بدھ ‘14 ؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 20 ؍ فروری 2019ء
شہزادہ محمد نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ الیکشن لڑیں تو مجھ سے زیادہ ووٹ لیں گے: عمران خان
بات تو وزیر اعظم نے سو فیصد درست کی ہے۔ سعودی ولی عہد کا جس طرح والہانہ اور برادرانہ استقبال ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی اور سعودی عرب کے عوام کے دل یکساں دھڑکتے ہیں۔ معزز مہمان نے جس طرح خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر کہا اس نے واقعی پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں جو پہلے ہی سعودی عرب کی محبت سے لبریز ہیں۔ سعودی عرب جس طرح پاکستان سے محبت کرتا ہے پاکستانیوں کی مدد کرتا ہے۔ اس پر پہلے ہی پاکستانی سعودی بھائیوں کے شکرگزار تھے۔ اب تو قیدیوں کی رہائی کے اعلان کے ساتھ ہزاروں پاکستانی گھرانوں کی دعائیں بھی شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے ڈھال بنکر رہیں گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ا س وقت شہزادہ محمد بن سلمان پاکستانیوں کی موسٹ فیورٹ (پسندیدہ) شخصیت بن چکے ہیں۔ ان کا پاکستان کے لیے امدادی پیکج اور ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ان کا انتخابی منشور بن سکتا ہے۔ وہ اگر پاکستان میں کہیں سے بھی الیکشن لڑیں تو ریکارڈ توڑ ووٹ حاصل کر کے الیکشن جیت سکتے ہیں۔ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا ریکارڈ پھر شاید ہی کوئی اور توڑ سکے۔ پاکستانی دل کے کھرے ہوتے ہیں۔ محبت کا جواب محبت سے دینا جانتے ہیں۔ سعودی عرب تو ان کے لئے مکہ و مدینہ کی وجہ سے دنیا کی ہر شے اور ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز ہے۔ اس کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ سعودی حکمرانوں سے ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اب سعودی ولی عہد کی طرف سے پاکستان سے محبت کے جواب میں پاکستانی بھی کھلے دل سے شکریہ شکریہ مملکت سعودیہ کے ساتھ شکریہ شکریہ ولی عہد سعودیہ کہہ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مصری شاہ میں ڈولفن فورس والے نوجوان سے رس ملائی چھین کر لے گئے
حادثہ کہہ لیں یا واقعہ جوکہتے ہیں رات 12 بجے پیش آیا۔ جب لٹنے والا نوجوان رس ملائی لے کر گھر جا رہا تھا جہاں کوئی تقریب ہو رہی تھی ، اول تو سمجھ نہیں آتا یہ 12 بجے کونسی تقریب اچانک ہو رہی تھی کہ رس ملائی کی ضرورت آن پڑی۔ اب یہ مٹھائی تو ایسی جاذب نظر اور من بھاتی ہے کہ جس کی بھی نظر پڑتی ہے اس کا من للچا جاتا ہے۔ سو ان ڈولفن والوں کی نظر بھی جب دوران تلاشی اس پر پڑی ہو گی تو ان کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہو گا اور بے اختیار انہوں نے واجبی سی پوچھ گچھ کے بعد زیادہ وقت برباد کرنے کی بجائے براہ راست اس چھیل چھبیلی دودھ میں نہائی رس ملائی کو براہ راست اپنی تحویل میں لے لیا اور پھر یہ جاوہ جا۔ اب لٹنے والا شہری پریشان کہ وہ کیا کرے۔ حالانکہ اس کو تو شکر کرنا چاہئے تھا کہ رس ملائی دے کر جان چھوٹی ورنہ اسے پکڑ کر تھانے بند کر دیا جاتا تو کیا ہوتا۔ اپنے پلے سے اور پھر گھر والوں کے پلے سے موٹی تازی رقم دے کر جان خلاص کرانا پڑتی۔ اب بجائے شکر ادا کرنے کے یہ نوجوان ڈولفن کیخلاف رپٹ لکھوانے تھانے آ پہنچا۔ اب کیا معلوم ڈولفن والے پہلے ہی وہاں پہنچ کر سب کے ساتھ مل کر رس ملائی پارٹی منعقد کر کے جا بھی چکے ہوں۔ ویسے پولیس والے بھی کیا اتنے فارغ ہیں کہ بیٹھ کر رس ملائی چھیننے کا پرچہ کاٹیں۔ اس طرح کل کو کوئی بھی آ کر بچے کی ٹافی چھیننے کا پرچہ کٹوانے کی ضد کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
