ہم نے تو بہت پہلے عرض کر دیا تھا موجودہ حکمران ”بے عزتی“ کے عمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں ممکن ہے اس کام کی بھی انہیں کوئی کمیشن ملتی ہو۔ کوئی عزت دار اس مقام پر پہنچنے کا تصور نہیں کر سکتا جس مقام تک حکمران آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہوئے شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے کہ عوام کو کیا منہ دکھائیں گے اگر یہ ”سیاسی چالیں“ ہیں تو لعنت ہے ایسی سیاست پر‘ ہمارے ”تین رنگے حکمرانوں“ نے اصول ہی یہی بنا لیا ہے کہ مخالفت سیاسی جماعتوں کو ہر حالت میں صدمات سے دوچار کرنا چاہئے اس مقصد کے لئے عوام کی نظروں سے گرنا ہی کیوں نہ پڑے۔ سو ”تین رنگے حکمرانوں“ نے ججوں کی تقرری کے حوالے سے جو یو ٹرن لیا ہے اس سے ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کو یقیناً ایک دھچکا لگا جو ہمیشہ اس تاک میں رہتی ہیں کب ”تین رنگے حکمران“ کوئی غلطی کریں اور وہ اسے کیش کروا کر اپنے سیاسی الو سیدھے کر لیں۔
یو ٹرن لینا، وعدہ خلافی کرنا اور ”مال گاڑی“ پر سوار رہنا موجودہ حکمرانوں کی باقاعدہ شناخت بن چکی ہے۔ اب اگر وہ اپنی شناخت سے ہٹ کر کوئی کام کریں گے تو کتنا عجیب لگے گا؟ لہٰذا تین رنگے حکمران ”عجوبہ“ نہیں بننا چاہتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کی روایت اور شناخت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا گر حکمران ججوں کی تقرری کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے۔ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ ان کی حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے عوام کی نظروں میں کم از کم اس حوالے سے تو معتبر ٹھہرتے کہ ”غلط طور“ پر ہی سہی پر اپنے موقف پر آخری وقت تک ڈٹے تو رہے پہلے سے بے اعتبارے حکمرانوں کی کسی بات پر اب کوئی اعتبار کرے.... سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
اصل میں سیاسی و اخلاقی طور پر کمزور حکمرانوں کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں انہیں کمپرومائزز کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ماضی میں ججوں کی بحالی کے معاملے میں بھی پیپلز پارٹی کو شبہ تھا گر اس حوالے سے ملک کی اصل قوتوں کے سامنے اس نے سر اٹھایا تو سر بری طرح کچلا جائے گا سو انتہائی مجبوری کی حالت میں ججوں کو اس نے بحال کر دیا۔ وزیر اعظم ججوں کو بحال کرنے کا روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ کریڈٹ لینے کی کوشش کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر دنیا جانتی ہے یہ بحالی صرف اور صرف ڈنڈے کے زور پر ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد عدلیہ کے ساتھ مزید ”پنگے بازی“ کی قطعی گنجائش نہیں تھی مگر عرض کیا ناں کہ ”تین رنگے حکمرانوں“ کو بے عزتی کروانے کا مزہ آتا ہے۔ لہٰدا عدلیہ کے ساتھ پھر ویسی ”چھیڑ خانیاں“ شروع کر دی گئیں جن کے نتیجے میں انہیں بے عزتی کا پورا یقین تھا۔
تاریخ میں اس طرح کا واقعہ بھی شاید پہلی بار ہوا کہ محترم وزیر اعظم بن بلائے مہمان کے طور پر کسی تقریب میں شریک ہو گئے۔ صرف اس لئے کہ ”اوپر سے ہدایت“ آ گئی تھی۔ کاش کسی روز انہیں سب سے اوپر سے ہدایت آ جائے اور وہ ایسے کمالات دکھانا بند کر دیں جس کی بنیاد پر کبھی کبھی وزارت عظمیٰ کا منصب انتہائی بے وقار دکھائی دینے لگتا ہے۔ ماضی قریب میں انہوں نے اچھی خاصی ساکھ بنا لی تھی۔ پھر این آر او زدگان کے قرب میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ساری ساکھ داو پر لگا لی۔ اب تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے خود وزیر اعظم صاحب بھی این آر او زدہ ہیں حالانکہ وہ نہیں ہیں۔ ہمیں تو ان پر رشک آتا ہے اچھا زمانہ تھا جب نیب کے کیسوں سے انہوں نے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ ویسی عدلیہ اب ہوتی تو موجودہ نیب زدگان کے لئے بھی فکرمندی کی کوئی بات نہیں تھی۔
