواب دینگے کیونکہ ہمارے پاس اسکے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ حکمران بی جے پی کے وزیراعظم مودی سمیت تمام لیڈران کی جانب سے بھارت میں ہونیوالی دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ پر جس جارحانہ انداز میں پاکستان اور مسلم دشمنی کو فروغ دیا جاتا ہے وہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بھارت کے ہندو لیڈران اپنے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈہ کے مطابق بھارت کا سیکولر ریاست کا لیبل نوچ کر پھینک چکے ہیں اور اسے ایک ایسے ہندو معاشرے کی جانب دھکیل رہے ہیں جس میں سوائے ہندوئوں کے‘ کسی اور مذہب کے پیروکاروں کے زندہ رہنے کا امکان ہی ختم ہو جائے۔ ہندو انتہاء پسندوں کا یہ طرز عمل اس اٹل حقیقت کو آج بھی آشکارا کررہا ہے کہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کا راستہ خود انہی ہندو انتہاء پسندوں نے ہموار کیا تھا جنہوں نے غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے‘ انکی مذہبی آزادیاں سلب کرکے‘ انہیں اقتصادی پسماندگی سے دوچار کرکے اور ’’گائوماتا‘‘ کی خاطر مسلمانوں کا قتل عام کرکے انہیں اپنے لئے الگ وطن کا تقاضا کرنے پر خود مجبور کیا تھا جبکہ قیام پاکستان کے 72 سال بعد بھی اس جنونی ہندو کی سوچ نہیں بدلی اور وہ ایک مسلم مملکت ہونے کے ناطے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی گھنائونی سازشوں کے تانے بانے ہمہ وقت بنتا رہتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم اکثریتی آبادی کی حامل خودمختار ریاست کشمیر پر بھارت کا فوجی تسلط قائم کرنے کی نیت بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی ہی تھی جبکہ کشمیری عوام کو بھارتی تسلط کسی صورت قبول نہیں کیونکہ انہوں نے تحریک قیام پاکستان کے دوران ہی اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرلیا تھا۔
پاکستان اور اسلامیان پاکستان کے ساتھ ہندو کے خبث باطن کا اندازہ تو اس سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ جب 71ء کی جنگ میں مکتی باہنی کی سرپرستی کرکے بھارت سقوط ڈھاکہ کی نوبت لایا تو اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ حالانکہ دوقومی نظریہ کو خود ہندو بنیاء پاکستان کیخلاف اپنی جنونیت ابھار کر فروغ دیتا رہا ہے جبکہ اپنی آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دینے والے کشمیری عوام کو دہشت گرد قرار دیکر بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری اپنے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی مذموم کوشش کرتاہے اور اسی طرح جدوجہد آزادیٔ کشمیر ہی کے تناظر میں کشمیریوں کی جاری مزاحمت اور انکے ردعمل کے اظہار کیلئے رونما ہونیوالے کسی بھی واقعہ پر بلاثبوت پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنا بھارت کا وطیرہ بن چکا ہے جس کا مقصد بھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ہے۔
اسی بدنیتی کے تحت بھارت نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے منظور کی گئی یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف کیا اور پاکستان کو کشمیریوں کیلئے عالمی فورموں پر آواز اٹھانے سے روکنے کیلئے شملہ معاہدے کے ذریعے اسے صرف دوطرفہ مذاکرات کا پابند کیا اور پھر دوطرفہ مذاکرات کی بھی کبھی نوبت نہیں آنے دی۔ اس حوالے سے تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ بھارت نے ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی بساط کشمیر کا تذکرہ ہوتے ہی خود رعونت کے ساتھ الٹائی ہوئی ہے اور دوطرفہ مذاکرات ناکام بنانے کیلئے وہ خود بھی دہشت گردی کی وارداتیں اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کے پس پردہ ہاتھوں کے ذریعے کراتا رہا ہے۔ 2008ء میں ممبئی حملے عین اس وقت ہوئے جب نئی دہلی میں پاکستان بھارت وزراء خارجہ کے مذاکرات جاری تھے۔ چنانچہ ان حملوں کے دوران ہی بھارت نے بلاثبوت و شواہد ان حملوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا اور پھر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کو پاکستان واپس دھکیل کر بھارتی وزیراعظم نے رعونت کے ساتھ اعلان کردیا کہ اب پاکستان کشمیر کو بھول جائے۔ اسکے بعد سے اب تک بھارت کا پاکستان کیخلاف یہی جارحانہ طرز عمل جاری ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مظالم کی کوئی انتہاء ہی نہیں رہی جس پر کشمیری نوجوانوں کی جانب سے ردعمل کا اظہار بھی فطری امر ہے۔ وہ یہ ردعمل بھارتی فوجوں کو زچ کرکے اور دنیا بھر میں بھارتی مظالم کیخلاف آواز اٹھا کر ظاہر کرتے ہیں جبکہ کشمیریوں کے ایسے ردعمل کے اظہار کے دوران ہی بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوتا ہے‘ امرتسر پولیس سٹیشن پر دہشت گردی ہوتی ہے یا مقبوضہ وادی میں اڑی کے مقام پر بھارتی فوجیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسے واقعات کی کڑیاں پاکستان کی سلامتی کیخلاف اور کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے جاری بھارتی سازشوں سے ہی جا ملتی ہیں جس کے تناظر میں ایسے واقعات بھارتی خانہ ساز ہونے کے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اسکے برعکس بھارت کو ایسے واقعات کی بنیاد پر پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے اور جہاد کشمیر پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ ان واقعات کی آڑ میں بھارتی ہندو لیڈران پاکستان کیخلاف ہندو جنونیت کو ابھار کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ ان ہندو لیڈران کا شروع دن کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ ہر بھارتی انتخاب کے موقع پر ہندو ووٹرز کے دل جیتنے کیلئے پاکستان دشمنی کا ماحول گرماتے اور جنگی جنون کو ابھارتے ہیں۔
اس وقت جبکہ بھارتی لوک سبھا کے آنیوالے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو اپنی شکست نوشتۂ دیوار نظر آرہی ہے‘ اسکی جانب سے پاکستان دشمنی کو انتہاء تک پہنچا کر انتخابات میں پانسہ پلٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر ہندو جنونیت کی گرم کی گئی اس فضا میں پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا ہے جس میں 50 کے قریب بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور اس واقعہ کے دوران ہی بی جے پی کے لیڈران بشمول نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے تو یہ حملہ بھی بادی النظر میں بھارتی ’’را‘‘ کی کارستانی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھارت کو باور بھی کرادیا ہے کہ بھارتی انتخابات میں ہندو ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے پلوامہ حملہ کرایا ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں آج پلوامہ حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بی جے پی کی حکمت عملی کیخلاف خود بھارت کے اندر سے اسکے دانشوروں‘ سیاست دانوں‘ فنکاروں‘ کھلاڑیوں کی جانب سے آوازیں اٹھائی جارہی ہیں جس کے ردعمل میں ان بھارتی باشندوں کو بھی ہندو انتہاء پسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس فضا میں نوجوت سنگھ سدھو ہی نہیں‘ بھارتی ایکٹر اکشے کمار اور بھارتی ٹینس چیمپئن ثانیہ مرزا کی بھی کمبختی آئی ہوئی ہے جسے پاکستان کی بہو قرار دیکر جنونی ہندو اس سے بھارتی میڈل واپس لینے کا تقاضا کررہے ہیں۔
گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستان کیخلاف یہ تک گیدڑ بھبکی لگا دی کہ پلوامہ حملے کے بعد بات چیت کا وقت ختم ہوگیا اور اب پاکستان کیخلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے پالیسی بیان کے ذریعے مودی کی اس گیدڑ بھبکی کا ہی مسکت جواب دیا ہے جو فی الحقیقت پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی حماقت کی تو اس ہندو جنونیت میںسارا خسارہ بھارت ہی کو اٹھانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ پاکستان کے پاس تو بھارتی حملے کا فوری جواب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ یہ بھارت ہی کے سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان پر حملے کے بعد اسے راہ فرار کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔ اگر بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت کے آگے بھی بے بس ہے اور پلوامہ حملے کے بعد جاری جھڑپوں میں گزشتہ روز ایک میجر سمیت پانچ مزید بھارتی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں تو پاکستان کی جوابی کارروائی پر ان بھارتی لیڈروں کے پائوں بھلا کہاں جم پائیں گے۔ اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ بھارت دو ایٹمی ممالک کے مابین جنگ کی نوبت لانے سے گریز کرے اور موت سے بے خوف ہونیوالے کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد کو بزور دبانے کے بجائے مذاکرات کی میز پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی راہ پر آجائے۔ بھارتی جارحیت کی صورت میں عساکر پاکستان کے ہاتھوں اسے اتنی ہزیمت اٹھانا پڑیگی کہ اس کا اکھنڈ بھارت کا خواب فضائوں میں ہی تحلیل ہو جائیگا۔ آج دفاع وطن کیلئے عساکر پاکستان کے ساتھ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے جس کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو امن کا راستہ دکھایا ہے‘ بصورت دیگر جنگ کا راستہ پورے بھارت کو جہنم واصل کردیگا۔