سوئس مقدمات کھولنے کیلئے جنیوا حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا ؟ چیف جسٹس ۔۔ چیئرمین نیب کی طلبی اور سرزنش
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ریڈیو نیوز) سپریم کورٹ نے این آر او فیصلے پر دو روز میں مکمل عملدرآمد کرنے کا حکم دیدیا ہے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانا جانتی ہے۔ جب تمام مقدمات بحال کئے گئے تو سوئس مقدمات کے حوالے سے کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور سوئس مقدمات کھولنے کیلئے جنیوا حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا گیا۔ عدالت نے فیصلے کے مطابق پراسیکیوٹر اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر کو نہ ہٹانے پر چیئرمین نیب کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ دو روز میں عمل نہ ہوا تو آپ کی تنخواہ روکنے کا حکم دیدیا جائیگا جبکہ تمام عدالتیں نیب پراسیکیوٹرز کو نہیں سنیں گی۔ جمعہ کے روز چیف جسٹس افتخار محمد چودھری‘ جسٹس چودھری اعجاز اورجسٹس غلام ربانی پر مشتمل تین رکنی بنچ بینکرز سٹی ہاوسنگ سوسائٹی فراڈ کیس کی سماعت کر رہا تھا کہ نیب کی جانب سے عدالت کی مناسب معاونت نہ کرنے پر چیف جسٹس برہم ہو گئے اور کہا کہ نیب چیئرمین کو بلایا جائے کہ انہوں نے نئے پراسیکیوٹرز کیوں نہیں رکھے اور جن کے بارے میں عدالت نے ہٹائے جانے کا حکم دیا تھا۔ ان کو کیوں نہیں ہٹایا گیا۔ چیئرمین نیب نوید احسن ہنگامی طور پر عدالت میں پیش ہو گئے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ نے 16 دسمبر کے فل کورٹ کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا۔ عدالت چیئرمین نیب پر سخت برہم ہوئی۔ افتخار محمد چودھری نے کہا کہ میں چیف جسٹس ہوں یہ میری ڈیوٹی ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کراوں آپ نے فیصلے پر عمل کیلئے متعلقہ اتھارٹیز کو کوئی لیٹر لکھا ہے فیصلہ 16 دسمبر کو ہوا آپ نے اب تک کیا کیا ہے۔ یہ عدالت ہے۔ اس کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہئے۔ ہم نے تو آپ کے متعلق فیصلے میں تجویز کیا تھا مگر پراسیکیوٹر اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر کو ہٹانے کا واضح حکم تھا۔ عمل نہیں ہوگا تو تمام ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر کا کنٹریکٹ ایک ماہ کا رہ گیا تھا۔ میں نے سوچا اب تو خود ہی چلے جانا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 16 کی شام کو مختصر فیصلہ سنایا گیا تھا۔ آپ کو فوری عمل کرنا چاہئے تھا۔ جسٹس چودھری اعجاز نے کہا کہ آپ فیصلے کی نقل ساتھ لگا کر متعلقہ حکام کو لیٹر لکھ دیتے اور جن افراد کو ہٹانے کا اختیار آپ کے پاس ہے ان کو تو ہٹاتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کا فیصلہ معمولی بات نہیں لگتا ہے آپ عمل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ آپ عدالت کو وہ تحریری اقدامات دکھائیں جو آپ نے عملدرآمد کے متعلق اٹھائے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم نے تمام مقدمات بحال کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوئس مقدمہ بحال کیوں نہیں کرایا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ یہ لیٹر اٹارنی جنرل نے لکھنا ہے کیونکہ مقدمہ واپسی کا لیٹر انہوں نے لکھا تھا۔ میں معافی چاہتا ہوں آج ہی فیصلے پر عمل درآمد شروع کر دونگا۔ مجھے تھوڑی سی مہلت دے دی جائے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ عملدرآمد وزارت قانون اور اٹارنی جنرل آفس نے کرنی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ چیئرمین نیب فیصلوں پر عملدرآمد کرائیں اور دو روز میں عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کریں۔ سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اب روزانہ پوچھیں گے کہ ہمارے حکم پر کیا عمل ہو رہا ہے۔ چیئرمین نیب نوید احسن کا یہ کہنا تھا کہ وہ وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل سے اس بارے میں ہدایات لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب سارے مقدمات کھولے گئے ہیں تو کچھ لوگوں کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔ جس پر چیئرمین نیب نے عدالت کو یہ یقین دلایا کہ سوئس مقدمات سمیت دیگر تمام عدالتی احکامات پر کارروائی ایک سے دو روز کے اندر شروع کر دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے چیئرمین نیب سے کہا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب بصیر قریشی کو معطل کرنا بھی آپ کا اختیار تھا لیکن اس پر بھی آپ نے کارروائی نہیں کی۔