ویسے یقین کیجئے محترم وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی اسمبلی میں گرج برس رہے تھے تو عین اسی وقت یہ محاورہ مسلسل ہمارے کانوں میں شور مچاتا رہا جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں لہٰذا ہم تو ایک لمحے کے لئے فکرمند نہیں تھے کہ اس بنیاد پر دو اداروں کے درمیان ٹکراو اس سطح پر پہنچ جائے کہ پورا سیاسی سسٹم لپیٹ کر رکھ دیا جائے۔ کچھ ”اپوزیشنی رہنما“ اس ”خوش فہمی“ میں مبتلا تھے تو ان کی سادگی پر مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ انہیںمعلوم ہی نہیں اقتدار کی کنجی اس وقت جن کے پاس ہے ”شاعری“ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے یوٹرن لے کر ”تین رنگے حکمران“ عوام کی نظروں سے یقیناً مزید گر گئے مگر یہ حقیقت ہے کہ شاعرانہ چال انہوں نے چلی اس سے ایسے کئی اپوزیشن رہنماوں اور جماعتوں کے منہ لٹک گئے جو اس ایشو پر حکومت کو جاتے اور خود کو آتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
پورے قد کے ساتھ وہی کھڑے ہوتے ہیں جن کا ایمان مضبوط ہو اور وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہوں۔ سینکڑوں مالی و اخلاقی کمزوریوں کے حامل حکمرانوں سے کوئی یہ توقع کرے اپنا اقتدار داو پر لگا کر اپنے موقف پر ڈٹے رہیں تو میرے خیال میں ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے اقتدار کی یہ آخری باری ہے اور اللہ کرے اپنی آخری باری وہ پوری کریں۔ اس ملک کی حقیقی قوتوں سے بھی یہی گزارش ہے گر یہ کوشش بھی کریں تو ان کی حکومت نہ توڑی جائے۔ مجھے اپنے عزیز دوست لاہور کے سابق نائب ناظم ادریس حنیف کی بات یاد آتی ہے ”سیاسی حکومتوں کی اپنی خواہش ہوتی ہے کہ دو اڑھائی برسوں بعد ان کے اقتدار پر کلہاڑا چلا دیا جائے، اس لئے کہ ”مظلومیت“ کا جھنڈا لہراتے ہوئے ڈنڈا لے کر عوام کے سروں پر ایک بار پھر مسلط ہو جائیں اور پھر وہی کچھ کریں جو پہلے کرتے رہے بلکہ بار بار کرتے رہے“.... سو اپنی دعا ہے اب کے بار ذلیل و رسوا ہو کر ہی سہی اپنے اقتدار کی مدت یہ ضرور پوری کریں ورنہ عوام ایک بار پھر مارے جائیں گے۔
یو ٹرن لینا، وعدہ خلافی کرنا اور ”مال گاڑی“ پر سوار رہنا موجودہ حکمرانوں کی باقاعدہ شناخت بن چکی ہے۔ اب اگر وہ اپنی شناخت سے ہٹ کر کوئی کام کریں گے تو کتنا عجیب لگے گا؟ لہٰذا تین رنگے حکمران ”عجوبہ“ نہیں بننا چاہتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کی روایت اور شناخت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا گر حکمران ججوں کی تقرری کے حوالے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے۔ اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ ان کی حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے عوام کی نظروں میں کم از کم اس حوالے سے تو معتبر ٹھہرتے کہ ”غلط طور“ پر ہی سہی پر اپنے موقف پر آخری وقت تک ڈٹے تو رہے پہلے سے بے اعتبارے حکمرانوں کی کسی بات پر اب کوئی اعتبار کرے.... سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
