پہلے حمید نظامی اب مجید نظامی ملک کےلئے معجزہ ہیں : امجد حسین ۔۔۔ اشتہارات کئی مرتبہ بند ہوئے کبھی پرواہ نہیں کی : مجید نظامی
لاہور (رپورٹ: ندیم بسرا) حمید نظامی میموریل سوسائٹی نے ملک کی سیاسی قیادتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کو درپیش انتہائی پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لئے قومی جذبہ حب الوطنی اور سیاسی بصیرت و اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ سیاست چمکانے کے بجائے انتہائی سنجیدگی اور درد مندی سے اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ حمید نظامی میموریل سوسائٹی کا اجلاس حمید نظامی ہال میں سوسائٹی کے صدر اور مرحوم حمید نظامیؒ کے دیرینہ دوست کرنل (ر) سید امجد حسین کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جس میں کارکنان تحریک پاکستان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ قابل ذکر شخصیتوں میں ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ مجید نظامی، چیف جسٹس ریٹائرڈ میاں محبوب احمد، ڈاکٹر رفیق احمد، جسٹس (ر) میاں آفتاب فرخ، جسٹس (ر) نذیر اختر، میاں فاروق الطاف، بیگم مہناز رفیع، پروفیسر ڈاکٹر پروین خان، ولید اقبال ایڈووکیٹ، ملک حامد سرفراز، بریگیڈیئر (ر) ظفر اقبال، کرنل (ر) اکرام اللہ، خورشید احمد وائیں، ڈاکٹر ایم اے صوفی، حمید احمد، مصطفی کمال پاشا، سردار شجاع خاں، نصیب اللہ گردیزی، رفیق عالم، پروفیسر علامہ محمد مظفر مرزا، رانا غلام صابر خاں، رفاقت ریاض اور شاہد رشید شامل تھے۔ کرنل (ر)سید امجد حسین نے اس موقع پر کہا حمید نظامی مرحوم سے میری رفاقت 1934ءسے شروع ہوئی جو 25 فروری 1962ءکو ختم ہوئی ،مگر حمید نظامی آج بھی زندہ ہیں۔ 1934ءکے ہندوستان میں ایک سیاسی لوڈشیڈنگ تھی تو روشنی صرف حکیم الامت علامہ اقبالؒ تھے۔ میں اور حمید نظامی علامہ اقبالؒ کو آئیڈیل سمجھتے تھے انہیں دکھ درد بتانے کے لئے ان کے در پے چلے جاتے تھے۔ قائداعظمؒ جب فلیٹیزلاہور میں ٹھہرے تو میں اور حمید نظامی ملنے گئے۔ ان کے سیکرٹری نے ہمارے آنے کا مقصد پوچھا تو ہم نے کہا ہم اسلامیہ کالج کے سٹوڈنٹس ہیں اور ملنا چاہتے ہیں‘ ہمیں علامہ اقبالؒ نے بھیجا ہے۔ ہمیں ان کی صرف ایک جھلک دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا قائداعظمؒ ایسے بندے تھے جن کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں تھا نہتے ہاتھوںانہوں نے ایک ملک مسلمانوں کے لئے بنایا۔ حمید نظامی مرحوم ملک کے لئے معجزہ تھے اب حمید نظامی کے بعد معجزہ مجید نظامی ہیں۔ نوائے وقت میں مجید نظامی 1962ءمیںنئی بیٹری کی صورت میںچارج ہونا شروع ہوئے اور چارج ہوتے ہوئے وہ آج ایٹم بم بن گئے ہیں۔ مجید نظامی نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر بہترین جہادکیاہے۔ حضور پاک کا دست شفقت مجید نظامی پر ہے کہ ان کے دل کے تین آپریشن ہو چکے ہیں‘ مجید نظامی فخر پاکستان ہیں ایک ایسے دور میں جس میں منافقت ہے‘ خوشامداورکرپشن ہے مجید نظامی درویش صفت انسان ہیں۔ایڈیٹر انچیف نوائے وقت مجید نظامی نے کہا میں جو کچھ بھی آج ہوں اللہ کے فضل کرم کے بعد حمید نظامی مرحوم کی وجہ سے ہوں۔ اگر میری یادداشت ٹھیک ہے تومیں نے حمید نظامی مرحوم کے ساتھ 1943ءسے لے کر 54ءتک اپنی زندگی کے دن گزارے ہیں۔ نوائے وقت میں میںنے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے پریس میں نیوز پرنٹ لے کر خود جاتا تھا۔ ویکلی نیوز کا خود انتظام کرتا تھا۔ گاہکوں کے ایڈریس میرے پاس ہوتے تھے۔ نوائے وقت میں 4 برس تک سرراہ کالم لکھتا رہا ہوں۔ 1954ءمیں لندن جانے کے بعد خیال یہ تھا کہ میں لندن میں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کروں گا۔ مگر حمید نظامی مرحوم کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔آغا شورش نے لندن میں مجھے فون کیا تھا کہ مجید صاحب واپس آ جائیں حمید صاحب بیمار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا زندگی میں میں نے بڑے اور چھوٹے عہدے کبھی بھی قبول نہیں کئے میں نے اسی ادارے کو اپنامحور بنایا۔ میں مڈل کلاس یالوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں اور اپنی کلاس کو آج بھی تبدیل نہیں کیا جس گھر میں 65ءمیں منتقل ہوا آج بھی اسی میں رہ رہا ہوں۔ ہر دوست کو یہی مشورہ دیتا ہوں اپنی کلاس کو تبدیل نہ کریں۔نوائے وقت کے اشتہارات کئی بار بند ہوئے مگر میں نے پروا نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا شاہ دین بلڈنگ میں میرے دفتر میں بھٹو صاحب آتے تھے ۔ایک بار کافی ہاﺅس میں میں نے ان کے ساتھ چائے پی تو میں نے ان سے کہا آپ باہر نکل آئیں تو انہوں نے کہا میں باہر آﺅں گا تو میرے بارے میں کوئی اخبار بھی خبر نہیں شائع کرے گا۔ تومیں نے کہا آپ سیاسی آدمی ہیں اقتدار میں آئیں سوشلزم نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا یوم حمید نظامی پر میں نے وائی ایم سی اے لاہور میں بھٹو صاحب کو بلایاتو اس وقت ہجوم اتنا تھا کہ سڑکیں بند ہو گئیں اور لکڑی کی سیڑھی لگا کر بھٹو صاحب کو وائی ایم سی اے سے نیچے اتارا گیا۔انہوں نے کہا ہمارے اشتہارات ایوب، بھٹو اور مشرف دورسمیت دیگر دور میں بار بار بند ہوتے رہے۔ اشتہارات اور نوائے وقت دو علیحدہ چیزیں نہیں۔ انہوں نے کہا صدر زرداری نے کہا تھا ایک بڑے اخباری گروپ نے اربوں روپے ٹیکس ادا کرنا ہے مگر ان کے اخبار کے اشتہارات بند نہیں کئے گئے۔ انہوں نے مزید کہا نوائے وقت چھ صفحوں کا اخبار تھا اور آغا شورش کے پریس میں چھپتا تھا۔ ہمارے اشتہارات بند تھے اورگھمبیر صورتحال کے بعد بھی نوائے وقت کی پالیسی کو جاری رکھا۔ انہوں نے مزید کہا لندن سے لاہورواپسی پر حمید نظامی مرحوم سے ایک بات ہی ہوئی تھی ، حمید نظامی مرحوم نے مجھ سے کہا مجید تم آ گئے اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ انہوں نے مزید کہا مرحوم نواب کالا باغ سے میری بڑی دوستی تھی ایک دفعہ چائے پیتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا میں نے مونچھیں نیازیوں کے لئے رکھی ہوئی ہیں میں اعوان ہوں اور نیازیوں کو ڈرانے کے لئے مونچھیں رکھی ہوئی ہیں۔ مجھے پنجابی میں کہنے لگے ”اتے خدا تے تھلے ایوب خان اگر او کئے گا کہ نوائے وقت دے اشتہارات بند کر دے تے میں اک منٹ وی نیں لاواں گا‘ تو جناں نئیں ہوویں گا جے حمید نظامی دی پالیسی جاری نہ رکھیں‘ میں نے کہا میں جناں واں تے جناں ای رواں گا‘ میں تہاڈی ایس گل نوں دھمکی سمجھاں کہ مشورہ“۔ انہوں نے مزید کہا میں نے آج تک اپنے مرحوم بھائی کی نوائے وقت والی پالیسی کو قائم رکھاہوا ہے اور جناں بن کے ایوب سے لے کر مشرف تک ثابت قدم کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔انہوں نے مزید کہا نوائے وقت آج چار جگہوں سے شائع ہو رہا ہے۔ 