فرانس کے ماہر بشریات مسٹرAlain bertho نے ایک فکر انگیز کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے:
The age of violence the crisis of political action and the end of utopia
مصنف نے اس کتاب میں جمہوری نظام کے نوجوانوں پر اثرات کا گہرا جائزہ لیا ہے اپنے سنجیدہ تجزیہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ جمہوری نظام جس کے بارے میں بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کی گئی تھیں کہ اس نظام سے دنیا کے انسان مطمئن ہوں گے اور وہ امن کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں گے مگر تجربات اور مشاہدات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جمہوریت کی موت واقع ہو چکی ہے اور وہ اپنے مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکی دنیا بھر میں شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے جمہوریت اور جمہوری نظام کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ نوجوان مایوس محروم اور انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں ۔یہ رویے پوری دنیا میں دیکھے جا رہے ہیں۔ شہروں میں امن سکون اور نظم و ضبط باقی نہیں رہا۔ مصنف کے مطابق جمہوری انتخابات سے شدت پسندی اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے ووٹروں میں عزم اور امید پیدا نہیں ہوتا بلکہ مایوسی اور انتشار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ عالمی انتخابات کے نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے انتخابات نوجوانوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے اور وہ مایوس ہوتے جا رہے ہیں‘ ان کے اردگرد کے ماحول میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی حکومتوں کا دہرا پن یعنی منافقت ختم ہوتی ہے۔ سیاستدان عمومی طور پر گورننس کے بارے میں بے معنی بیانات جاری کرتے رہتے ہیں اور ان بیانات پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ عوام کا سرکاری بیانات اطلاعات اور اعدادوشمار پر اعتماد ہی ختم ہو چکا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کو سچ نہیں بتاتی۔ پارٹی منشور میں وعدے اور دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ سیاستدان پروپیگنڈے کے لیے ایسے پرکشش الفاظ استعمال کرتے ہیں جن میں مغز‘ نیت اور جذبے کا فقدان ہوتا ہے۔مصنف کے مطابق سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے نوجوانوں کو بیدار کردیا ہے اور وہ اصل حقائق جاننے لگے ہیں‘ ان حالات میں جمہوریت کے نام پر سیاست کی منافقت اور دوغلہ پن تکلیف دہ بنتا جا رہا ہے ۔مصنف کے مطابق گلوبلائزیشن مسائل کی اصل جڑ ہے دنیا سکڑ رہی ہے ریاستیں سمجھوتوں اور مصلحتوں کا شکار ہورہی ہیں ۔
پاکستان کے عوام اسلام آباد میں ہونے والے فیصلوں پر بیرونی اثرات واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا جمہوری نظام بیرونی مداخلت اور اثرات کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے ہم نام نہاد جمہوریت کی وجہ سے اپنے فیصلے خود کرنے کی بجائے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں گلوبلائزیشن کی یرغمال بن چکی ہیں۔سیاسی منافقت جھوٹ اور ریاکاری نے صورتحال کو مایوس کن بنا دیا ہے۔ نمائندہ حکومتیں بے سود بے اثر اور غیرفعال بن چکی ہیں۔ منافقت اور دوغلہ پن مایوسی کی آگ پر تیل چھڑک رہا ہے۔ نوجوان شدت اور انتہا پسندی پر مائل ہونے لگے ہیں۔ مصنف کے خیال میں مذہب کو شدت پسندی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ نوجوان سنگ دل اور استحصالی جمہوری سیاسی نظام سے بیزار ہو کر مذہب کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انتخابی نظام نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے جمہوری نظام پر نئے حالات کے مطابق نظرثانی کی جائے تاکہ اس کے نتیجے میں نوجوان مایوسی سے باہر نکل کر مطمئن زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
مصنف لکھتے ہیں کہ 2005 میں فرانس میں فسادات ہوئے اور دو ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا تو ابتدا میں ان فسادات کو مذہبی شدت پسندی سے جوڑا گیا مگر تحقیق سے ثابت ہوا بیروزگاری سماجی عدم مساوات مذہبی منافرت فرقہ واریت اقلیتوں کی محرومی اور پولیس کلچر ان فسادات کا سبب تھے۔دہشت گرد تنظیم داعش نے مغرب میں پلے بڑھے نوجوانوں کی ہمدردیاں حاصل کیں جو جمہوری سیاسی نظام کے باعث پیدا ہونے والی محرومیوں کی وجہ سے مایوس ہوچکے تھے اور حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوچکا تھا۔ مصنف نے اپنی کتاب میں 2014ء کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق فرانس کے نوجوانوں کی اکثریت داعش کی ہمدرد بن چکی تھی۔ فرانس میں حجاب پر پابندی کی وجہ سے مسلم اقلیت کو مرکزی دھارے سے نکال دیا گیا جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ طالبات نے اسکولوں میں جانا بند کردیا اور وہ گھر کی چاردیواری کے اندر بند ہو کر رہ گئیں۔ بیسویں صدی کی انقلابی تحریکیں بھی نوجوانوں کو مطمئن نہیں کر سکیں ۔
مغربی جمہوریت کی ناکامی پر عالمی سطح پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس غیر منصفانہ اور سنگدلانہ نظام کی وجہ سے دنیا کے ایک درجن افراد آدھی دنیا کے وسائل پر قابض ہو چکے ہیں امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بیانات کتابوں میں محفوظ ہیں جن میں انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ فرمایا تھا کہ مغربی جمہوریت اور مغربی معاشی سرمایہ دارانہ نظام پاکستان کے عام آدمی کو مطمئن نہیں کر سکتا ان کا فلسفہ حرف بحرف درست ثابت ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود حکومتی اشرافیہ جمہوری نظام میں بامعنی اور بامقصد تبدیلیاں لانے پر آمادہ نہیں ہو رہی کیونکہ اس کے مفادات اسی نظام کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں۔ موجودہ مغربی جمہوری نظام اور پاکستان دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے اس لئے قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اگر پاکستان ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے تو اسے اپنے سیاسی نظام میں پاکستان کے عوام کے مزاج کلچر تاریخی ثقافتی روایات اور اسلام کے سنہری یونیورسل اصولوں کے مطابق دور رس اور انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی تاکہ نیا پاکستانی سیاسی نظام محرومیوں مایوسیوں شدت پسندی اور انتہا پسندی کو ختم کر سکے۔ پاکستان کے تمام افراد بلاامتیاز نئے سیاسی نظام کے حصہ دار اور شراکت دار ہو ں اور پاکستان کے قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر کی جا سکے پاکستان کے افراد ترقی کریں گے تو پاکستان مضبوط اور مستحکم بن سکے گا علامہ اقبال نے کہا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پاکستان کے پڑھے لکھے باشعور افراد کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ موجودہ مغربی جمہوریت میں بامقصد تبدیلیاں لانے کے لئے توانا اور بلند آواز اٹھائیں۔ خاموشی جرم ہے جس کی سزا تاریخ میں ہمیشہ پوری قوم کو ملتی رہی ہے۔ ایسے جمہوری نظام کو کیوں جاری رکھا جائے جس کے نتیجے میں پاکستان میں امیر اور غریب میں فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور 98 فیصد عوام کی زندگیاں ایک شاعر کے مطابق کچھ اس طرح ہوچکی ہیں۔
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
فرانس کے ماہر بشریات کی کتاب پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمود اور تقلید پر مبنی رویے پاکستانی ریاست کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بنتے جا رہے ہیں، مغربی جمہوریت کی موت واقع ہوچکی پاکستان کے عوام کب تک پرائی جمہوریت کی لاش کو اپنے کندھوں پر اٹھاتے رہیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024