پورے ملک کو خطرات لاحق‘ دہشتگردوں نے اسلام آباد میں ٹھکانے بنالئے‘ حکومتی اداروں کے سنسنی خیز انکشافات…اب مصلحت اوربزدلی نہیں‘ جرأت مندانہ اقدام کی ضرورت ہے
وزارت داخلہ نے اسلام آباد کو انتہائی خطرناک شہر قرار دے دیا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو جو رپورٹ دی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے علاوہ چاروں صوبوں میں سکیورٹی خطرات ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں مختلف دہشت گرد تنظیموں نے سلیپر سیل بنا رکھے ہیں۔ ان تنظیموں میں نہ صرف القاعدہ‘ لشکر جھنگوی بلکہ تحریک طالبان کے بھی سیل موجود ہیں۔ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں طالبان کے علاوہ مختلف قوم پرست جماعتوں نے عسکری ونگ بنا رکھے ہیں۔ بلوچستان میں لشکر جھنگوی اور بلوچ قوم پرست تنظیمیں بھی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پنجاب میں کالعدم تنظیمیں اور لشکر جھنگوی بڑا خطرہ ہیں۔ گلگت بلتستان میں لشکر جھنگوی کے سیل موجود ہیں۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں سے اسلحہ اور دہشت گرد پاکستان میں داخل ہورہے ہیں۔ ڈی جی نیشنل کرائسز مینجمنٹ طارق لودھی نے بھی ایک بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ سندھ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے لشکر جھنگوری اور ٹارگٹ کلرز دہشت گردی کر رہی ہے۔ ملک کو دہشت گردی اور غیرملکی مداخلت کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں القاعدہ 13 کالعدم تنظیمیں اور تحریک طالبان جبکہ خیبر پی کے اور فاٹا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور غیرملکی ہاتھ ملوث ہے۔
آج پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گرد خود کو حکومت سے بھی زیادہ مضبوط ثابت کر رہے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں راتوں رات وجود میں نہیں آگئیں‘ انہیں پنپنے اور مضبوط ہونے کا موقع حکمرانوں کی مصالحت پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے ہی ملا۔ یہ جن علاقوں میں تھے‘ وہاں مضبوط ہوئے اور اسلام آباد جیسے علاقوں میں قلعہ بند ہو گئے۔ ان کا قلمع قمع ناممکن نہیں ہے‘ اس کیلئے ایک بہترین حکمت عملی کے ساتھ ساتھ جرأت‘ ہمت اور عزم کی بھی ضرورت ہے۔ حکام کو انکی طرف سے شدید ردعمل اور انتقامی کارروائی کا خوف ہے۔ عام انسان کا خون اتنا سستا نہیں کہ دہشت گردوں کو اسے بہاتے رہنے کا موقع دیا جاتا رہے۔ کئی ہفتے سے کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ فوجی کارروائیاں بند ہیں‘ مزیدبراں مذاکرات بھی ہوتے رہے۔ طالبان کے نکتہ نظر سے یہ مذاکرات کیلئے سازگار ترین ماحول تھا لیکن اسکے باوجود دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید شدت دیکھنے میں آئی۔ انکے نازنخرے اٹھانے میں کسر صرف ان کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر دینے کی رہ گئی ہے۔ کیا حکمران انکی دھمکیوں میں آکر ایسا کر گزریں گے؟
ہتھیار بند تنظیموں نے پاکستان کے چپے چپے میں بارود کی بو پھیلا دی۔ انکی دست برد سے فوج جیسے طاقتور ادارے‘ جی ایچ کیو‘ مہران اور کامرہ بیس جیسی سکیورٹی میں گھری حساس تنصیبات اور جرنیل تک محفوظ نہیں ہیں۔ ان کو ملک کے اندر سے بھی حمایت اور تعاون حاصل ہے۔ اوپر سے ہر دور کے حکمرانوں کی مصلحت اور بزدلی پر مبنی پالیسیوں کے باعث یہ گروپ مزید طاقتور ہو گئے۔ کبھی دہشت گردوں کو پولیس انکوائری میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی جج خائف ہو کر ضمانتیں لے لیتے ہیں‘ کبھی یہ خود جیلیں توڑ کر اپنے خطرناک ساتھیوں کو چھڑا لے جاتے ہیں اور کچھ کو حکومتیں خود چھوڑ دیتی ہیں۔ 3 نومبر 2007ء کو سابق صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا جبکہ 4 نومبر کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کالعدم تنظیموں کے 25 مطلوب دہشت گردوں کو رہا کردیا گیا تھا اور یہ وہی لوگ تھے جنہوں راولپنڈی اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں ریکروٹمنٹ اور سلیپر سیل بھی بنائے ہیں۔ اسکے بعد ایسے سیل اور قلعے ملک کے ہر حصے میں بن گئے۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ اور ڈی جی کرائسز مینجمنٹ کی بریفنگ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورا پاکستان بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے‘ جو چنگاری گرتے ہی شعلوں کی لپیٹ میں آجائیگا۔ دوسری طرف وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان کے بیان سے ’’سب معمول کے مطابق ہے‘‘ کا عندیہ ملتا ہے۔ بلیغ الرحمان نے کہا پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیرملکی ہیں‘ کالعدم تنظیموں میں نیا اضافہ نہیں ہوا۔ 60 تنظیموں کو کالعدم کردیا ہے۔ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے‘ وفاق سندھ کی مدد کررہا ہے‘ ایران‘ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے مدارس کو ملنے والی امداد پرنظر ہے۔ جیسے مدہوش وزیر مملکت ویسی انکی وزارت داخلہ‘ وزیر مملکت کو ملک کے نازک حالات کا ادراک ہی نہیں اور وزارت داخلہ دہشت گردی پر قابو پانے اور دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے اپنی رپورٹوں کے ذریعے عوام کے اندر بے چینی پیدا کر رہی اور خوف و ہراس پھیلا رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ پولیس چور کو پکڑنے کے بجائے چور چور کا شور مچانے لگے۔
پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بھارت اور کچھ مغربی طاقتوں کے ساتھ وہ مسلمان ممالک بھی شامل ہیں‘ جن کو اپنا خیرخواہ اور آزمودہ دوست کہتے ہوئے ہماری زبان سوکھ جاتی ہے۔ بلیغ الرحمان کی مدارس کو ملنے والی امداد پر کیوں نظر ہے؟ یقیناً ایسا کچھ ہے جو ضوابط کے مطابق نہیں۔ کوئی بھی ملک اگر کسی تنظیم کی مدد اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے کررہا ہے‘ تو اس پر صرف نظر رکھنے کی نہیں‘ اسکے خلاف سخت ایکشن کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے دوست ممالک پاکستان کو اپنی جنگ کا اکھاڑا بناتے ہیں تو اس سے بڑی دشمنی کیا ہو سکتی ہے۔ اس پر بھی حکمران خاموش رہتے ہیں تو انکی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان اٹھے گا۔ حکومت کا کام صرف تنظیموں کو کالعدم قرار دینا ہی ہے؟ جس بناء پر یہ اقدام کیا گیا‘ اس کا تدارک بھی حکومت کی ذمہ داری ہے جو کہیں نظر نہیں آتا۔ امن و امان صوبائی حکومتوں کا کام ہے تو مرکز‘ فاٹا سے فوج اور بلوچستان سے ایف سی کو واپس بلالے۔ ایف سی پر لوگوں کو غائب کرنے کا الزام ہے جس کی سابق چیف جسٹس نے بھی تائید کی تھی۔ وزیراعظم غور فرمائیں کہ انہوں نے کیسے لوگوں کو وزیر بنادیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے جیسوں کو بنایا ہے۔ کم از کم وزیراعظم صاحب! اہم ترین قومی امور کے معاملات تواہل لوگوں کے سپرد کریں۔
بھارت کی بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت ہر حکومت نے سنبھال کرر کھے جن کو محض بیان بازی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب کشمیر میں بھی بھارتی مداخلت کا اعتراف وزارت داخلہ نے خود کرلیا ہے۔ایسے کام نگران حکومتیں وقت گزاری کیلئے کرتی ہیں۔ اندرونی دہشت گردی اور بیرونی مداخلت سے پاکستان واقعی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ دونوں حوالوں سے حکومت کو جرأت مندانہ اقدامات کرنا ہونگے۔ اس سے پہلے کہ شہروں میں گھسے بیٹھے دہشت گرد مزید طاقتور ہوں اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تل جائیں‘ان پر کڑا ہاتھ ڈالا جائے۔ حکمران مذاکرات مذاکرات کا کھیل اور رٹ بند کریں‘ مصلحت اور بزدلی کے بجائے جرأت سے کام لیں‘ پوری قوم ساتھ ہے‘ ملک کو اسلحہ فری بنا دیا جائے تو امن کو درپیش خطرات ختم ہو سکتے ہیں۔ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اسلحہ بازیاب کرانے کی مہم شروع کی جائے۔ امن پسند عوام مکمل تعاون کرینگے۔ اسکے بعد شرپسندوں سے اسلحہ برآمد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے‘ جو سرکشی پر آمادہ ہوں‘ انکے گھر گرا دیئے جائیں تو دوسرے کیلئے عبرت بنیں گے۔ اب شاید یہی آخری چارہ کار رہ گیا ہے۔