1997ءمیں ایک ہی حکم کے ذریعے بیک وقت یو بی ایل سے 5416 ملازمین کو نکال دیا گیا۔ نہ کسی کو نوٹس دیا گیا نہ آپشن دیا گیا۔ یہ گولڈن شیک ہینڈ نہ تھا۔ یہ تو آئرن شیک ہینڈ تھا اپنے ہی بے قصور مگر مخلص لوگوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نبٹا گیا۔ اس طرح حکمران اپنے مخالفین سے نبٹتے ہیں پچھلی حکومت کے دور میں جسے ملازمت ملی یا کوئی پروموشن ملی اس کے خلاف ناجائز انتقامی کارروائی ہوئی ہے۔ سابق حکمرانوں کا تو کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا۔ جس پر بس چلتا ہے اس پر ظلم کر دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اب بھی آمنے سامنے ہیں اور ’شانہ بشانہ‘ بھی ہیں۔ اپوزیشن بھی۔ فرینڈلی اپوزیشن بھی روبرو بھی اور دوبدو بھی۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں 1994ءمیں یو بی ایل کے جن ملازمین کو پروموشن دی گئی انہیں نکالنے کے لئے خاص طور پر کوئی فارمولا بنایا گیا اور نوازشریف کے دور میں 1997ءمیں انہیں بغیر کسی جرم کے برطرف کر دیا گیا۔ بہت پہلے بھی مجھ سے لوگ رابطے کرتے رہے۔ میں تو مظلوم کے ساتھ ہوں اور ظالم کے خلاف ۔ مگر ہمارے ہاں کل کے ظالم آج کے مظلوم اورکل کے مظلوم آج کے ظالم بن جاتے ہیں اور یہ بات صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے۔ یہ لوگ اقتدار میں یا اقتدار کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ یو بی ایل کے برطرف شدہ ذوالقرنین‘ صاحب ذوق بھی ہیں۔ ان کے اور ان کی اہلیہ بھابھی نعیمہ کے گھر میں معروف شاعر مرحوم احمد فراز مہمان ہوا کرتے تھے۔ وہ دونوں محبوب شاعر منیر نیازی کے بھی میزبان بنتے تھے جبکہ یہ دونوں شاعر ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ ذوالقرنین نے 22 برس تک یو بی ایل میں خدمات سر انجام دیں۔ 25 برس کی سروس کے لوگ بھی بے یارومددگار کر دئیے گئے۔ اشفاق احمد 20 برس سے اس بینک میں تھے۔ اس صدمے میں ان کی اہلیہ اللہ کی عدالت میں چل گئی ۔ جب دنیا میں عدالتیں انصاف نہ دیں تو پھر وہی عدالت رہ جاتی ہے۔بینک سے نکالے گئے کئی لوگ اگلے جہان چلے گئے۔ کئی لوگ ساٹھ برس کے ہو کے اس طرح ریٹائر ہوئے کہ ان کی محرومیاں دیکھی نہیں جاتیں۔ ملازمت میں واپسی کی امید تھی تو اسے ریٹائرمنٹ ہی کہا جائے گا۔ کئی لوگ اس سے پہلے بے موت مر گئے۔ کئی لوگوں نے رابطے کئے۔ سرگودھا سے ایک دوست مسلسل خط لکھتے تھے۔ ای میل کی اس دنیا میں خطوط، روایت سے جڑے ہوئے اور شکایت سے بھرے ہوئے آدمی کا کمال ہیں۔ وارث صاحب نے مجھے اتنے خط لکھے کہ میرے پاس ڈھیر لگ گیا۔ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں دکھ بھری کہانیوں کے ڈھیر ہیں اور اب وہ اس ڈھیر میں دھنس چکے ہیں۔ انہیں ظلموں کے اس ملبے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اب 5416 میں سے 2000 سے بھی کم لوگ باقی بچ گئے ہیں انہیں بچانے کے لئے صدر زرداری مخدوم گیلانی اور خورشید شاہ کی طرف نظریں لگی ہوئی ہیں۔ جبری برطرفی کے لئے جسٹس سعید الزمان صدیقی نے مظلوموں کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ان کا گمان ہے کہ شاید اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ یہ ظلم نوازشریف کے دور میں ہوا تھا اور یہ اقدام اس لئے ہوا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ان لوگوں کو پروموشن ملی تھی۔ورنہ بغیر قصور کے اور نوٹس کے برطرفی کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کو واجبات ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے 21 ارب روپے لئے گئے تھے جس میں سے صرف 7 ارب متاثرین کو دئیے گئے۔ باقی پیسے پڑے ہیں اور اب دگنے سے بھی زیادہ ہو چکے ہونگے۔
قائداعظم کے مزار سے نکلنے والی احتجاجی ریلی میں بے نظیر بھٹو شریک تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آئی تو یو بی ایل کے متاثرہ لوگوں کو بحال کراوں گی۔ پھر وہ جلاوطن ہوگئیں اور پھر ہم وطنی کی محبت میں قربان ہو گئیں۔ مگر آج بھی یو بی ایل کے احتجاجی جلوسوں میں سب سے نمایاں پی پی کا یہ وعدہ ہوتا ہے۔ شہید بی بی نے کہا تھا کہ آپ لوگ اپنے آپ کو چھٹی پر نہ سمجھیں تمہیں پچھلے واجبات بھی ملیں گے اور تم بحال بھی ہو گے۔یو بی ایل کے لوگ بنک کے ساتھ اپنی وابستگی کو دل میں لئے اب بھی اپنے آپ کو ملازم سمجھتے ہیں۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
یہ لوگ اب شہید بی بی کا واسطہ دے کر صدر زرداری کی خدمت میں اپیل کرتے ہیں کہ یہ وعدہ اب آپ نے پورا کرنا ہے۔ صدر زرداری نے اس بات کو دل سے محسوس کیا ہے۔ انہوں نے کمیٹی بنائی ہے جس کے چیئرمین رضا ربانی تھے۔ تب نیشنل بنک اور دوسرے کئی محکموں کے لوگ بحال ہوئے ہیں۔ صدارتی آرڈیننس کے مطابق تمام محکموں کے برطرف ملازمین کو بحال کیا جائے۔ یو بی ایل اربوں روپے کما رہا ہے۔ نئے ملازمین بھی بینک میں بھرتی ہوئے ہیں مگر بنک انتظامیہ نے برطرف ملازمین کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ رضا ربانی کے بعد سید خورشید شاہ چیئرمین بنے ہیں۔ ان کا یہ بیان اخبارات میں آ چکا ہے کہ یو بی ایل کے برطرف ملازمین کی بحالی کا وعدہ جلد پورا کریں گے ۔ جب پانچ ہزار ملازمین کو برطرف کیا گیا تو سپیکر اسمبلی الٰہی بخش سومرو کے بیٹے زبیر سومرو بنک کے صدر تھے اور ان کی تنخواہ صرف چودہ لاکھ روپے تھی علاوہ ازیں امریکہ میں زیر تعلیم ان کے بیٹے کو بنک کی طرف سے10 ہزار ڈالر ماہانہ ملتے تھے اور تین لاکھ تنخواہ پر کئی کنسلٹنٹ رکھے گئے۔ یہ رقوم پانچ ہزار ملازمین کی تنخواہ سے زیادہ ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ جب ایک ٹاسک فورس کا چیئرمین مولانا طفیل صدیقی پولیس لے کر میرے گھر آ گیا تو پیپلزپارٹی کے عزیز الرحمان چن کی قیادت میں کئی دوست میرے پاس آئے ان میں مسعود احمد بھی تھے جسے یو بی ایل سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ سب دوست پیپلز پارٹی کی حکومت کی توجہ اور مہربانی کے منتظر ہیں اور مستحق بھی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان لوگوں کو 12اکتوبر کو برطرف کیا گیا اور نوازشریف کی حکومت بھی 12 اکتوبر کو توڑی گئی۔ وزیراعظم مخدوم گیلانی نے پانچ سال جیل کاٹی کہ انہوں نے لوگوں کو ملازمت کیوںدلائی تھی۔ مگران کی سزا کیا ہے جنہوں نے لوگوں کو ملازمت سے نکلوا دیا....؟
