تقرریاں میرٹ پر ہوئیں‘ جج کسی کے احسان مند نہ ہوں‘ اب کسی کو عدلیہ میں مداخلت کی جرات نہیں ہوسکتی : جسٹس افتخار
لاہور (اپنے نامہ نگار سے + اے این این) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کا تقرر میرٹ پر ہوا‘ ججوں کی تعیناتی پر کسی کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں‘ 12 فروری کو 3 نومبر 2007ءجیسی صورتحال دہرانے کی کوشش کی گئی لیکن تمام جج صاحبان چٹان کی طرح ڈٹے رہے‘ عدلیہ کو آئندہ بھی اتحاد و اتفاق کی ضرورت پڑ سکتی ہے‘ اب کسی کو عدلیہ میں مداخلت کی جرات نہیں ہو سکتی‘ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج آئندہ آئین کے علاوہ حلف اٹھانے پر نااہل ہو جائے گا۔ وہ گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ کے ججز جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں الوداعی تقریب اور ہائیکورٹ کے نئے ججز کے اعزاز میں استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ججز آئین و قانون کے بعد صرف اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں‘ جسٹس ثاقب نثار نے حلف اٹھانے سے انکار کر کے وہی کیا جو 60 ججز نے 3 نومبر 2007ءکے اقدامات کے بعد کیا تھا لیکن اب یہ جسٹس ثاقب نثار کی ذاتی کاوش تھی جس میں انہوں نے ہمیں سرخرو کیا ہے اور ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو جب میں نے سپریم کورٹ میں لینے کا بتایا تو انہوں نے ایک منٹ نہیں لگایا اور کہا کہ ہم آپ کے سپاہی ہیں‘ خواجہ شریف نے بھی مکمل تعاون کیا اور کہا کہ میں پہلے کی طرح ہمیشہ قربانی دینے کے لئے تیار رہوں گا‘ سپریم کورٹ کے نئے دونوں ججز نے 24 گھنٹوں کے اندر سپریم کورٹ میں پہنچ کر حلف اٹھایا ہمیں ان تمام ججز کی تقلید کرنی چاہئے‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے 3 نومبر کے بعد بہت سی تکلیفیں اٹھائیں اور پریشانیاں دیکھی ہیں‘ ان قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج عدلیہ میں اتحاد ہے گو کہ 3 نومبر کے اقدامات کے بعد عدلیہ میں تقسیم آ گئی تھی اور اس وقت اور آج میں بڑا فرق ہے‘ پی سی او کے تحت جن لوگوں نے حلف اٹھایا تھا وہ بھی ہمارے ساتھی تھے آج خود کو اور ان کو ترازو کے پلڑے میں تول کر دیکھیں تو محسوس ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو عزت آپ کو دی ہے میں نہیں سمجھتا وہ کسی اور کو دی ہو گی۔ چھوٹی موٹی طمع اور خوشنودی کی خاطر اپنے پیشے اور اصولوں کو قربان نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ 2007ئ‘ 3 نومبر 2007ءاور 12 فروری 2010ءکو ججز سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے اس طرح کے اتحاد کی آئندہ بھی ضرورت رہے گی۔ ہمارا نظریہ یہ ہونا چاہئے کہ ایسا انصاف کریں جو نظر بھی آئے اور لوگ مطمئن ہوں‘ ملک میں گڈ گورننس‘ امن و امان‘ نظام‘ جمہوریت‘ آئین اور اداروں کو چلانے کی ذمہ داری عدالتوں پر ہوتی ہے‘ دنیا کی نظر عدلیہ کی آزادی پر ہوتی ہے جب سرمایہ کاروں کو اطمینان ہو کہ اس ملک میں عدلیہ آزاد ہے‘ ہمارے حقوق پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکے گا تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری کی جرا¿ت کرتے ہیں اور عدلیہ سے رجوع بھی کرتے ہیں‘ عدلیہ آزاد ہو تو مقامی سرمایہ کار بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کا انحصار عدلیہ پر ہوتا ہے جو جیلوں میں قید ہوں یا کسی غریب کی بیٹی یا بیٹا اغوا ہو جائے اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ملک میں سیاست کیا ہے؟ جمہوریت کیا ہے؟ آئین کیا ہے؟ اسے یہ پتہ ہوتا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور عدلیہ زیادتی نہیں ہونے دے گی مداوا کرے گی لیکن جب عدلیہ یہ دیکھنا شروع کر دے کہ اس مقدمے کے فیصلے سے میرے ساتھ کیا ہو گا‘ نوکری کنفرم ہو گی یا نہیں؟ یہ بات بھول جائیے اور یہ خوف دل سے نکال دیں نئے جج میرٹ پر یہاں پہنچے ہیں اور کنفرمیشن بھی میرٹ پر ہو گی‘ کٹھن وقت میں اچھے فیصلے کرنے والے ججز کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے کو میں نے رو دھو کر حلف اٹھانے پر مجبور کیا ہے وہ استعفیٰ دے رہے تھے اور میرے مجبور کرنے پر بغیر تنخواہ کے حلف اٹھانے کے لئے تیار ہوئے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار اور آصف کھوسہ ہمارے ہیروز ہیں۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے لیکن اس کا طریقہ کار کے تحت مداوا کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ جسٹس خواجہ محمد شریف نے اپنے خطاب میں چیف جسٹس سے کہا کہ آپ کا پیغام عظیم ہے‘ خدانخواستہ اگر حلف اٹھا لیا جاتا تو ادارے کا بہت بڑا نقصان ہو جاتا لیکن حکومتی کوششوں کو مکمل ناکام بنا دیا گیا۔ جسٹس خواجہ شریف نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے دشمن ملک کے وزیراعظم سے نہیں بلکہ اپنے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے‘ وزیراعظم نے چیف جسٹس کے ڈنر میں بن بلائے شرکت کر کے برف کو پگھلایا ہے‘ انہوں نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم وکیل یا جج نہیں رہے‘ ایسے معاملات میں اصل قصور نااہل مشیروں کا ہوتا ہے‘ ججز کی تقرری کے معاملے پر دونوں بڑوں نے بحران حل کر دیا‘ جب کوئی مسئلہ حل کرنے کی نیت ہو تو معاملہ چٹکی میں ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم‘ چیف جسٹس اور حکومت کو بہتر مشورہ دینے والے مشیروں کو مبارکباد دی اور کہا کہ ہم آئین و قانون کی سربلندی کے لئے کام کریں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے چیف جسٹس کے سیلوٹ سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں ہے‘ حلف اٹھانے سے انکار کرتے وقت مجھے کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی مجھے کہا گیا کہ 10 بجے حلف لینے کے لئے آ جائیں لیکن جب میں نے پوچھا کہ کیا اس میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مشاورت شامل ہے؟ جس پر خاموشی چھا گئی اور میں نے کہا کہ میں چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر حلف نہیں اٹھاوں گا۔ دریں اثناءچیف جسٹس ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف نے کہا کہ حکومت کو اہل مشیر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کو آئین و قانون کے مطابق صحیح مشورے دے سکیں۔ عدلیہ میں تقرریوں سے متعلق حالیہ بحران کے ذمہ دار بھی صدر اور وزیراعظم کے مشیر تھے۔ وہ لاہور ہائیکورٹ بار کی طرف سے جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ اور لاہور ہائی کورٹ کے نئے ججوں کے اعزاز میں دی گئی استقبالیہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے ملک ایک بہت بڑے بحران سے بچ گیا جس کا کریڈٹ وزیراعظم اور چیف جسٹس کو جاتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار‘ ناصرہ جاوید اقبال نے بھی خطاب کیا۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کو شیلڈ دی گئی جو بار کی طرف سے جسٹس خواجہ محمد شریف نے دی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی عدم شرکت کے باعث ان کی شیلڈ بھی جسٹس ثاقب نثار نے وصول کی۔