کالعدم تحریکِ طالبانِ پاکستان کے مرکزی ترجمان نے یہ کہہ کر حکومت اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کا جواز ہی ختم کر دیا ہے کہ مُلّا عمر امیر المؤمنین اور مُلّا فضل اللہ خلیفہ بنیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ پاکستان کسی امیر المؤمنین نے قائم نہ کیا تھا۔ پاکستان تو غریب المؤمنین کی بھاری اکثریت نے ایک عوامی جمہوری تحریک کی بدولت قائم کر دکھایا تھا۔ اِس تحریک کی قیادت برصغیر کے مسلمانوں کے قائداعظم، مسٹر محمد علی جناح نے فرمائی تھی اور اِس کا تصور مفکرِ اسلام علامہ اقبال نے پیش کیا تھا۔ مُلّا لوگ اِس عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان کے زبردست مخالف تھے مگر مسلمان عوام کے اجماع نے مُلّائیت کو رد کر کے اُس حقیقی اسلام کی سربلندی کی خاطر پاکستان قائم کر دکھایا تھا جس کے شارع اور ترجمان عہدِ جدید کے عظیم ترین مفکرِ اسلام علامہ اقبال ہیں۔ پاکستان اِس وقت ، بلاشبہ ، مشکلات و مصائب میں گِھرا ہوا ہے۔ اِسکے باوجود اِس کے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کو مٹا کر یہاں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی سی ایک نام نہاد ’’اسلامی ‘‘امارات قائم کرنا ناممکن ہے۔تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت بھی اِس مشکل سے بخوبی واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسکے ترجمان نے اپنے زیرِ نظر انٹرویو میں اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اُنکی ’’اصل دُشمن پاکستانی فوج ہے اور اُسکے مرکزی کردار ہیں۔‘‘ حکومتِ پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران اُنھوں نے پاکستان کی اسماعیلی برادری کو بھی دھمکی دی ہے کہ وہ ’’اسلام قبول کر لیں یا مرنے کیلئے تیار رہیں۔ ‘‘اسماعیلی برادری کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ سرآغا خاں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام اور فروغ میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دی تھیں۔ تحریکِ طالبانِ پاکستان نے اسماعیلی برادری پر کوئی تازہ الزام عائد نہیں کیا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا تھا۔ اقبال نے اپنے طویل مضمون بعنوان : In reply to questions rays by Pandit Nehroمیں دو ٹوک الفاظ میںلکھا تھاکہ اسماعیلی برادری دائرۂ اسلام سے اندر رہ کر زندگی بسر کر رہی ہے۔
مجھے پنڈت نہرو اور تحریکِ طالبان پاکستان کی نظریاتی ہم آہنگی پر کوئی تعجب نہیں۔وجہ یہ کہ پاکستان کے نظریاتی وجود سے خائف تمام طاقتیں ایک سے طرزِ فکر کی حامل ہیں۔سر آغا خاں تو رہے ایک طرف ، اُن کی نظر میں، خود علامہ اقبال کی تعلیمات’’ کفریات ‘‘کی ترجمان ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے تازہ مضمون بعنوان ’’مسلم ثقافت کا روشن چہرہ‘‘میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک برادرمسلمان ملک سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’علامہ اقبال کے خطبات’ فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن کو ایک بین الاقوامی مسلم کانفرنس کی ایک قراردادمیں’’ کُفریات‘‘ قرار دیا جا چکا ہے اور اِس قرار داد میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اِن خطبات کو نہ پڑھیں‘‘(معاصر، لاہور،دسمبر 2013ئ) یادش بخیر!