برطانیہ سے اقبال چیمہ تشریف لائے۔ گزشتہ برس ان سے کئی ملاقاتیں رہیں اور بھارت کی آبی جارحیت کی سنگینی کے مسئلے کو انہوں نے اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
مگر بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں اور بھی آبی تنازعات ابھرے ا ور انہیں حل بھی کیا گیا، اس ضمن میں جتنے بھی معاہدے ہوئے، ان کی رو سے کسی بھی دریا کا پانی کسی ایک ملک کی تحویل میںنہیں دیا گیا جبکہ سندھ طاس معاہدے میں بیاس، ستلج اور راوی ، تین دریاﺅں کا سو فیصد پانی بھارت کو دان کر دیا گیا۔ جس کی وجہ وہ پاکستانی علاقے جو ان دریاﺅں کی بدولت سیراب ہوتے تھے، وہ بنجر ہوتے چلے گئے، ہماری زراعت تباہ حالی کا شکار ہو گئی اور وہ خطہ جو پورے بر صغیر کی غذائی ضروریات کا کفیل تھا، وہ پیاز اور آلو تک کے لئے بھی بھارت اور دیگر ممالک کی درا ٓمدات کا محتاج ہو گیا۔
اقبال چیمہ سے مکا لمے کے نتیجے میں میںنے کوئی ایک درجن کالم تحریر کئے، انہوں نے پانی کے مسئلے پر اپنی لکھی ہوئی کتاب بھی عطا کی ا ور برکت علی لونا صاحب کی کتاب بھی ہدیہ کی جس کا عنوان ہے کالا باغ ڈیم پاکستان کے لئے سونے کی کان۔
اقبال چیمہ نے اس شعور کو اجاگر کیا کہ ہمیں ورلڈ بنک سے رجوع کر کے تین دریاﺅں کے پانی پر بھارتی قبضے کے مسئلے پر احتجاج کرنا چاہئے اور سندھ طاس معاہدے کو دنیا کے دیگر آبی معاہدوں کے ساتھ مطابقت پیدا کروانی چاہئے۔
اب کچھ عرصے سے سابق سینیٹر محمد علی درانی نے ضیا شاہد کے ساتھ مل کر ایک تحریک چلا رکھی ہے اور ایک فورم بھی تشکیل دے ڈالا ہے جوبھارت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ ستلج اور راوی سے اپنی زرعی ضروریات کے لئے پانی تو بے شک سو فیصد استعمال کر لے لیکن ان ضروریات سے زائد پانی پاکستانی علاقے کے متاثرین کے لئے چھوڑنا چاہئے تاکہ کم از کم ہمارے انسان ، حیوان جو دریائی پانی پیتے ہیں اور دیگر آبی حیات کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ مجھے اس فورم کے مباحث سننے کا اتفاق ہوا ہے اور میرا ان سے بنیادی اختلاف یہ ہے کہ نہ تو بھارت ہمارے براہ راست احتجاج پر کان دھرے گا، اور نہ ہمارے کسی ایک فرد یا نجی تنظیم کی اپیل ورلڈ بنک سننے کے لئے تیار ہو گا۔اس لئے کہ سندھ طاس معاہدہ کا فریق پاکستان ہے، ہمار ا کوئی فرد نہیں ، اس لئے کسی اپیل کا حق بھی ریاست پاکستان ہی کو حاصل ہے مگر محمد علی درانی اور ضیا شاہد اصرا کئے چلے جا رہے ہیں کہ کوئی ایک فرد یا تنظیم بھی ورلڈ بنک میں پیش ہو سکتی ہے۔
میںنے اقبال چیمہ سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کیا کوئی ایک فرد یاا دارہ نجی حیثیت میں سندھ طاس معاہدے کو ورلڈ بنک کے سامنے چیلنج کر سکتا ہے، ان کا جواب تھا ہر گز نہیں۔ اس معاہدے میں پاکستانی عوام کی طرف سے ریاست پاکستان ہی فریق کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کی شنوائی ہو سکتی ہے ۔
اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان کس بنیاد پر ورلڈ بنک سے رجوع کرے۔ اقبال چیمہ نے بتایا کہ سندھ طاس کمیشن کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سربراہ مرزا آصف بیگ نے حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ عالمی کنسلٹنٹس کے ذریعے ا س نقصان کا تخمینہ لگوائے جو راوی اور ستلج کے پانی کی کلی بندش کی وجہ سے پاکستان کو ہو رہا ہے اور یہی ماہرین اس نکتے کا بھی جواب دیں گے کہ کیا پاکستان ان کی رپورٹ کی بنیاد پر ورلڈ بنک سے رجوع کر کے راوی اور ستلج کے متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کروا سکتا ہے اور بھارت کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف اپنی زرعی ضرورت کے لئے پانی روکے ، بقیہ پانی مادھو پور اور فیروز پور ہیڈورکس سے نچلے علاقوں کی انسانی ا ور حیوانی ضروریات کے لئے ریلیز کرتا رہے۔
اس وقت بھارت ایک اور ظلم بھی کر رہا ہے، برسات کے موسم میں جب اس کے ڈیم پانی سے بھر جاتے ہیں تو وہ پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر فالتو پانی اپنے ڈیموں سے چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے نارووال ، سیالکوٹ ، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ کے چار ا ضلاع میں باسمتی کی فصل مکمل طور پر سیلاب میں ڈوب جاتی ہے اور کسان بے چارے ہا تھ ملتے رہ جاتے ہیں، سندھ طاس معاہدے کی شرط یہ ہے کہ بھارت فالتو پانی چھوڑنے سے چار دن پہلے پاکستان کو مطلع کرے گا تاکہ کم از کم پاکستان اپنی آبادی کا انخلا تو کر سکے۔