اصل میں سیاسی و اخلاقی طور پر کمزور حکمرانوں کی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں انہیں کمپرومائزز کرنا ہی پڑتے ہیں۔ ماضی میں ججوں کی بحالی کے معاملے میں بھی پیپلز پارٹی کو شبہ تھا گر اس حوالے سے ملک کی اصل قوتوں کے سامنے اس نے سر اٹھایا تو سر بری طرح کچلا جائے گا سو انتہائی مجبوری کی حالت میں ججوں کو اس نے بحال کر دیا۔ وزیر اعظم ججوں کو بحال کرنے کا روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ کریڈٹ لینے کی کوشش کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر دنیا جانتی ہے یہ بحالی صرف اور صرف ڈنڈے کے زور پر ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد عدلیہ کے ساتھ مزید ”پنگے بازی“ کی قطعی گنجائش نہیں تھی مگر عرض کیا ناں کہ ”تین رنگے حکمرانوں“ کو بے عزتی کروانے کا مزہ آتا ہے۔ لہٰدا عدلیہ کے ساتھ پھر ویسی ”چھیڑ خانیاں“ شروع کر دی گئیں جن کے نتیجے میں انہیں بے عزتی کا پورا یقین تھا۔
تاریخ میں اس طرح کا واقعہ بھی شاید پہلی بار ہوا کہ محترم وزیر اعظم بن بلائے مہمان کے طور پر کسی تقریب میں شریک ہو گئے۔ صرف اس لئے کہ ”اوپر سے ہدایت“ آ گئی تھی۔ کاش کسی روز انہیں سب سے اوپر سے ہدایت آ جائے اور وہ ایسے کمالات دکھانا بند کر دیں جس کی بنیاد پر کبھی کبھی وزارت عظمیٰ کا منصب انتہائی بے وقار دکھائی دینے لگتا ہے۔ ماضی قریب میں انہوں نے اچھی خاصی ساکھ بنا لی تھی۔ پھر این آر او زدگان کے قرب میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ساری ساکھ داو پر لگا لی۔ اب تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے خود وزیر اعظم صاحب بھی این آر او زدہ ہیں حالانکہ وہ نہیں ہیں۔ ہمیں تو ان پر رشک آتا ہے اچھا زمانہ تھا جب نیب کے کیسوں سے انہوں نے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ ویسی عدلیہ اب ہوتی تو موجودہ نیب زدگان کے لئے بھی فکرمندی کی کوئی بات نہیں تھی۔
ویسے یقین کیجئے محترم وزیر اعظم جناب یوسف رضا گیلانی اسمبلی میں گرج برس رہے تھے تو عین اسی وقت یہ محاورہ مسلسل ہمارے کانوں میں شور مچاتا رہا جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں لہٰذا ہم تو ایک لمحے کے لئے فکرمند نہیں تھے کہ اس بنیاد پر دو اداروں کے درمیان ٹکراو اس سطح پر پہنچ جائے کہ پورا سیاسی سسٹم لپیٹ کر رکھ دیا جائے۔ کچھ ”اپوزیشنی رہنما“ اس ”خوش فہمی“ میں مبتلا تھے تو ان کی سادگی پر مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ انہیںمعلوم ہی نہیں اقتدار کی کنجی اس وقت جن کے پاس ہے ”شاعری“ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ججوں کی تقرری کے حوالے سے یوٹرن لے کر ”تین رنگے حکمران“ عوام کی نظروں سے یقیناً مزید گر گئے مگر یہ حقیقت ہے کہ شاعرانہ چال انہوں نے چلی اس سے ایسے کئی اپوزیشن رہنماوں اور جماعتوں کے منہ لٹک گئے جو اس ایشو پر حکومت کو جاتے اور خود کو آتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
پورے قد کے ساتھ وہی کھڑے ہوتے ہیں جن کا ایمان مضبوط ہو اور وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہوں۔ سینکڑوں مالی و اخلاقی کمزوریوں کے حامل حکمرانوں سے کوئی یہ توقع کرے اپنا اقتدار داو پر لگا کر اپنے موقف پر ڈٹے رہیں تو میرے خیال میں ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے اقتدار کی یہ آخری باری ہے اور اللہ کرے اپنی آخری باری وہ پوری کریں۔ اس ملک کی حقیقی قوتوں سے بھی یہی گزارش ہے گر یہ کوشش بھی کریں تو ان کی حکومت نہ توڑی جائے۔ مجھے اپنے عزیز دوست لاہور کے سابق نائب ناظم ادریس حنیف کی بات یاد آتی ہے ”سیاسی حکومتوں کی اپنی خواہش ہوتی ہے کہ دو اڑھائی برسوں بعد ان کے اقتدار پر کلہاڑا چلا دیا جائے، اس لئے کہ ”مظلومیت“ کا جھنڈا لہراتے ہوئے ڈنڈا لے کر عوام کے سروں پر ایک بار پھر مسلط ہو جائیں اور پھر وہی کچھ کریں جو پہلے کرتے رہے بلکہ بار بار کرتے رہے“.... سو اپنی دعا ہے اب کے بار ذلیل و رسوا ہو کر ہی سہی اپنے اقتدار کی مدت یہ ضرور پوری کریں ورنہ عوام ایک بار پھر مارے جائیں گے۔