پاکستان کے خلاف تین شیطان بدی کا محور ہیں ’لنکا ڈھانے‘ کی مذموم خواہش رکھنے والے یہ ’گھر کے بھیدی‘ پاکستان کے دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر اْچھل کود کررہے ہیں۔ انکے چیلے چانٹے جن کے چہروں پر اب کوئی پردہ نہیں رہا انکے کچھ پاکستانی شردھالو ان کے خبث باطن کو ’دانشوری‘ سے کہہ رہے ہیں ’حلوائی کی دکان پرنانا جی کی فاتحہ‘ سابقون ’’مراعاتیوں‘‘ کا ’’جذبہ حب الوطنی‘‘ زنگ آلود ہوچکا ہے۔ الطاف حسین، حسین حقانی اور طارق فتح وہ ’’بد‘‘ کردار ہیں جن کو ہر خرابی پاکستان میں نظرآتی ہے، پاکستانی فوج اِن کی چھیڑ بن چکی ہے، غیرت سے دامن چھڑا لینے والے سیاہ روئو ں کے منہ میں بھارتی، امریکی اور صہیونی زبان چترچتر کررہی ہے اور ان کی گواہی میں دن رات مچل رہی ہے۔
بْرا ہو اس ٹویٹ کا جو ہمارے دانشوروں کو بے چین رکھتا ہے۔ کاش وہ خاموشی ہی اختیار کرتے لیکن انہوں نے اپنے منصب اور عہدے کی نزاکتوں کو ایک طرف پھینکتے ہوئے پلوامہ واقعے پر یہ تبصرہ کردیا کہ ’پاکستان کو بھی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگاکہ اسکی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہ ہو خاص طورپر ایران کی حالیہ شکایت کے تناظر میں، گزشتہ نومبر میں پاکستان سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کے اغواکردہ پانچ ایرانی سپاہیوں کی بازیابی اور واپسی ہوئی تھی۔‘ انکے اس ٹویٹ پر صحافیوں کے علاوہ ایم کیوایم سے پاک سرزمین کا حصہ بن جانیوالے سابق صوبائی وزیر رضاہارون نے بھی مشاہد حسین کو جواب دیا کہ ’ مشاہد صاحب بصد احترام آپ جیسے تجربہ کار رکن پارلیمان اور سینٹ کی جانب سے غلط حقائق کی بنیاد پر تبصرہ کیاگیا جس کا وقت بھی انتہائی نامناسب ہے اور یہ بہت غیرسفارتی بھی ہے خاص طورپر جبکہ آپ سینٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئر مین بھی ہیں۔ وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین نے بھی مشاہد حسین کو کھرا جواب دیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ’’کچھ لوگوں کو ہندوستان امیگریشن آفر نہیں کررہا ورنہ ہماری جان چھوٹ جائے، کتنا ہائوس ان آرڈر کریں نہ آپ نے وزیر خارجہ بننا ہے نہ آپکی اقدامات سے تسلی ہوئی ہے۔ براہ مہربانی آپ سینٹ کے خرچے پر دوروں سے احتراز کریں، تعجب ہے آپ کو کشمیر پرنمائندگی کا کہا گیا۔ آپ کی خدمت کا شکریہ۔‘‘
قائد فساد، ظلم ومنافقت اب ایک چوہے کی طرح برطانوی گود میں نونہال بھارت بن کر ڈکاررہا ہے۔ الطاف حسین کی کوشش ہے کہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا بدباطن عام کرے۔ بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کیخلاف مہم چلائے اور آج کا مجیب الرحمن بن کر مکتی باہنی کو مغربی پاکستان میں استعمال کرے۔ مجیب الرحمن ایسا کردار ہے جو پاکستان کے اندر بھی کئی شردھالوئوں پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے اور انکی دانشورانہ سڑاند سے ماحول کو متعفن بنارہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کو انڈیا ٹوڈے کونکلیو کے عنوان سے 2003ء میں کانفرنس میں شرکت کا موقع ملاتھا۔ اس تاریخی سفر میں انکے ہمرکاب آج کے ان کے مخالف لیکن اْس وقت کے قریب ترین اور معتمد ساتھی اکبر ایس بابر تھے۔ اکبر بابر ہی وہ تاریخی کیسٹ پاکستان لائے تھے، جس نے پاکستان میں پہلاالیکڑانک ثبوت مہیا کیا تھا کہ الطاف حسین کے اصل عزائم کیا ہیں۔ یہ کیسٹ چلا کر الطاف حسین کے اس اعتراف گناہ کو تاریخ کا حصہ بنادیا جس میں موصوف نے ہرزہ سرائی کی تھی کہ ’برصغیر کی تقسیم ایک سنگین غلطی تھی۔ اگر میں ہوتا تو کبھی پاکستان کے الگ ملک بنانے کے فیصلے کا ساتھ نہ دیتا۔‘اکبر بابر اس کانفرنس کے عینی شاہد ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ کانفرنس میں بھارتی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کے کارندے الطاف حسین کو جو پروٹوکول دے رہے تھے اور جو مشکوک سرگرمیاں وہاں جاری تھیں، انہیں دیکھنے کے بعد کوئی شک نہیں رہتا تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ اس ٹیپ کے منظرعام پر آنے کے بعد خاصی تْو،تْو، میں، میں ہوئی، بحث اور روایتی الزام تراشی کا طوفان اٹھا اور پھر خاموشی چھاگئی۔ پرویز مشرف کا دور تھا۔ بابر غوری وزیر بندرگاہیں اور جہازرانی کا پرکشش قلمدان سنبھالے ہوئے تھے، خوب دفاع کیا اور دوسری جانب عمران خان نے الطاف حسین کیخلاف لندن جانے اور نجانے کیا کیا کرنے کے اعلانات کئے۔ اب الطاف حسین نے اپنے چہرے سے مکمل طورپر نقاب اتاردیا ہے اور کھل کر بھارتی میڈیا کے ذریعے بھارتی حکومت اور عوام سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کی کہ اس کی مدد کی جائے۔ الطاف حسین نے چیخ چیخ کر کہاکہ ہمارے آبائو اجداد نے پاکستان بنایا ہم نے نہیں بنایا۔ یہ وہی الطاف حسین ہے جو پاکستان میں چیخ چیخ کر کہا کرتا تھا کہ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں۔ ہم نے پاکستان بنایا ہے اس لئے پاکستان پر ہمارا حق ہے۔ جس کا کہنا تھاکہ وہ اپنا اختلافی نکتہ نظر الگ ضرور رکھتا ہے لیکن وہ پاکستان کیخلاف کبھی ایک لفظ نہیں نکال سکے گا، یہ وہی الطاف حسین ہے جس کا دعویٰ تھا کہ اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ جس قدر مرضی دبائو میں لائے لیکن وہ پاکستان کیخلاف کبھی کام نہیں کریگا۔ لیکن اب اس نقاب پر چڑھے تمام پردے ایک ایک کرکے اترچکے ہیں اور اندر سے وہ حقیقی چہرہ نکل آیا ہے جو بھارت نواز اور پاکستان دشمن ہے۔ عمران خان اب تو وزیراعظم بن چکے ہیں۔ اب انکے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی کے اس دعوے کو ہی عملی جامع پہنادیں، الطاف حسین، حسین حقانی کیخلاف کاروائی عمل میں لائیں۔۔ اور نہیں تو کم ازکم ان بدبختوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرکے پاکستان لایاجائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ ورنہ انکی پاکستانی شہریت ختم کی جائے، انکی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور انکے نام سے خواہ کوئی جماعت درج ہے، یا کتاب، سب کو منسوخ اور کالعدم قرار دیا جائے۔
پاکستان میں رہنے والے اردو بولنے والے محب وطن عوام کیلئے بھی یہ سوال ہے کہ وہ آستین کے اس سانپ اور فریبی سے اعلان لاتعلق کریں اور ایسے دشمن کے ایجنٹوں کو اپنی صفوں کو اس کانفرنس میں شریک اس وقت کے اہم پاکستانی ذمہ دار نے یہ واقعہ بھی سنایاتھا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک افسر کو مخاطب کرکے اس نے کہا تھا کہ ’الطاف حسین واجبی تعلیم رکھتا ہے، تم لوگ ذرا آسان انگریزی میں بیان لکھ کر دیا کرو تاکہ وہ آسانی سے پڑھ تو سکے، کیونکہ اسے پڑھنے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے۔‘ اس کانفرنس میں فاروق عبداللہ، سونیا گاندھی، بھارتی وزیراعظم سمیت اہم شخصیات موجود تھیں۔ وہاں جب یہ تجویز زیر غور تھی کہ بیس سال کیلئے مسئلہ کشمیر کو منجمد کردیاجائے اور پہلے تجارت، ثقافت اور دیگر اسی نوعیت کے روابط بہتر بنانے والے اقدامات کئے جائیں۔ اس موقع پر اکبر بابر جو اس وقت پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات تھے، کانفرنس کے وہ واحد آدمی تھے جس نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ وہی اصول کشمیر کیلئے کیوں نہیں اپنایا جاتا جو مشرقی تیمور اور بالٹک ریاستوں ایستونیا اور لتھوینیا کیلئے اپنایاگیا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہاں ایک مسیحی اقلیت کے حقوق کا معاملہ ہے لیکن کشمیر میں مسلمان اکثریت کا معاملہ ہے جس پر کانفرنس میں خاموشی چھاگئی۔
اب سے نہیں، پاکستان، اسلام اور اسلامی شعائر کا تمسخر اڑانا طارق فتح جیسے واہیات کردار کا پرانا وطیرہ ہے۔ بھارتی غلاظتوں، فساد وانتشار اور ظلم وبربریت پر انکی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں، زبانیں گنگ اور دماغ شل ہوجاتے ہیں۔ معاملہ پاکستان، افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کا ہو، اسلامی شعائر کا ہو، اسلامی شخصیات کا ہو، تو انکی زبان ایسے لپلپانے لگتی ہے جیسے کوئی زہریلا سانپ، گز بھر زبان ایسے چلنے لگتی ہے کہ پاکستان اور اسلام کے دشمن ان کا منہ چوم لیتے ہیں اور خصوصی پزیرائی دیتے ہیں، انکے حوصلے بڑھاتے ہیں۔ اب کوئی شک باقی نہیں کہ بیرون ممالک ایسے فراری اور آستین کے سانپ مکمل طورپر دشمن کے دستانے کے طورپر بروئے کار آرہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں میڈیا، دانشوروں اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر ایک موثر جوابی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ملک کے اندر اور بیرون ملک ایسے ناپاک کرداروں کا منہ توڑ جواب دے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024