رضا ربانی اور خرم دستگیر میں تکرار دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے معلومات فراہم نہیں کرسکتے تو انکار کردیں
اسلام آباد (محمد فہیم انور) پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر کے درمیان خاصی دیر تک تکرار ہوئی ۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے ، بالآخر چیئرمین سینیٹ نے اس بحث کا موجب بننے والے معاملے کے محرک سینیٹر فرحت اللہ بابر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بابر صاحب ، اب حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی کہ ایسے اہم معاملات میں پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لینا چا ہیئے تو اس کا کیا کیا جاسکتا ہے۔چیئرمین سینیٹ یہ کہہ کر ایجنڈے کے اگلے آئٹم پر چلے گئے ۔ سینیٹ میںپاک فوج کے ایک نئے دستے کو خاموشی کے ساتھ سعودی عرب بھجوانے کا معاملہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اٹھایا جس کا جواب دینے کیلئے وزیر دفاع خرم دستگیر ایوان میں موجود تھے۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اگر چیئرمین سینیٹ چاہیں تو اس معاملے پر ان کیمرا سیشن بلایا جا سکتا ہے ، حکومت اس پر تفصیلاً بریفنگ دے دی گی۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے بر ملا کہا کہ آپ سے پوچھا کچھ جا رہا ہے اور آپ جواب کچھ دے رہے ہیں۔ یہ باتیں جو آپ کر رہے ہیں یہ پہلے بھی کی جا چکی ہیں ۔ وزیر دفاع صاحب یہ وضاحت آپ سینیٹ میں دے رہے ہیں۔ ہم بچے نہیں ہیں......اگر آپ پارلیمنٹ کو یہ معلومات فراہم نہیں کر سکتے تو آپ صاف انکار کر دیں.........آپ ہمیں لولی پاپ تو نہ دیں..........!! وزیر دفاع نے چیئرمین کا یہ جارحانہ انداز دیکھ کر ایک دم پسپائی اختیار کی کہ مسٹر چیئرمین ، میں پارلیمنٹ کابے حد احترام کرتا ہوں ۔ ان کیمرا سیشن میں معزز ارکان جو وجاحت طلب کرنا چاہیں گے انہیں دے دی جائے گی۔ جس پر چیئرمین نے کہا کہ میں تو آپ کو اتنا کہہ رہا ہوں کہ اس بات کا فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔ خرم دستگیر پھر کوئی توجیح دینے لگے تو چیئرمین بولے، میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتا، آپ اور وزیر اعظم مہینوں سے اجلاس کر رہے ہیں مگر آپ نے قومی سلامتی کونسل، دفاع کی قائمہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کو بالکل ہی اعتماد میں نہیں لیا۔ آپ نے خود اعتراف کیا ہے کہ آپ اور وزیر اعظم کئی اجلاسوں میں شریک رہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ دونوں اس معاملے سے باخبر تھے اور آپ نے پارلیمنٹ کو اس معاملے سے بے خبر رکھا، پھر تو آپ اور وزیر اعظم پر توہین پارلیمنٹ عائد ہوتی ہے۔ آپ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