اسرار بخاری ۔۔۔
چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد جو فیصلہ ہوا آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ملاقات نہ ہوتی تب بھی یہی فیصلہ ہونا تھا البتہ جب اس کی اساس عدالتی احکامات ہوتے اب اس کی بنیاد ”افہام و تفہیم“ کہلائے گی۔ بہرحال نتائج کو دیکھا جائے تو عدلیہ کی ناک اونچی رہی ہے تاہم حکومت کی نیچی ناک پر بھی ”افہام و تفہیم“ کی پٹی بندھ گئی ہے۔ اس ملاقات اور نتائج کے حوالے سے انگریزی اخبارات نے مختلف سرخیاں جمائی ہیں مثلاً ”Conceded“ ۔ ”Govt Conceded“ ۔ \\\"Exective sabmits to Judiciary\\\" اور \\\"Govt gives into SC\\\" بلاشبہ یہ واضح مفہوم رکھتی ہیں لیکن اس حوالے سے دی نیشن نے جو سرخی لگائی ہے اس میں بے ساختہ پن اور سادگی تو ہے یہ معنویت کے اعتبار سے بھی بہت منفرد ہے یعنی YES MY LORD کی ممکنہ بنتی تصویر نظر آ رہی تھی۔ حکومت کے دو
سال کا جائزہ لیا جائے تو اس مدت میں دو حقیقتیں ہی نظر آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جناب آصف زرداری کے مشیروں نے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کی بجائے انہیں ”چالاکیوں“ کی حکمت عملی اختیار کرنے کی راہ دکھائی اور ان کی افتادِ طبع اس پر بے اختیار مائل ہوئی۔ یہ اور بات کوئی ایک ”چالاکی“ بھی مطلوبہ نتائج نہ دے سکی دوسری حقیقت یہ ہے کہ ان ”چالاکیوں“ کے باعث حکومت پیپلز پارٹی کے وزراءاور مختلف سطح کے لیڈروں کو پارٹی کی سیاسی پیش رفت کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اپنی تمام توانائیاں ”زرداری بچاو مہم“ میں صرف کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے ان میں بعض کھلے بندوں اور بعض اندرون خانہ کوفت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایوانِ صدر میں 13 فروری کو جو چالاکی کی بساط بچھائی گئی اس حوالے سے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی اس کی دو سطروں نے بہت کچھ طشت ازبام کر دیا تھا اول یہ کہ اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کا مشورہ دیا‘ دوئم یہ کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس روز جاری ہونے والے نوٹیفکیشنوں کی حمایت میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے مگر بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کے اصرار اور صدر زرداری کی منشا کے تحت انہیں ان نوٹیفکیشنوں کی ذمہ داری قبول کرنی پڑی تاہم وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ سارا ملبہ ان پر گرنے والا ہے چنانچہ انہوں نے اس ملبہ کے گرد و غبار کا رُخ اس جانب موڑ دیا جہاں سے یہ ملبہ گرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ان کا بیان ”غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں کوئی غلطی ایسی نہیں جس کا ازالہ نہ ہو سکے“ یہ کھلا پیغام تھا کہ وہ اسے غلطی تسلیم کرتے ہیں اور ازالہ پر آمادہ ہیں جس سے بہت سے حلقوں میں ان کا تاثر بہتر ہو گیا۔ وزیراعظم نے دوسرا بڑا کام چیف جسٹس کو کسی بھی طریقے سے اپنے گھر آنے پر آمادہ کر کے افہام و تفہیم کا تاثر قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنی حکومت کی عزت بچا لی۔ اگرچہ اس ساری صورتحال میں عدالت عظمیٰ ہر لحاظ سے فتح یاب رہی ہے مگر صدر زرداری کے سوئس‘ سپین‘ برطانیہ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز‘ این آر او زادہ وزراءاور افسران‘ حکومتی کرپشن اور گمشدہ افراد کی بازیابی ایسے معاملات ہیں جو اب عوامی عدالت کے کٹہرے میں پہنچ گئے ہیں عدالت عظمیٰ کے ضرور پیش نظر ہو گا کہ حکومت کے مقابلے میں فتح یابی سے کہیں زیادہ عوامی عدالت میں سرخروئی اہم ہے۔ خدا عدالتِ عظمیٰ کو یہ سرخروئی عطا فرمائے۔
چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد جو فیصلہ ہوا آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ملاقات نہ ہوتی تب بھی یہی فیصلہ ہونا تھا البتہ جب اس کی اساس عدالتی احکامات ہوتے اب اس کی بنیاد ”افہام و تفہیم“ کہلائے گی۔ بہرحال نتائج کو دیکھا جائے تو عدلیہ کی ناک اونچی رہی ہے تاہم حکومت کی نیچی ناک پر بھی ”افہام و تفہیم“ کی پٹی بندھ گئی ہے۔ اس ملاقات اور نتائج کے حوالے سے انگریزی اخبارات نے مختلف سرخیاں جمائی ہیں مثلاً ”Conceded“ ۔ ”Govt Conceded“ ۔ \\\"Exective sabmits to Judiciary\\\" اور \\\"Govt gives into SC\\\" بلاشبہ یہ واضح مفہوم رکھتی ہیں لیکن اس حوالے سے دی نیشن نے جو سرخی لگائی ہے اس میں بے ساختہ پن اور سادگی تو ہے یہ معنویت کے اعتبار سے بھی بہت منفرد ہے یعنی YES MY LORD کی ممکنہ بنتی تصویر نظر آ رہی تھی۔ حکومت کے دو
سال کا جائزہ لیا جائے تو اس مدت میں دو حقیقتیں ہی نظر آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جناب آصف زرداری کے مشیروں نے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کی بجائے انہیں ”چالاکیوں“ کی حکمت عملی اختیار کرنے کی راہ دکھائی اور ان کی افتادِ طبع اس پر بے اختیار مائل ہوئی۔ یہ اور بات کوئی ایک ”چالاکی“ بھی مطلوبہ نتائج نہ دے سکی دوسری حقیقت یہ ہے کہ ان ”چالاکیوں“ کے باعث حکومت پیپلز پارٹی کے وزراءاور مختلف سطح کے لیڈروں کو پارٹی کی سیاسی پیش رفت کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اپنی تمام توانائیاں ”زرداری بچاو مہم“ میں صرف کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے ان میں بعض کھلے بندوں اور بعض اندرون خانہ کوفت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایوانِ صدر میں 13 فروری کو جو چالاکی کی بساط بچھائی گئی اس حوالے سے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی اس کی دو سطروں نے بہت کچھ طشت ازبام کر دیا تھا اول یہ کہ اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کا مشورہ دیا‘ دوئم یہ کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس روز جاری ہونے والے نوٹیفکیشنوں کی حمایت میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے مگر بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کے اصرار اور صدر زرداری کی منشا کے تحت انہیں ان نوٹیفکیشنوں کی ذمہ داری قبول کرنی پڑی تاہم وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ سارا ملبہ ان پر گرنے والا ہے چنانچہ انہوں نے اس ملبہ کے گرد و غبار کا رُخ اس جانب موڑ دیا جہاں سے یہ ملبہ گرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ان کا بیان ”غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں کوئی غلطی ایسی نہیں جس کا ازالہ نہ ہو سکے“ یہ کھلا پیغام تھا کہ وہ اسے غلطی تسلیم کرتے ہیں اور ازالہ پر آمادہ ہیں جس سے بہت سے حلقوں میں ان کا تاثر بہتر ہو گیا۔ وزیراعظم نے دوسرا بڑا کام چیف جسٹس کو کسی بھی طریقے سے اپنے گھر آنے پر آمادہ کر کے افہام و تفہیم کا تاثر قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنی حکومت کی عزت بچا لی۔ اگرچہ اس ساری صورتحال میں عدالت عظمیٰ ہر لحاظ سے فتح یاب رہی ہے مگر صدر زرداری کے سوئس‘ سپین‘ برطانیہ میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز‘ این آر او زادہ وزراءاور افسران‘ حکومتی کرپشن اور گمشدہ افراد کی بازیابی ایسے معاملات ہیں جو اب عوامی عدالت کے کٹہرے میں پہنچ گئے ہیں عدالت عظمیٰ کے ضرور پیش نظر ہو گا کہ حکومت کے مقابلے میں فتح یابی سے کہیں زیادہ عوامی عدالت میں سرخروئی اہم ہے۔ خدا عدالتِ عظمیٰ کو یہ سرخروئی عطا فرمائے۔