اقبال چیمہ نے کہا کہ ہم بھارت کے خلاف رونا دھونا تو جاری رکھیں مگر مسئلے کے حل کے لئے ہم کچھ اقدامات خود بھی کر سکتے ہیں ، اس ضمن میں ہمیں ایک نہر مادھو پور سے نیچے راوی میں لا کر ڈالنی چاہئے تاکہ مادھو پور سے بلوکی تک کے علاقے کی خشک سالی کا مداوا کیا جا سکے۔
ایک احتیاط ہمیں اور بھی کرنی ہے، اس کی طر ف عدلیہ نے توجہ دلائی ہے اور چیف منسٹر پنجاب کو ذاتی طور پر طلب کر کے حکم دیا ہے کہ دریا میں گندہ پانی پھینکنے سے گریزکیا جائے، عالمی قوانین کی رو سے کسی دریا میں فضلہ پھینکنا سخت جرم ہے مگر ہم شہر لاہور کے تمام گندے نالوں کا پانی دریائے راوی میں ڈال رہے ہیں ، اور بھارت سے آنے والے گندے پانی کے نالہ ہڈیارہ کو بھی اسی راوی میں پھینک رہے ہیں، یہ سب کا سب زہر ہے جس کو پینے سے ہمارے جانور بھی مر رہے ہیں اور انسان بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ یہ ایک اجتماعی قتل ہے جس کا ارتکاب ہم مسلسل کئے چلے جا رہے ہیں، ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم گندے نالوں کا پانی ٹریٹ منٹ کے بعد ہی راوی میں پھینکیں۔
دوسری طرف بھارت نے بھی فیروز پور کے گندے نالوں کا پانی ستلج میں ڈالنے کا وطیرہ اختیار کر رکھا ہے ۔ جو انسانوں اور جانوروں سب کے لئے سخت مضر ہے۔ ہمیں بھارت کے خلاف مہم چلانا ہو گی کہ وہ گندہ پانی ٹریٹ منٹ کئے بغیر دریا میں نہ ڈالے ۔مگر اس سے پہلے ہمیں خود راوی میں ڈالا جانےو الا گندہ پانی صاف کرنا ہو گا ورنہ بھارت ہماری ایک نہیں سنے گا۔
ہمارے ا س مباحثے کے دوران پنجاب یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی اسکالر زینب احمد بھی موجود تھیں ، وہ پانی کے تنازعے پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں ، انہوں نے یہ انکشاف کر کے ہمیں چونکا دیا کہ صرف پاکستان ہی میں ایک طبقہ سندھ طاس معاہدے سے نالاں نہیں بلکہ بھارت میں بھی یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ اس معاہدے پر نظر ثانی کے لئے ورلڈ بنک سے رجوع کیا جائے ۔ میں نے پوچھا کہ بھارت نظر ثانی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے،، محترمہ زینب احمد نے بتایا کہ بھارتی حلقوں کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے تحت وہ کشمیر میں صرف چار ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتا ہے، وہ اس مقدار میں اضافہ چاہتے ہیں ، مقصد ان کا یہ ہے کہ پاکستان کو چناب اور جہلم کے پانی سے بھی مزید محروم کر دیا جائے، اس وقت بھی بھارت ان دریاﺅں پر باسٹھ ڈیم بنا رہا ہے ، ہم نے کشن گنگا پر اعتراضات کئے۔ مگر ورلڈ بنک نے ہماری فریاد پر کان نہیں دھرے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہماری وکالت کرنے والے کمزور تھے۔ محترمہ زینب احمد نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اسوقت ستلج ا ور راوی کے متاثرین کے نام پر جو مہم چلائی جا رہی ہے ، اگر ا س کے دباﺅ کے تحت حکومت پاکستان ورلڈ بنک میں کوئی اپیل کر بھی دے تو ایک بار پھر وہی ہو گا، ہمارے وکیل کمزور ہوں گے، یا بھارت ان کو خرید لے گا۔ اور ہمیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بہت سوچ سمجھ کر اور بڑی تیاری کے ساتھ حکومت پاکستان کو ورلڈ بنک میں کوئی اپیل کرنی چاہئے۔
محفل میں موجود یحییٰ مجاہد نے تو خوف زدہ ہی کر دیا ، انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے ایک واٹر فورم تشکیل دیا تھا جو بھارت کی ا ٓبی جارحیت کو آشکارا کرنے میں پیش پیش تھا۔ مگر بھارت نے اس فورم کے سربراہ سیف اللہ صاحب کو ایک سڑک حادثے میں شہید کر کے یہ آواز دبانے کی کوشش کی۔ اس پس منظر میں کوئی نیا فورم چلانے والوںکو بھارتی دہشت گردی سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
بات اس نتیجے پر ختم ہوئی کہ بھارت کی مخالفت میں آواز اٹھانے والوں کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی:
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38