1986ءسے ”دی نیشن“ کا آغاز کیا اس کے ساتھ فیملی، پھول اور ندائے ملت کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ”وقت نیوز“ کو میری بیٹی چلا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا مجھے ضیاءالحق نے شوریٰ میں رکنیت پیش کی تھی۔ اس وقت بندیال جو میرے ایک کلاس سینئر تھے۔ بعد میں ترقی کرتے ہوئے ڈی سی بن گئے۔ ان کا فون آیا سائیں انتظام کر لیں آپ کا نام شوریٰ میں ہے۔ تومیں نے کہا میں ضیاءالحق کو خط لکھ کر خود معذرت کر لوں گا۔ اگر انہوں نے پھر بھی ممبر بنایا تو میں پھر بھی معذرت کر لوں گا۔ انہوں نے مزید کہا جونیجو مجھے قائد محترم کہتے تھے میں انہیں کہتا تھا قائد ایک ہی ہے وہ قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔ آپ مجھے قائد نہ کہا کریں۔ انہوں نے مزید کہا جونیجو کے دور میں نورانی صاحب جوان کے وزیر تھے انہوں نے جونیجو کا پیغام مجھے ایک تقریب میں پہنچایا کہ مجھے گورنر بنانا چاہتے ہیں تو اس تقریب میں نوازشریف کیک کاٹ رہے تھے یہ بات سن کر چھری ان کے ہاتھ سے گر پڑی۔ تو میں نے کہا آپ کیک کاٹیں میں گورنر نہیں بنوں گا۔ انہوں نے مزید کہا بڑے میاں صاحب، نواز شریف اور شہباز شریف میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور مجھے کہا آپ صدر بن جائیں مگر میں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا قائداعظمؒ نے کہا تھا پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہونا چاہئے مگر کئی بدبختوں نے اس ملک کو سیکولر بنانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ملک اسلام کے نام پر بنا اور اسلام کے نام پر قائم رہے گا۔ اللہ تعالی اس ادارے کو بھی پاکستان کی خدمت کرنے کی توفیق دے ۔چیف جسٹس (ر)میاں محبوب احمد نے کہا اس وقت ملک بہت بڑے بحرانوں سے دوچار ہے کرپشن اور رشوت عام ہونے پر فخر کیا جاتا ہے۔ قوم بہت پریشان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برائیوں کے خلاف تحریک چلائی جائے لیکن اس تحریک کا اپنے دائرہ کار میں رہنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا حکومت کہتی ہے تصادم سے بچا جائے مگر حکومت خود تصادم کرتی ہے۔ اس وقت نوجوان نسل کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے مجید نظامی قوم کو بتائیں انہیں کیا کرنا ہے۔ اس وقت جرات مند قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ ہم وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے جس کے لئے ملک حاصل کیا۔ انہوں نے مزید کہا آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ مجید نظامی سے کیا گیا ہے۔ مگر میرا خیال ہے فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ سیاسی پارٹیاں خود آل پارٹیز کانفرنس منعقد کریں۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا میں نے نوائے وقت میں بھی کام کیا مجھے حمید نظامی مرحوم نے لیٹر بھی لکھے جو آج بھی میرے پاس موجود ہیں وہ خط میرے لئے بڑی سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ حمید نظامی مرحوم ایک تحریک کا نام تھا۔ ان کی تحریریں رپورٹنگ ایک نظریہ کی بنیاد پر تھیں جس نظریئے کی بنیاد انہوں نے رکھی اس کو لے کر مجید نظامی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج نوائے وقت اسلام اور نظریاتی سرحدوں کا ترجمان ہے۔ اور جو ملک کے ساتھ سازشیں ملک کے اندر بیٹھے لوگ یا باہر بیٹھے لوگ کر رہے ہیں ان تمام کو بے نقاب کر رہا ہے۔ جسٹس(ر) میاںآفتاب فرخ نے کہا حمید نظامی مرحوم ایک ادارے کا نام ہے۔ پاکستان ایک نظریئے کے بعد حاصل ہوا مگر افسوس یہ ملک لٹیروں کے ہاتھ آ گیا۔ میں نے دیکھا ہے مجید نظامی پاکستان کے خلاف کام کرنے والی قوتوں کے خلاف جہاد کا کام کرتے ہیں۔ امن کی آشا کو بابر اعوان نے امن کی نراشا کہا ہے۔ جسٹس (ر) نذیر اختر نے کہا حمید نظامی مرحوم کو جو عظیم مقصد قائداعظمؒ نے سونپا تھا کہ بیمار اور غریب قوم کا مورال بلند رکھنا ہے اس کو لے کر مجید نظامی چل رہے ہیں۔ جب میں لاءکالج میں پڑھاتا تھا تو وہاں پر طالب علم کہتے تھے بھارت کے ساتھ سرحد کی لکیر ختم ہونی چاہئے دونوں ملکوںکے مسائل تب ہی حل ہوں گے مگر میں سمجھتا ہوں اکھنڈ بھارت بنانے کا منصوبہ ایک خاص جماعت احمدیہ کا ہے۔ ان کی تحریری پالیسیوں سے بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہ بھارت کی زبان بولتے ہیں اس پر عمل پیرا بھی ہیں‘ مشرف دور میںاحمدیوں کو بڑی تقویت ملی۔ نوائے وقت نے ہمیشہ احمدیوں کی تمام حرکات پر نظر رکھی ہے۔ہمیں اپنی نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دشمن کون ہے۔ بیگم مہناز رفیع نے کہا حمید نظامی نوجوانوں کے لیڈر تھے۔ آج 60 فیصد لوگ نوجوان ہیں ان کے مسائل بھی ہیں۔ ہمیںتمام نوجوانوں کو اکٹھے لے کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر پروین خان نے کہا حمید نظامی کی صحافت کو آج کے دور میں بتانے کی ضرورت ہے تاکہ آج کے صحافیوں کے لئے جو زرد صحافت کرتے ہیں انکو پتہ چلے کہ صحافت کا شعبہ ایک روشنی دکھانے والا شعبہ ہے ۔ حمید نظامی مرحوم کی زندگی پر کتابیں لکھنے کی ضرور ت ہے تاکہ گھر گھر ان کو پڑھا جائے۔ اس حوالے سے ریسرچ ورک پر کام کیا جائے ۔ ولید اقبال نے کہا میں حال ہی میں اس ٹیم کا ممبر بنا ہوں جس کے کپتان مجید نظامی ہیں، انکے زیر سایہ کام کر رہا ہوں۔ میں مجید نظامی کی شاگردی میں آیا ہوں اس کا مطلب ہے میںحمید نظامی مرحوم سے براہ راست تربیت حاصل کر رہا ہوں۔انہوں نے بتایا ایک بار قائدؒ، علامہ اقبالؒ کو ملنے گئے تو فرزند اقبال سے پوچھا بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں تو جاوید اقبال خاموش رہے جس پر قائدؒ نے کہا یہ خاموش کیوں ہے، علامہ اقبالؒ نے کہا وہ آپ کے اشارے کے منتظر ہیں میں بھی اب مجید نظامی کے اشارے کا منتظر ہوں۔ ملک حامد سرفرازنے کہا مجھے حمید نظامی کی قربت حاصل رہی ہے۔ حمید نظامی کی وسعت نظر صرف نوائے وقت تک محدود نہ تھی بلکہ ان کی نظر نظریاتی سرحدوں تک تھی ۔ جب مسلم لیگیوں کو اکٹھے کرنے کی بات کی جاتی تھی اور لیاقت علی خان نے وزیراعظم ہوتے ہوئے صدارت اپنے پاس رکھ لی۔ خاص طور پر سہروردی کے لئے حمید نظامی نے لکھا ”تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے“۔ اس وقت ملک کے لوگ صرف انصاف کے لئے ترس رہے ہیں ملکی وسائل کو جیبوں میں ڈال لیا گیا ہے ان کا واپس آنا ضروری ہے۔ بریگیڈیئر(ر) ظفر اقبال چودھری نے کہا تحریک پاکستان میں نوائے وقت کی خدمات کا بڑا کردار ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران نوائے وقت کے اداریوں سے ہمیں وہ دلائل ملتے تھے جس پر ہم ہندوﺅں کو قائل کرتے تھے۔ حمید نظامی کے جانے کے بعد مجید نظامی نے مورچہ سنبھالاہے ۔ حمید نظامی کے پودے کی آبیاری مجید نظامی کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت نظریہ پاکستان کے فروغ کی ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ، صوبائی عصبیت کا مسئلہ، کالا باغ ڈیم، بھارت سے پانی کا تنازعات کا مسئلہ ہو تو اس پرصرف مجید نظامی بولتے ہیں۔ کرنل (ر) اکرام اللہ نے کہا نوائے وقت کا ہر دور میںاہم کردار رہا ہے۔ حمید نظامی کے مشن کو آگے بڑھانا اصل میں قائدؒ اور اقبالؒ کے کا مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ امریکن باشندہ ریمنڈ ڈیوس کااصل نام کوئی نہیں لیتا۔ اتنے اہم شخص کے بارے میںخود امریکی صدر بھی آگے آگیا ہے۔ اگر ریمنڈ کا اصلی چہرہ سامنے آگیا تو امریکہ کے کئی ریمنڈ ڈیوس سامنے آئیں گے۔ مڈل ایسٹ جس سونامی سے گزر رہا ہے اس کی آگ کی تپش سے پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ خورشید احمد وائیں نے کہا حمید نظامی کا پاکستان کے نظریہ کو مضبوط کرنے میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ حصول پاکستان کے بعد پاکستان کی تعبیر میں نوائے وقت کا بڑا کردار ہے۔ کافی عرصے سے نوائے وقت ملک کے نظریئے کے لئے کام کر رہا ہے ۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس کی بڑی مثال ہے جس کے سربراہ مجید نظامی ہیں۔ ڈاکٹر ایم اے صوفی نے کہا حمید نظامی ڈے پر ان کا لکھا ہوا لٹریچر سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ آج کمیونی کیشن کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو دو قومی نظریئے کے بارے میں بتایا جائے، کمیونی کیشن سنٹر میں سالانہ حمید نظامی لیکچر کا اہتمام کیا جائے افسوس آج کے ادارے سوئے ہوئے ہیں ان اداروں کو جگانے کی ضرورت ہے۔ دو قومی نظریئے کے حوالے سے ہر ڈگری کالج کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں سالانہ لیکچر کا اہتمام کیا جائے۔ سکولوں میں بچوں کو بتایا جائے دو قومی نظریہ کیا ہے۔ تحریری طور پر بتایا جائے کون لوگ تھے اور انہوں نے کن حالات میں ملک کو بنایا ۔ موجودہ حالات کو فیس کرنے کے لئے نئی نسل کو بتایا جائے۔ رفیق عالم نے کہا میرا خیال ہے حمید نظامی کے حوالے سے پورا سال تقریبات منعقد کی جائیں وہ سفر جو انہوں نے شروع کیا، کن حالات کا انہوں نے سامنا کیا پھر اس کے بعد مجید نظامی نے جو سفر شروع کیا اس کوکیسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حمید نظامی مرحوم کے تمام اداریوں اور مجید نظامی کی تقاریر کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے۔ نصیب اللہ گردیزی نے کہا مجید نظامی نے اپنے مشن کو جس طریقے سے جاری رکھا ہوا ہے وہ تعریف کے لائق ہے۔ اندھیروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روشنیاں کم ہو رہی ہیں۔ نوائے وقت نے تحریک آزادی کشمیر، تحریک پاکستان میں اپنا فرض احسن طریقے سے انجام دیا باقی لوگوں کی طرف سے وہ حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے آج ملک کو مسائل کا سامنا ہے۔ وہ اے این پی جس کی صوبہ خیبر پی کے میں حکومت ہے وہ پاکستان بننے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ دکھ کی بات ہے مسلم لیگیوں نے بھی خیبر پی کے کا نام رکھتے وقت اپنا ووٹ دیا۔ اب ملک میں مصلحتوںاور مجبوریوں کی گنجائش باقی نہیں۔ بھارت سے نئے معاہدے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب بھارت پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا اور ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کرکے انتشار پھیلا رہا ہے۔ ہم اس کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں۔ پروفیسر مظفر مرزانے کہا ایک کمیٹی قائم کی جائے جو یہ طے کرے کہ حمید نظامی مرحوم کے مشن کو مجید نظامی نے جواپنے خون سے پالا ہے۔ آئندہ ہم نے اس مشن کو کیسے کامیاب کرنا ہے۔ حضرت قائداعظمؒنے اپنے عملے کو حکم صادر فرمایا ہواتھا حمید نظامی آئیں تومیں سو بھی رہا ہوں تو مجھے جگا دینا اور ملاقات کرائی جائے۔ تحریک پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت مجید نظامی کے ہاتھوں میں تھما دی جو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