بے نظیر بھٹو کے دور میں 1994ءمیں یو بی ایل کے جن ملازمین کو پروموشن دی گئی انہیں نکالنے کے لئے خاص طور پر کوئی فارمولا بنایا گیا اور نوازشریف کے دور میں 1997ءمیں انہیں بغیر کسی جرم کے برطرف کر دیا گیا۔ بہت پہلے بھی مجھ سے لوگ رابطے کرتے رہے۔ میں تو مظلوم کے ساتھ ہوں اور ظالم کے خلاف ۔ مگر ہمارے ہاں کل کے ظالم آج کے مظلوم اورکل کے مظلوم آج کے ظالم بن جاتے ہیں اور یہ بات صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لئے۔ یہ لوگ اقتدار میں یا اقتدار کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ یو بی ایل کے برطرف شدہ ذوالقرنین‘ صاحب ذوق بھی ہیں۔ ان کے اور ان کی اہلیہ بھابھی نعیمہ کے گھر میں معروف شاعر مرحوم احمد فراز مہمان ہوا کرتے تھے۔ وہ دونوں محبوب شاعر منیر نیازی کے بھی میزبان بنتے تھے جبکہ یہ دونوں شاعر ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ ذوالقرنین نے 22 برس تک یو بی ایل میں خدمات سر انجام دیں۔ 25 برس کی سروس کے لوگ بھی بے یارومددگار کر دئیے گئے۔ اشفاق احمد 20 برس سے اس بینک میں تھے۔ اس صدمے میں ان کی اہلیہ اللہ کی عدالت میں چل گئی ۔ جب دنیا میں عدالتیں انصاف نہ دیں تو پھر وہی عدالت رہ جاتی ہے۔بینک سے نکالے گئے کئی لوگ اگلے جہان چلے گئے۔ کئی لوگ ساٹھ برس کے ہو کے اس طرح ریٹائر ہوئے کہ ان کی محرومیاں دیکھی نہیں جاتیں۔ ملازمت میں واپسی کی امید تھی تو اسے ریٹائرمنٹ ہی کہا جائے گا۔ کئی لوگ اس سے پہلے بے موت مر گئے۔ کئی لوگوں نے رابطے کئے۔ سرگودھا سے ایک دوست مسلسل خط لکھتے تھے۔ ای میل کی اس دنیا میں خطوط، روایت سے جڑے ہوئے اور شکایت سے بھرے ہوئے آدمی کا کمال ہیں۔ وارث صاحب نے مجھے اتنے خط لکھے کہ میرے پاس ڈھیر لگ گیا۔ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں دکھ بھری کہانیوں کے ڈھیر ہیں اور اب وہ اس ڈھیر میں دھنس چکے ہیں۔ انہیں ظلموں کے اس ملبے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اب 5416 میں سے 2000 سے بھی کم لوگ باقی بچ گئے ہیں انہیں بچانے کے لئے صدر زرداری مخدوم گیلانی اور خورشید شاہ کی طرف نظریں لگی ہوئی ہیں۔ جبری برطرفی کے لئے جسٹس سعید الزمان صدیقی نے مظلوموں کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ان کا گمان ہے کہ شاید اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ یہ ظلم نوازشریف کے دور میں ہوا تھا اور یہ اقدام اس لئے ہوا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ان لوگوں کو پروموشن ملی تھی۔ورنہ بغیر قصور کے اور نوٹس کے برطرفی کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں کو واجبات ادا کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے 21 ارب روپے لئے گئے تھے جس میں سے صرف 7 ارب متاثرین کو دئیے گئے۔ باقی پیسے پڑے ہیں اور اب دگنے سے بھی زیادہ ہو چکے ہونگے۔
