’’ماں بولی ‘‘ کا عالمی دن
یونیسکو(اقوامِ متحدہ) کے تحت ہرسال 21فروری کو’’عالمی ماں بولی کا دن‘‘ منایا جاتا ہے۔اس دن کا بنیادی مقصد ماں بولی کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔کیونکہ بچہ پہلی زبان یا ماں بولی میں پڑھنے،لکھنے اورگنتی کرنے کی بنیادی مہارتیں سیکھتا ہے۔مقامی اقلیتی اورعلاقائی زبانیں ثقافت،اقدار اورروایتی تعلیم کوآگے منتقل کرتی ہیں اور اس طرح ان کے مستقبل کو بھی سہارا ملتا ہے۔
’’The Ethnologue catalogue of world languages‘‘ (جوزبانوں کے بارے میں جاننے کا ایک بہترین ذریعہ ہے) کے مطابق دنیا میں اس وقت7099 زبانیں ہیں۔زندہ زبانوں سے مراد ایسی زبانیں ہیں جو دنیا کے دریافت خطوں میں کہیں نہ کہیں بولی ضرور جاتی ہیں۔ان میں سے فقط پہلی23زبانیں آدھی سے زیادہ دنیا بولتی ہے۔ فہرست میں چینی،فرانسیسی اورانگریزی بالترتیب پہلے،دوسرے اور تیسرے نمبر پر بولی جانے والی زبانیں ہیں۔اردو کا مقام انیسویںنمبرپرآتا ہے۔تقریباً دو تہائی زبانوں کا تعلق افریقہ اور ایشیا سے ہے۔’’ماں بولی‘‘کا وسیع تر تصور لیا جائے تو ایک آدم کی سبھی اولاد ہیں۔آدم جنت کے باسی تھے اور جنت کی زبان عربی ہے۔ اس لحاظ سے ہم سب کی ماں بولی عربی ہی ہونی چاہئے تھی۔لیکن قرآن مجید کے الفاظ میں
’’اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق بھی ہے اور تمھاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے۔‘‘’’ بے شک اس میں اہلِ تحقیق کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘(سورہ ٔ الروم)
انسانوں کی نسل پروان چڑھی توزمین کے مختلف خطوں میں پھیل گئی اور ساتھ ہی مختلف زبانیں بھی وجود میں آتی چلی گئیں۔ وکی پیڈیاکے مطابق دیگرممالک کی طرح پاکستان میں بھی کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی، پشتو، سندھی بلوچی اور شینا ( بلتستان) میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، آیر، بدیشی، باگری، بلتی، بٹیری، بھایا، براہوی، بروشسکی، چلیسو، دامیڑی، دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، فارسی، دری، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، گجراتی، گوجری، گرگلا، ہزاراگی، ہندکو، جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کشمیری، کاٹی، کھیترانی، کھوار، انڈس کوہستانی، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی، لوارکی، مارواڑی، میمنی، اوڈ، ارمری، پوٹھواری، پھالولہ، سانسی، ساوی، شینا (دو لہجے)، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔ دنیا میں اب بھی بہت سی زبانیں بن اور مٹ رہی ہیں ۔یہ ایک مسلسل اور ارتقائی عمل ہے۔اس پس منظر میں ’’ماں بولی کا دن‘‘مختلف زبانوں کو زندہ رکھنے میں مددگارثابت ہوناچاہئے۔میرے نزدیک کسی زبان کو پروان چڑھانے کیلئے تحریروتقریرکی ہرکوشش جائز ہے مگر یہ کوشش اسے دوسری زبان کا حریف بنا کر نہیں کی جانی چاہئے۔قیامِ پاکستان کے بعد اُردو کو قومی زبان کا درجہ اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ زیادہ تر لوگوں کیلئے رابطے کا آسان ذریعہ تھی اور ہے۔
ایک تسلیم شدہ حقیقت یہ ہے دیگر بڑی یا زیادہ بولی جانے والی زبانیں تو مادری زبان کی ترویج و اشاعت میں مددگار ہی ثابت ہوتی ہیں تاآنکہ کسی بھی سطح پر مادری زبان کو خود وہ زبان بولنے والا ہی متروک یاغیرمستعمل نہ بنائے ۔مرے ایک ساتھی استاد ،اصرار کے باوجود اپنی مادری زبان’’میواتی‘‘ میںکچھ بولنے کو تیار نہیں ہوتے تھے ۔اس کے برعکس اسی خاندان کے پڑھے لکھے نوجوان اب زیادہ پراعتماد ہیں اور اپنی مادری زبان بولنے سے نہیں ہچکچاتے۔گویا زبان اور وہ جسے ہم مادری زبان کہتے ہیں ،میں ردوبدل کا معاملہ عجیب نہیں۔اسے کسی دبائو یا کوشش سے مٹایا یافروغ نہیں دیا جاسکتا۔ویسے بھی اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔مختلف زبانوں کے لاتعداد الفاظ ایک دوسری زبان میں جذب ،داخل یا مستعمل ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جسے کشادہ دلی سے تسلیم کرنا چاہئے۔ماں بولی،مقامی، ملکی یا بین الاقوامی ،میں سکھتا ہوں مختلف زبانیں اس دنیا کا حسن ،ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں اورکوئی کسی سے کم یا زیادہ نہیں۔