لاہور (نیوز رپورٹر) حمید نظامی میموریل سوسائٹی کے اجلاس میں مختلف قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ قرادادوں میں کہا گیا پاکستان کی حفاظت، سا لمیت اور یکجہتی کے فروغ کےلئے قوم تمام صحافتی حلقوں اور اداروں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اسی قومی حمیت اور حب الوطنی کے جذبات کو سامنے رکھ کر قوم کی رہنمائی کریں جو قائداعظمؒ کے انتہائی پسندیدہ صحافی حمید نظامی کا طرہ امتیاز تھا۔ آج کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا طاقتور ہو چکا ہے۔ اگر یہ قومی مفادات کے لئے کمربستہ ہو جائے تو دشمنان پاکستان کی تمام ریشہ دوانیاں شکست کھا جائیں گی ۔ ریمنڈ ڈیوس کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ میڈیا کی طاقت ہے جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کا سامنا کرنے کے لئے قوم کو کھڑا کر دیا ہے۔ یہ غیرت و حمیت حمید نظامی کی یاد دلاتی ہے۔ حمیدنظامی میموریل سوسائٹی مجید نظامی کو ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے برادر بزرگ حمید نظامی مرحوم کی پیروی کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی حفاظت اور فروغ کے لئے قومی حمیت کا جھنڈا بلند رکھا۔حمید نظامی میموریل سوسائٹی کا اجلاس پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال اور تخریبی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پوری قوم کو اس صورتحال سے نمنٹے کے لئے اپنے ساتھ شامل کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے بند کمروں کی سیاست اور بالائی سطح پر فیصلے کرنے کی بجائے عام آدمی کے مسائل حل کرنے اور اسے فوری عدل فراہم کرنے پر توجہ دی جائے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا حکمران سادگی کو اپنا شعار بنائیں، خود انحصاری اور خودکفالت کو اپنا نشان منزل قرار دیا جائے۔ اپنے ا فرادی اور مادی وسائل کو دیانت داری سے بروئے کار لایا جائے۔ قدرت نے ہمیں ہر قسم کے وسائل اور قوت سے نوازا ہے۔ ضرورت دیانت اور امانت کے جذبے کے ساتھ انہیں استعمال کرنے کی ہے۔ اجلاس میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے محض ایجنڈے طے کرنے اور نشستند، گفتند، برخاستند“ کے عمل سے الگ ہو کر، واضح الفاظ میں اس ہمسائے کو خبردار کرے کہ وہ سب سے پہلے کشمیر اور آبی تقسیم کے معاہدوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کرے جب تک یہ دونوں مسائل طے نہیں ہوں۔ اس کے ساتھ تجارت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اجلاس ”امن کی آشا“ کے نام پر ”نراشا“ اور فحاشی کی آمد پر تشویش کا اظہار اور ایسی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے قوم سے اپیل کرتا ہے بھارتی چینلز عریانی سے بھری بھارتی فلموں کی پاکستانی سینماﺅں میں اور کیبل پر نمائش کے خلاف ملک گیر احتجاج کرے۔ اجلاس بھارتی فلموں کی پاکستان درآمد، دشمن کو خود اپنے خلاف حملے کی دعوت سمجھتا ہے اور ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے تمام سیاسی، سماجی قوتیں، باہمی اتحاد کے ذریعے کراچی کو ”روشنیوں کا شہر“ بنائیں تاکہ وہاں امن و امان قائم ہو اور وہاں موجودہ صنعتیں ملکی معیشت کی بحالی اور استحکام میں اپنا کردار پہلے کی طرح ادا کر سکیں۔ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کئی برسوں سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لئے فوری اور مﺅثر ترین اقدامات کرے۔ اجلاس پھر مطالبہ کرتا ہے حکومت پاکستان، وطن کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے لئے اقدامات کرے۔ اجلاس یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت دن دیہاڑے، بلاوجہ تین پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ریمنڈ ڈیوس کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اس کے ساتھیوں کو جلد گرفتار کرکے کٹہرہ عدالت میں لانے کے لئے اقدامات کرے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والوں کی آباد کاری کا عمل جلد مکمل کیا جائے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے تمام سیاست دان اور دوسرے لوگ جن کے غیر ملکوں میں اکاﺅنٹ ہیں، اپنا سرمایہ وطن واپس لائیں جو لوگ ایسا نہیں کرتے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے سخت اور مﺅثر ترین قانون بنایا جائے۔ اجلاس توقع کرتا ہے عدالت عظمی از خود نوٹس اختیارات کے ذریعے اس معاملے پر خصوصی توجہ دے گی۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے پورے ملک میں یکساں قومی نصاب رائج کیا جائے۔ صوبوں کو نصاب تعلیم مرتب کرنے کے اختیارات دینے سے علاقائی تعصبات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے قومی سوچ اور جذبہ تحریک کو فروغ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگوں اور زبانوں کو قومی رنگ دیا جائے جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہو گا اور قومی ثقافت ان پھولوں کا خوبصورت گلدستہ بن جائے گی۔
لاہور (نیوز رپورٹر) حمید نظامی میموریل سوسائٹی کے اجلاس میں مختلف قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔ قرادادوں میں کہا گیا پاکستان کی حفاظت، سا لمیت اور یکجہتی کے فروغ کےلئے قوم تمام صحافتی حلقوں اور اداروں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اسی قومی حمیت اور حب الوطنی کے جذبات کو سامنے رکھ کر قوم کی رہنمائی کریں جو قائداعظمؒ کے انتہائی پسندیدہ صحافی حمید نظامی کا طرہ امتیاز تھا۔ آج کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا طاقتور ہو چکا ہے۔ اگر یہ قومی مفادات کے لئے کمربستہ ہو جائے تو دشمنان پاکستان کی تمام ریشہ دوانیاں شکست کھا جائیں گی ۔ ریمنڈ ڈیوس کی مثال سب کے سامنے ہے۔ یہ میڈیا کی طاقت ہے جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کا سامنا کرنے کے لئے قوم کو کھڑا کر دیا ہے۔ یہ غیرت و حمیت حمید نظامی کی یاد دلاتی ہے۔ حمیدنظامی میموریل سوسائٹی مجید نظامی کو ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے برادر بزرگ حمید نظامی مرحوم کی پیروی کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی حفاظت اور فروغ کے لئے قومی حمیت کا جھنڈا بلند رکھا۔