مصیبت ساری نام میں ہے۔ جب غریب پھل فروشوں کی مائیں انکے نام راجہ رکھنے لگ جائیں گی تو وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا راجہ سمجھنے لگ جائینگے۔ اسی لئے دینہ (جہلم) کے پھل فروش راجہ اشرف محمود کی موٹر سائیکل کو جب ایک پولیس جیپ نے ٹکر ماری تو وہ راجہ اپنا حق سمجھتے ہوئے یا اپنے آپ کو پولیس کی طرح ہی ایک انسان سمجھتے ہوئے انکی اس حرکت پر ناراضگی کا اظہار کر بیٹھا۔ راجہ جیسے لوگوں کے تو اصل نام تک کھو جاتے ہیں، کرمو، گامو یا چھوٹا کہلائے جانیوالے اپنے وجود کی بقا کیلئے آواز اٹھانے کی بات کریں تو ان کیلئے یہ قیامت کا دن ہی ہونا چاہئے۔ سو اس راجہ کو پولیس نے اس جرأت پر اتنا مارا اتنا مارا کہ بس مار ہی دیا۔ میڈیکل کے 25 ممبرز نے تشدد سے موت کی تصدیق کی۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ آج 11 سال بعد بھی اس کی لاچار غریب بہن جو لوگوں کے کپڑے سی کر گزارا کرتی ہے آج بھی اس مقتول بھائی کی موت کا انصاف مانگنے لاہور ہائی کورٹ آتی ہے۔ کیس کی پیروی نہ کر سکیں، اس لئے اس غریب خاندان کا کیس پنڈی سے لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ غریب جسکے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو وہ بسوں کے کرایے کہاں سے نکالے؟ تو تھک ہی جائیگا لیکن بہادر میمونہ (راجہ کی بہن) جھک نہیں رہی۔ ممتاز علوی کی تحریر کا شکریہ جس سے پتہ چلا کہ اس کیس کی پیروی کی سزا بوڑھا باپ بھی بھگت چکا ہے۔ اسے 21 ستمبر 2014ء کو گھر کے سامنے ہی گولی مار دی گئی تھی۔ گھر بھی ملبے کا ڈھیر بنایا جا چکا ہے۔ تین بہنوں اور ایک پاگل ماں پر مشتمل یہ خاندان اب ٹینٹ میں زندگی گزار رہا ہے۔ چھوٹی بہن چار پانچ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کیا کما لیتی ہو گی؟ ایک بہن کو اس جرم میں طلاق دے دی گئی کہ وہ اپنے والد کو اس کیس کی پیروی کرنے سے روک نہیں سکی۔ اب وہ بھی طلاق کا ٹیکہ ماتھے پر لگائے دماغی توازن کھو چکی ہے اور اسی ٹینٹ کے نیچے ایک ہی آس کے ساتھ زندہ ہے کہ بھائی کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانا ہے۔ باپ گولی لگنے کے بعد معجزاتی طور پر زندہ ہے مگر ایک لاش کی طرح بستر پر معذوری کی حالت میں شاید اس لئے بچ گیا ہے کہ بیٹیاں بالکل ہی تنہا نہ رہ جائیں۔ جو دھرتی انہیں انصاف تو نہیں دے رہی مگر باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد ان عورتوں کو نگل ضرور لے گی۔ ابھی بھی ان بہنوں کو پولیس بلیک ملینگ کر رہی ہے ان پر تشدد ہوتا ہے مگر 11 سال سے یہ جھک نہیں رہی ہیں۔ آج بھی یہ بھائی کی اور اب باپ کی خون میں ڈوبی تصویریں اٹھائے گھوم رہی ہیں۔ انکی آوازوں پر کان دھرنے ہونگے اگر انصاف نہ ملے اور ظلم بڑھتا جائے تو اپنا شکار خود بھی کر لیتا ہے۔ اسکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ نیویارک کی پاکستان کے 1999ء والے مارشل لاء کی سیلیا ڈگر کی رپورٹ نکال کر دیکھیں جس میں 500 گھروں کی غریب اور میلی بستی کو فوجی بغاوت سے چند گھنٹے پہلے صرف اس لئے ملیا میٹ کر دیا گیا تھا کہ جب شہزادوں کی سواریاں گزرتی تھیں تو وہ غربت کا نظارہ ان کی آنکھوں کیلئے زحمت تھا۔ اس سے پندرہ منٹ کی دوری پر بنی گالہ جس کا سیوریج راول جھیل میں گرتا ہے اور پورے پنڈی اسلام آباد کو کثافت دیتا ہے مگر کیا فرق پڑتا ہے انکے محلات آج بھی کھڑے ہیں۔ وہ جھونپڑیاں گرا دی گئی تھیں۔ ایک بوڑھی عورت نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک افسر کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا میں یہاں ایک صدی سے آباد ہوں میرا گھر نہ توڑو، اس افسر نے غصے سے اسے دھتکارے ہوئے اسکے گھر کے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا جائو اپنا کوڑا یہاں سے اٹھا کر لے جائو۔ ان بچاروں کو تو عدالت جانے کا بھی نہیں پتہ ہوگا۔ مگر جب نوازئیدہ بچے جب کھلے آسمان کے نیچے رو رہے ہونگے تو اس وقت کے قوم کے سربراہ میاں صاحب جیل کی سلاخوں تک پہنچ چکے تھے۔
اسی طرح جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے تو ہم بھول جاتے ہیں ان سب اموات کو، استحصال کو جو بھٹو کے ہاتھوں ہوئے۔ بھٹو صاحب کی بنائی ہوئی ذاتی فوجFSF جس کو بدنامِ زمانہ پولیس آفیسرز حق نواز ٹوانہ، مسعود محمود، سعید احمد کسی قانون کی پرواہ کئے بغیر چلاتے تھے ۔ مخالفین کو مروانا ، اٹھوانا معمول تھا۔ گلے کا پھندہ تو احمد قصور ی بنا تھا مگر JI کے ڈاکٹر نذیر احمد جنہیں انکے کلینک میں مار دیا گیا تھا، سید اسد گیلانی، خواجہ رفیق جنہیں پنجاب اسمبلی کے پیچھے جلوس نکالتے مروا دیا گیا تھا، عبدالصمد اچکزئی جنہیں گھر کے اندر گرنیڈ پھینک کر مار دیا گیا تھا بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مولوی شمس الدین یہ سب قتل آمریت کی عفریت، ظلم اور ناانصافی کے اس زمانے کے ابواب ہیں۔ دلائی کیمپ جسے معراج خالد نے اپنی کتاب معراج نامہ میں گوانتا نامو بے کہا ہے اور اس دور میں شاہی قلعہ مخالفین کیلئے تشدد کا استعارہ بن گیا تھا۔ stanely wolpert کو جے اے رحیم نے بتایا کس طرح اسے ٹانگوں سے پکڑ کر گلی میں گھسیٹا اور FSF کی گاڑی میں پھینکا گیا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی بنانے والے بھٹو کے سنیئر ساتھی کا حال کیا گیا تھا جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے کسی بات پر ناراض ہو کر بھٹو کو لاڑکانہ کا راجا کہہ دیا تھا۔ ضیاالحق نے ظلم کی روایت کو زندہ نہ رکھنے دیا ہوتا تو اسکے ٹکڑے بھی بے نام و نشان ہوائوں میں دھول مٹی کی طرح نہ بکھرتے۔ بکھرتے تو آج قاتل گرفت میں ہوتے۔ صدر مشرف نے عدالت کو نہ لپیٹا ہوتا تو آج انصاف کی امید رکھتے۔ پاکستان میں ’’عدالتی قتل‘‘ نہیں ہوتا بلکہ ’’عدالتیں‘‘ قتل ہوتی ہیں۔ انصاف کا خون کیا جاتا ہے اور پھر اس ’’لاش‘‘ سے زندگی کی امید کی جاتی ہے۔ میمونہ جسٹس ناصر المک سے سوموٹو ایکشن کا مطالبہ کر رہی ہے اور میں حکمرانو ں سے، چیف جسٹس سے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ خدا کے واسطے عدالتی نظام کو اتنا بہتر کر دیں کہ آپکی ’’طاقت‘‘ جانے کے بعد آپکو اسی عدم انصاف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔میمونہ کے اُجڑے خاندان کیلئے نہیں اپنے خاندان کو میمونہ کا خاندان بننے سے بچانے کیلئے انصاف کو آج بچا لیں۔ تقدیر نے دھکا دیکر پھر دوبارہ آپکو مسند پر بٹھایا ہے۔ انصاف کو غریب کی پہنچ میں رہنے دیں۔ غریبوں کیلئے نہ سہی اپنے آنیوالے ’’بے حال کل‘‘ کیلئے ہی سہی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024