قائداعظم کے مزار سے نکلنے والی احتجاجی ریلی میں بے نظیر بھٹو شریک تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ میں اقتدار میں آئی تو یو بی ایل کے متاثرہ لوگوں کو بحال کراوں گی۔ پھر وہ جلاوطن ہوگئیں اور پھر ہم وطنی کی محبت میں قربان ہو گئیں۔ مگر آج بھی یو بی ایل کے احتجاجی جلوسوں میں سب سے نمایاں پی پی کا یہ وعدہ ہوتا ہے۔ شہید بی بی نے کہا تھا کہ آپ لوگ اپنے آپ کو چھٹی پر نہ سمجھیں تمہیں پچھلے واجبات بھی ملیں گے اور تم بحال بھی ہو گے۔یو بی ایل کے لوگ بنک کے ساتھ اپنی وابستگی کو دل میں لئے اب بھی اپنے آپ کو ملازم سمجھتے ہیں۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
یہ لوگ اب شہید بی بی کا واسطہ دے کر صدر زرداری کی خدمت میں اپیل کرتے ہیں کہ یہ وعدہ اب آپ نے پورا کرنا ہے۔ صدر زرداری نے اس بات کو دل سے محسوس کیا ہے۔ انہوں نے کمیٹی بنائی ہے جس کے چیئرمین رضا ربانی تھے۔ تب نیشنل بنک اور دوسرے کئی محکموں کے لوگ بحال ہوئے ہیں۔ صدارتی آرڈیننس کے مطابق تمام محکموں کے برطرف ملازمین کو بحال کیا جائے۔ یو بی ایل اربوں روپے کما رہا ہے۔ نئے ملازمین بھی بینک میں بھرتی ہوئے ہیں مگر بنک انتظامیہ نے برطرف ملازمین کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ رضا ربانی کے بعد سید خورشید شاہ چیئرمین بنے ہیں۔ ان کا یہ بیان اخبارات میں آ چکا ہے کہ یو بی ایل کے برطرف ملازمین کی بحالی کا وعدہ جلد پورا کریں گے ۔ جب پانچ ہزار ملازمین کو برطرف کیا گیا تو سپیکر اسمبلی الٰہی بخش سومرو کے بیٹے زبیر سومرو بنک کے صدر تھے اور ان کی تنخواہ صرف چودہ لاکھ روپے تھی علاوہ ازیں امریکہ میں زیر تعلیم ان کے بیٹے کو بنک کی طرف سے10 ہزار ڈالر ماہانہ ملتے تھے اور تین لاکھ تنخواہ پر کئی کنسلٹنٹ رکھے گئے۔ یہ رقوم پانچ ہزار ملازمین کی تنخواہ سے زیادہ ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ جب ایک ٹاسک فورس کا چیئرمین مولانا طفیل صدیقی پولیس لے کر میرے گھر آ گیا تو پیپلزپارٹی کے عزیز الرحمان چن کی قیادت میں کئی دوست میرے پاس آئے ان میں مسعود احمد بھی تھے جسے یو بی ایل سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ سب دوست پیپلز پارٹی کی حکومت کی توجہ اور مہربانی کے منتظر ہیں اور مستحق بھی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان لوگوں کو 12اکتوبر کو برطرف کیا گیا اور نوازشریف کی حکومت بھی 12 اکتوبر کو توڑی گئی۔ وزیراعظم مخدوم گیلانی نے پانچ سال جیل کاٹی کہ انہوں نے لوگوں کو ملازمت کیوںدلائی تھی۔ مگران کی سزا کیا ہے جنہوں نے لوگوں کو ملازمت سے نکلوا دیا....؟