حمید نظامی میموریل سوسائٹی کا اجلاس پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال اور تخریبی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پوری قوم کو اس صورتحال سے نمنٹے کے لئے اپنے ساتھ شامل کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے بند کمروں کی سیاست اور بالائی سطح پر فیصلے کرنے کی بجائے عام آدمی کے مسائل حل کرنے اور اسے فوری عدل فراہم کرنے پر توجہ دی جائے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا حکمران سادگی کو اپنا شعار بنائیں، خود انحصاری اور خودکفالت کو اپنا نشان منزل قرار دیا جائے۔ اپنے ا فرادی اور مادی وسائل کو دیانت داری سے بروئے کار لایا جائے۔ قدرت نے ہمیں ہر قسم کے وسائل اور قوت سے نوازا ہے۔ ضرورت دیانت اور امانت کے جذبے کے ساتھ انہیں استعمال کرنے کی ہے۔ اجلاس میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی سرگرمیوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مذاکرات کے محض ایجنڈے طے کرنے اور نشستند، گفتند، برخاستند“ کے عمل سے الگ ہو کر، واضح الفاظ میں اس ہمسائے کو خبردار کرے کہ وہ سب سے پہلے کشمیر اور آبی تقسیم کے معاہدوں پر ان کی روح کے مطابق عمل کرے جب تک یہ دونوں مسائل طے نہیں ہوں۔ اس کے ساتھ تجارت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اجلاس ”امن کی آشا“ کے نام پر ”نراشا“ اور فحاشی کی آمد پر تشویش کا اظہار اور ایسی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے قوم سے اپیل کرتا ہے بھارتی چینلز عریانی سے بھری بھارتی فلموں کی پاکستانی سینماﺅں میں اور کیبل پر نمائش کے خلاف ملک گیر احتجاج کرے۔ اجلاس بھارتی فلموں کی پاکستان درآمد، دشمن کو خود اپنے خلاف حملے کی دعوت سمجھتا ہے اور ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے تمام سیاسی، سماجی قوتیں، باہمی اتحاد کے ذریعے کراچی کو ”روشنیوں کا شہر“ بنائیں تاکہ وہاں امن و امان قائم ہو اور وہاں موجودہ صنعتیں ملکی معیشت کی بحالی اور استحکام میں اپنا کردار پہلے کی طرح ادا کر سکیں۔ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کئی برسوں سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لئے فوری اور مﺅثر ترین اقدامات کرے۔ اجلاس پھر مطالبہ کرتا ہے حکومت پاکستان، وطن کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے لئے اقدامات کرے۔ اجلاس یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت دن دیہاڑے، بلاوجہ تین پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ریمنڈ ڈیوس کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اس کے ساتھیوں کو جلد گرفتار کرکے کٹہرہ عدالت میں لانے کے لئے اقدامات کرے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والوں کی آباد کاری کا عمل جلد مکمل کیا جائے۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے تمام سیاست دان اور دوسرے لوگ جن کے غیر ملکوں میں اکاﺅنٹ ہیں، اپنا سرمایہ وطن واپس لائیں جو لوگ ایسا نہیں کرتے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے سخت اور مﺅثر ترین قانون بنایا جائے۔ اجلاس توقع کرتا ہے عدالت عظمی از خود نوٹس اختیارات کے ذریعے اس معاملے پر خصوصی توجہ دے گی۔ اجلاس مطالبہ کرتا ہے پورے ملک میں یکساں قومی نصاب رائج کیا جائے۔ صوبوں کو نصاب تعلیم مرتب کرنے کے اختیارات دینے سے علاقائی تعصبات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے قومی سوچ اور جذبہ تحریک کو فروغ دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگوں اور زبانوں کو قومی رنگ دیا جائے جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہو گا اور قومی ثقافت ان پھولوں کا خوبصورت گلدستہ بن جائے گی۔