استاد عالم بھی چل بسے
٭…سلیم ناز
بین الاقوامی شہرت کے حامل صدارتی ایوارڈ یافتہ مصور‘ کاشی گر اور نقاش استاد محمد عالم اپنے مداحوں کو تنہا چھوڑ کر عالم ارواح میں روانہ ہو گئے مرحوم چند روز سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ نقاشی اور کاشی کے فن کو زندہ رکھتے رکھتے خود موت کی آغوش میں چلے گئے ان کی رحلت پر علمی اور ثقافتی حلقوں میں سوگواری کیفیت طاری ہے۔ مرحوم استاد عالم انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپاٹری بہاولپور روڈ ملتان کے ڈائریکٹر بھی تھے۔
طویل جدوجہد میں بلیو پاٹری کے ذریعہ ملتان کی اس ثقافت کو زندہ رکھنے میں جن نقاش اور کاشی گروں نے اہم کردار ادا کیا ان میں استاد محمد عالم سرفہرست نظر آتے ہیں جن کا پورا گھرانہ اس فن سے وابستہ ہے۔ ان کی فنی خدمات کے صلے میں 2011ء میں انہیں صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا گیا اس کے علاوہ چولستان ایوارڈ‘ خواجہ فرید ایوارڈ‘ ستلج ایوارڈ‘ سری لنکا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں ملتان کا قیمتی سرمایہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کی فنکارانہ انگلیوں نے وہ کمال دکھائے ہیں کہ انہیں بلاشبہ جادوئی کہا جا سکتا ہے۔ ملتان سے تقریباً دس کلومیٹر دور بہاولپور روڈ پر واقع استاد عالم بلیو پاٹری انسٹی ٹیوٹ فن کاشی کاری اور نقاشی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کی بنیاد چند سال قبل رکھی گئی اس انسٹی ٹیوٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں بچوں کو فن کاشی کی تربیت سے آراستہ کرنے کے ساتھ برتن سازی میں حیرت انگیز تجربات کئے جا رہے ہیں خوبصورت رنگوں کے امتزاج کے ساتھ ڈیکوریشن پیس‘ ڈنر سیٹ‘ واٹر سیٹ‘ آفس ٹیبل سیٹ‘ والز ظروف‘ ٹی سیٹ اس طرح تیار کرے ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ اس ادارے کی پرشکوہ عمارت میں قدم رکھتے ہی جب کاشی کاری کے نمونے سامنے آتے ہیں تو ذہن کئی صدیوں پیچھے چلا جاتا ہے۔
استاد عالم تقریباً پچاس سال سے اس فن سے وابستہ رہے۔ ان کی رہائش محلہ کمنگراں حسین آگاہی میں تھی جہاں کاشی کا فن عروج پر تھا۔ عمر بارہ تیرہ سال کے لگ بھگ ہی ہو گی جب یہ ان دکانوں کے سامنے سے گزرتے تو کافی دیر تک وہاں کھڑے رہتے۔ ان کے اندر بھی اس فن کو سیکھنے کا شوق پیدا ہوا چنانچہ انہوں نے تعلیم کو خیرباد کہا اور استاد اﷲ وسایا سے یہ فن سیکھنے لگے۔ جوں جوں وقت گزرتا رہا ان کے فن میں پختگی آتی گئی۔
استاد عالم نے یہ فن اپنے بیٹوں کو بھی سکھایا ہے تاکہ یہ فن نسل در نسل آگے بڑھ سکے۔ ان کے پانچ بیٹے مقصود احمد‘ فیض الحسن‘ اﷲ رکھا‘‘ احمد حسن اور محمود الحسن اس فن کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ کاشی کاری اور نقاشی میں بنیادی فرق یہ ہے نقاشی چمڑے پر کی جاتی ہے جبکہ کاشی کاری مٹی کے برتنوں پر ہوتی ہے اس میں کیمیل کاپر آکسائیڈ استعمال ہوتا ہے بعدازاں اسے ٹمپریچر بھی دیا جاتا ہے جبکہ نقاشی میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن استاد عالم دونوں فنون پر عبور رکھتے تھے۔