صدر ضیاء الحق مرحوم کے دورِ اقتدارمیں ، ہمارے ہاں، کچھ ایسا ہی استدلال سامنے آیا تھاجب اقبال کی شاعری اور اقبال کے خطبات میں سے فقط شاعری کو سراہا گیا تھا اور اقبال کے سیاسی ، معاشی اور ثقافتی تصورات کوفراموش کر دینے کا درس دیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے میں رات کے(شاعر) اقبال کی مدح اوردِن کے (مفکر)اقبال کی مُذّمت کا شیوہ اپنانے کی ’’تلقین ‘‘ہونے لگی تھی۔ اِس طرزِ فکر و عمل کے محرکات بھی سیاسی تھے۔آمریت اور اُسکی دست و بازو مُلّائیت کی نگاہ میں اقبال کا سب سے بڑاقصور یہ تھا کہ اُسکی نظر میں جمہوریت اسلام کا سیاسی آئیڈیل ہے تو مساوات اسلام کا معاشرتی آئیڈیل ۔اقبال کے انہی انقلابی اسلامی تصورات سے پاکستان کا نظریاتی وجود برآمد ہوا تھااور انہیں تصورات کی سربلندی کی خاطر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا جغرافیائی وجود پیدا کیا تھا۔ ضیاء الحق نے، اپنی ہوسِ اقتدار کی تسکین کیلئے پاکستان کے نظریاتی وجود کو ایک نام نہاد شرعی نظام کے نفاذ سے دُھندلا نے کے جُرم کا ارتکاب کیا تھا۔وہ شریعت کے نام پہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست کی بجائے ایک فرسُودہ اور ازکار رفتہ آمریت کی شکل دینا چاہتا تھا۔اپنے اِس مقصد کے حصول کی خاطر اُس نے شریعت کا نام لے لیکرمُلّائیت کی سرپرستی کی۔ جب 1978ء میں افغانستان میں سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی اور امریکہ نے اِس روس نواز حکومت کو ختم کرنے کی خاطر مُلّائیت کی سرپرستی کی حکمتِ عملی اپنائی تو ضیاء الحق نے طالبان کے تصورِ شریعت کو اپنے اور امریکہ کیلئے مفیدِ مطلب پایا چنانچہ پاکستان میں بھی ایک ایسی نئی شریعت کے نفاذ کی لَے چھیڑدی گئی جس کے خدوخال فیض احمد فیض کی نظم ’’تین آوازیں‘‘ کے ایک کردار ’’ظالم‘‘ کی زبانی نمایاں کیے گئے ہیں:
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سرو قد، مٹّی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہُوا
عرش پر آج ہر اک باب دُعا بند ہُوا
ستم بالائے ستم یہ کہ پندرہ بیس برس کے اندر اندر فیض کے ’’فصلِ گُل آئیگی نمرود کے انگار لیے‘‘ کے سے اندیشہ ہائے دُورودراز بھیانک حقائق کا روپ دھار گئے ہیں۔ضیاء الحق اور اُسکے پروردہ سیاستدانوں کی طالبان دوست حکمتِ عملی کے باعث نوبت یہاں آ پہنچی کہ ابھی تین چار روز پیشتر علماء و مشائخ کنونشن سے اپنے خطاب کے دوران مولانا سمیع الحق نے گذشتہ پندرہ برس سے ملک میں برپا آگ اور خون کے طوفان کو نارِ نمرود قرار دیا۔ اِس کنونشن میں مختلف دینی مسالک کے تینتیس نمائندگان نے شرکت فرمائی۔ اِن تمام مسالک کے برگزیدہ علمائے کرام نے شرکت فرمائی تھی۔اِن تمام مسالک کے علمائے کرام اور مشائخِ عظام نے انتہائی دردمندی کیساتھ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے کالعدم تحریکِ طالبان کے علمبردار دہشت گرد مُلاّئوں کو وفاقِ پاکستان کے استحکام کی راہ پر گامزن ہو جانے کی تلقین فرمائی۔ اِسکے باوجود یہ لوگ پاکستان میں مشرقِ وسطیٰ کی خاندانی بادشاہتوں کے عکس پر اسلامی امارات کے قیام پر بضد ہیں۔ حیران ہوں کہ ایسے میں حیّ و قائم اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور موہوم اسلامی امارات کے ترجمانوں کے درمیان مذاکرات کا مطلب کیا ہے؟ اِن مذاکرات پر مجھے کنیّا لال کپور کی ایک مزاحیہ نظم کے یہ مصرعے یاد آتے ہیں:’’خط لکھیں گے/ گرچہ مطلب کچھ نہ ہو/ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!‘‘
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38