قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے 15 جولائی 1948ءکو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ:
”میں نہایت اشتیاق کیساتھ آپکی ریسرچ فاﺅنڈیشن کے تحت موجود بینکنگ نظام کو اسلامی معاشی اور معاشرتی افکار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی و کوشش کو دیکھنا چاہوں گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کیلئے کچھ ناقابل حل مسائل پیدا کیے ہیں اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی اسے تباہی سے بچا سکتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کے مابین معاشی عدل قائم کرنے اور عالمی سطح پر ہونیوالی کشمکش کے تدارک میں ناکام ہو چکا ہے۔ اسکے برخلاف یہی نظام ماضی میں ہونیوالی دو عالمی جنگوں کا سبب بنا ہے۔ دنیائے مغرب اپنی صنعتی ترقی اور مشینی ایجادات و اختراعات کے باوجود بدترین انتشار میں مبتلا ہے جو تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد معاملہ ہے۔ مغربی معاشی نظریے اور عمل کو اختیار کرنا ہمیں اس آسودہ معاشرے تک پہنچانے کا باعث نہیں ہو سکتا جو ہماری منزل ہے۔ ہمیں اپنی تقدیر خود اپنے ظروف و احوال کے مطابق لکھنی ہوگی اور اسلام کے معاشرتی عدل اور انصاف پر مبنی ایک معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا جس کے ذریعہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا فرض ادا کر سکیں اور انسانیت کے سامنے پیغام امن پیش کر سکیں جو اس کی فلاح و بہبود، انبساط اور ترقی کا ضامن ہوگا۔“ مگر بانی¿ پاکستان کی اس واضح ہدایت کے باوجود ملک کا معاشی نظام ابھی تک مغرب کے معاشی نظریات اور اصول و ضوابط کے مطابق چل رہا ہے اور اس میں اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان میں نافذ ہونے والے ہر دستور میں اس کا وعدہ کیا گیا کہ قوم کو سودی نظام سے جلد از جلد نجات دلائی جائیگی۔ حتیٰ کہ 1973ءکے دستور کے آرٹیکل 380 کی ذیلی دفعہ F میں کہا گیا ہے کہ ”حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے ربا کو ختم کریگی۔“
قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے دستوری طور پر قائم ہونیوالے ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 3 دسمبر 1969ءمیں قرار دیا تھا کہ:
”موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری کی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے، سیونگ سرٹیفیکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے، پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اسکے ساتھ ساتھ صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔“
اسلامی نظریاتی کونسل نے اسکے بعد سودی نظام کے خاتمے اور متبادل معاشی نظام کے حوالہ سے ایک جامع رپورٹ 25 جون 1980ءکو حکومت کے سامنے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل کی صورت میں دو سال کے اندر پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے 1990ءمیں اس سلسلہ میں ایک واضح فیصلہ صادر کیا جس میں تمام مروّجہ سودی قوانین کا جائزہ لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ 30 جون 1992ءتک ان قوانین کو قرآن و سنت کیمطابق تبدیل کر لیں ورنہ یہ سب قوانین یکم جولائی 1992ءتک خود بخود کالعدم ہو جائینگے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت میں سات سال کی مسلسل تاخیر کے بعد 1999 میں اس کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا اور سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کی توثیق کرتے ہوئے کہ وہ جون 2001ءتک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل مکمل کر کے ملک کو سود سے پاک کر دے۔ مگر یہ فیصلہ بھی اب اپیل در اپیل کے مراحل میں ہے اور حکومت نے اس پر عمل کرنے کی بجائے تاخیری حربوں کا سہارا لے رکھا ہے۔اس پس منظر میں ”ملی مجلس شرعی“ کی تحریک پر گزشتہ دو تین ماہ کے دوران مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہ نماﺅں کے درمیان مرکز جماعت الدعوة، دفتر جماعت اسلامی، دفتر تنظیم اسلامی اور مسجد خضراءلاہور میں باہمی مشاورت کی متعدد نشستیں ہوئی ہیں جن میں یہ طے پایا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت اپیل کے حوالہ سے ”ملی مجلس شرعی پاکستان“ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے تعاون سے علمی و فکری جدوجہد جاری رکھے گی جبکہ ملک کے دینی حلقوں میں اس مقصد کے لیے باہمی ربط و تعاون کے فروغ اور عوام میں بیداری و آگہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک مستقل فورم ”تحریک انسداد سود پاکستان“ کے نام سے قائم کیا گیا ہے اور اس کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی ہے۔
رابطہ کمیٹی میں مولانا عبد المالک خان، مولانا عبد الرﺅف فاروقی، مولانا امیر حمزہ، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرﺅف ملک، سردار محمد خان لغاری، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، جناب حافظ عاکف سعید، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، میاں محمد اویس، مولانا حافظ محمد نعمان، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، اور سید جواد حسین نقوی کے علاوہ ممتاز دانش ور جناب اوریا مقبول جان بھی شامل ہیں جبکہ جن حضرات نے خطوط اور زبانی پیغامات کے ذریعہ تائید و حمایت کی ہے ان میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد اویس نورانی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا عبد القیوم حقانی اور مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس مہم کے آغاز کے طور پر 21 فروری کو ”یوم انسداد سود“ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024