حکومت اپنے اتحادی شیخ رشید کو بھول گئی
ویسے بھی کوئی بڑا مہمان گھر آئے تو گھر والوں کے ہوش کہاں بحال رہتے ہیں۔ اچھے بھلے انسان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ سو یہی کچھ حکومت کے ساتھ بھی ہوا ہو گا۔ اتنا اہم اور معزز مہمان آیا تھا۔ اس کی مدارت اور خاطر داری میں کوئی کسر نہ رہ جائے اس لیے اوپر سے نیچے تک سب مصروف تھے۔ ایسے میں بھلا حکومت کو اپنا اکلوتی نشست رکھنے والا اتحادی کہاں یاد رہتا۔ ویسے بھی جب بڑے لوگ یا خاندان کے کھاتے پیتے افراد مل بیٹھے ہوں تو غریب رشتہ داروں کو کون پوچھتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی فیملی دعوت میں شریک ہو کر دیکھ لیں۔ اونچے درجے والے آسمان سر آنکھوں پر بٹھائے جاتے ہیں اور کم حیثیت والے رشتہ دار کونے کھدروں میں جگہ پاتے ہیں۔ وہ بے چارے ازخود بھی احتیاطاً کسی مناسب جگہ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ سو اتنی احتیاط تو شیخ جی بھی کر لیتے۔ اگر حکمران انہیں بھی معزز مہمان کے لئے کسی استقبالیہ میں ظہرانے میں یا عصرانے میں ہی شرکت کی دعوت دے دیتے تو کیا مضائقہ تھا۔ شیخ جی نے کونسا اصل شیخ صاحبان کے پہلو میں بیٹھنے کی ضد کرنی تھی۔ وہ ویسے ہی شاہوں کے سامنے عاجزی دکھانے میں کمال رکھتے ہیں۔ سو یہاں بھی آ کر خوش ہو جاتے مگر حکمرانوں نے جس طرح انہیں فراموش کیا اس پر تو …؎
اچھا کیا جو تم نے فراموش کر دیا
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
ہی کہا جا سکتا ہے۔ شیخ جی نے جو پی اے سی میں زبردستی گھسنے کی کوشش شروع کر رکھی تھی اس کے جواب میں ایسا طرز عمل اختیار کر کے حکومت نے انہیں شاید کوئی پیغام دیدیا ہے۔
٭٭٭٭٭
ہنگری میں زیادہ بچے پیدا کرنیوالی مائوں کیلئے رعایتوں کا اعلان۔
ایک ہم ہیں کہ آبادی کے خوفناک بحران سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ مگر کوئی ہماری سنتا ہی نہیں۔ کسی ا ور کا ذکر ہی کیا کریں خود محکمہ بہبود آبادی والے جو پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر کام کرتے تھے۔ گزشتہ 40 سال گزرنے کے باوجود اپنے ہی پروگرام پر عمل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ محکمہ آبادی کے ملازمین کے اپنے بچوں کی تعداد ان کے اپنے سلوگن کم بچے خوشحال گھرانے کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ دوسروں کو ’’بچے ایک یا دو ذمہ اور نہ لو‘‘ کا درس دینے والے خود کئی کئی بچوں کے مائی باپ نکلتے ہیں۔ دوسری طرف یورپ کی حالت دیکھ لیں جہاں ہر طرح کی سہولت اور حکومتی پرکشش ترغیبات کے باوجود آبادی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ لوگ زیادہ بچے تو کیا کم بچے بھی پیدا کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یورپ کے کئی ممالک کی طرح ہنگری بھی قلت آبادی کا اسی طرح شکار ہے جس طرح ہم قلت آب کا شکار ہیں۔ اب ہنگری کے وزیراعظم نے زیادہ بچے پیدا کرنے والی مائوں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ دینے انہیں رخصتوں اور اخراجات میں بھرپور اضافہ کا لالچ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہنگری کی خواتین زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے حکومتی مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
دانائی کی بات بھی یہی ہے کہ پہلے ترقی کا سفر طے کرنے کے لیے بچے کم پیدا کرنے پرزور دیا جاتا ہے جب ملک خوشحال ہو جائے تو پھر آبادی بڑھانے پرز ور دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ عمل اُلٹا چل رہا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، خوشحالی کم اور آبادی زیادہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