استاد عالم نے سارک ممالک کانفرنس کے موقع پر سری لنکا میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے وہاں اپنی بنائی اشیاء کی نمائش کی جسے مسلمانوں اور میزبانوں نے بہت سراہا۔ سری لنکا کے صدر نے انہیں خصوصی ایوارڈ و انعام سے نوازا۔استاد عالم کہا کرتے تھے کاشی کاری کا فن پانچ سو سال کے بعد بھی زندہ رہتا ہے موجودہ دور میں اس فن کے جو نقوش ملے ہیں انہیں دیکھ کر اس کی قدامت کا احساس تک نہیں ہوتا یہ فن پارہ نہ خراب ہوتا ہے نہ اس کا رنگ اترتا ہے۔ ’’پہلے صرف باڈی پر کاشی کی جاتی تھی کلر سکیم کا اتنا رواج نہیں تھا اب اس کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے باڈی میں بھی تبدیلی کی اور کلر سکیم بھی گراؤنڈ بھرنے کی بجائے پھولوں اور پتلوں میں رنگ بھرنا شروع کیا جس کی وجہ سے اس فن میں مزید نکھار پیدا ہو۔
وقت کے ساتھ اس شعبے میں بڑی تبدیلی۔ اب عام آگ کی جگہ سوئی گیس کی بھٹی استعمال ہوتی ہے یہ جدید طریقہ ہے جس میں گیج کے مطابق حرارت دی جاتی ہے اس طرح سرخ مٹی کی بجائے سفید مٹی ’’چائنا کلے‘‘ پر کام کیا جاتا ہے جو زیادہ پائیدار ہے اور ہزار سال تک خراب نہیں ہوتا اس کے علاوہ اونٹ کی کھال کے لیمپ اور دوسری اشیاء بھی تیار کی جارہی ہیں۔
استاد محمد عالم نقاش نے کاشی گری اور نقاشی میں متعدد نئے تجربات کیء انہوں نے نو کاشی‘ چائنہ کشی‘ باسی پتہ‘ کارنر فلاور جیسے ڈیزائن تخلیق کئے۔ انہوں نے پرانی کاشی میں بھی نئی ترامیم کی جس سے کاشی بھی جاذب نظر ہو گئی انہوں نے سپیشل کاشی پر بڑا کام کیا وہ سنگ تراشی بھی جانتے تھے جس میں کاشی گری کے رنگ ہوتے ہیں اس طرح وہ پورٹریٹ بنانے کا بھی فن جانتے تھے۔
استاد محمد عالم کا سب سے بڑا کمال ان کے کاشی کاری کے تجربات ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کام دنیا بھر میں ان کے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ استاد محمد عالم نے چاول‘ دال‘ خشخاش‘ باجرے اور سرسوں کے دانے کے برابر میٹریل پر کاشی کاری کے نمونے تیار کئے۔ ان میں چاول کے دانے کے ہر برابر میٹریل میں چھ مرتبہ کلمہ طیبہ‘ دال کے دانے کے برابر میٹریل پر بسم اﷲ ‘ سرسوں کے دانے پر یااﷲ یا محمدؐ (مکمل) دال کے دانے پر درود ابراہیمیؑ‘ باجرے کے دانے پر کلمہ طیبہ اور بسم اﷲ‘ خشخاص پر اﷲ ‘ محمدؐ‘ خشخاص کے تیسرے حصے پر اﷲ‘ سوئی جتنے میٹریل پر قومی ترانہ‘ بسم اﷲ ‘ 206 مرتبہ کلمہ طیبہ اور ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر 665 مرتبہ یامحمدؐ لکھا ہے۔ اس میں کمال کی بات یہ ہے کہ خطاطی کرتے وقت زیر‘ زبر‘ پیش اور پیش کے اندر خلا بھی صاف نظر آتے ہیں یہ کام ان کی سالہا سال کی محنتوں کا نچوڑ ہے۔ اس کا رنگ تیار کرنے میں تین چار سال لگے چونکہ کاشی کاری عام خطاطی اور نقاشی سے مختلف ہے۔ اس میں تحریک کردہ لفظ اپنی اصل شکل سے چار گنا بڑا ہو جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استاد محمد عالم نے کس قدر باریک ترین لکھا ہو گا جسے بھٹی میں پکانے کے بعد بھی وہ اتنا چھوٹا رہا۔ دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ اتنے باریک میٹریل کو دہکتی بھٹی میں رکھنا اور ڈھونڈ کر نکالنا کس قدر مہارت اور محنت کا کام ہے۔ استاد محمد عالم کا کھلا دعویٰ تھا کہ اس جیسا کام کوئی دوسرا کاشی کار نہیں کر سکتا۔
استاد محمد عالم کو رحلت فرمائے چند دن ہوئے ہیں۔ ان کے شعبہ سے وابستہ لوگوں نے انہیں ابھی سے بھلا دیا ہے ان کے جنازے میں چند ایک دستکاروں اور مصوروں کے علاوہ کسی نے بھی کندھا دینا مناسب نہ سمجھا۔ حتیٰ کہ قل خوانی میں بھی فنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں نے بھی شریک ہونا گوارہ نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سرزمین ملتان ایک عظیم مصور و کاشی گر سے محروم ہو گئی ہے لیکن قابل اطمینان امر یہ ہے کہ اپنے بچوں کو انہوں نے جو فن منتقل کیا وہ انہیں تاحیات زندہ رکھے گا۔