نواز خان میرانی.............
پچھلی گرمیوں کی بات ہے۔ میں ڈاکٹر کے کلینک پر بیٹھا ہوا باہر کی جانب رواں دواں ٹریفک کو بے دھیانی سے دیکھ رہا تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب مصروف تھے اور میں وقت لئے بغیر چلا گیا تھا۔ باہر دور سے ایسا لگا کہ سڑک کے بائیں طرف ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے۔ میں نے دل میں دعا کی الٰہی خیر رکھنا کہیں حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ میں ڈاکٹر کو چیک کراکے گاڑی میں بیٹھا تو اگلے چوک سے تھوڑا سا آگے پھر لوگوں نے اکٹھ کیا ہوا تھا۔ میں ان کے قریب پہنچ کر گاڑی سے اتر گیا اور معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ دیکھا کہ تربوزوں کی ایک ریڑھی ہے۔ تربوز چونکہ ابھی ابھی نئے آئے تھے لہٰذا نئی چیز نئے پھل، نئی نئی خبر جاننے کی نفسیات سے ان پڑھ ریڑھے والے نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ اس کا طریقہ واردات بڑا سادہ مگر پرفریب تھا۔ وہ چھری اٹھا کر حکمرانوں کی طرح مہنگائی کی چھری عوام کے پیٹ میں نہیں تربوز میں گھونپ دیتا اور تربوز کا ٹکڑا گاہک کو دکھا کر کہتا کہو سبحان اللہ۔ اب چاہے تربوز سفید ہو یا گلابی ہر مسلمان بادل نخواستہ سبحان اللہ کہتا اور خوش دلی یا نیم دلی سے تربوز لے کر چلا جاتا۔ میں اس کی منصوبہ بندی، چالاکی اور کاروباری چستی کو تھوڑی دیر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر دیکھتا رہا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے سودا بیچ کے یہ جا وہ جا یہ نظروں سے مشرف کی طرح اوجھل ہو گیا۔ میں اسی سوچ و بچار میں گم تھا کہ اپنا سودا بیچنے دہاڑی لگانے، عوام کو بے وقوف بنانے اور الو سیدھا کرنے میں حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں بوقت ضرورت اسلام کا نام لینے میں ذرہ بھی نہیں ہچکچاتے اور اپنی دکان چمکا کر چلتے بنتے ہیں۔
کہا جاتا ہے ایسے ہی ایک اور مسلمان بادشاہ نے شہنشاہ فخر موجودات سرور کائنات محمدﷺ کے نعلین مبارک بادشاہی مسجد سے چوری شدہ منہ مانگی قیمت ادا کرکے حاصل کر لئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلطان مرتے وقت متبرک چیزیں قبر میں اپنے ساتھ سینے یا سر پر رکھوا کر دفن کئے جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کیا منطق ہے کیا استدلال اور کیسی مجال ہے۔ ایسا تو فرعون مصر بھی کیا کرتے تھے لحد میں ان کے ساتھ بھی بہت کچھ دفن کیا جاتا تھا مگر کیا اسلام عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اجازت دیتا ہے ہمارے آقائے نامدار تو وہ حاکم اور شہنشاہوں کے شہنشاہ تھے جن کا فرمان تھا کہ چوری کا جرم اگر میری بیٹی پہ ثابت ہو جائے تو میں اس ہستی پر بھی سزا لاگو کر دوں گا۔ خدائے ذوالجلال تو دلوں کے بھید اور نیتوں کے فتور جانتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو اس سے محبت کرتا ہے جو اس کے حبیب کی شریعت کو مشعل راہ اور منشور زندگانی سمجھے اور یہی ان سے محبت کی سچی نشانی اور اصل کہانی ہے۔
مگر ہمارا المیہ یہ ہے نفسانی خواہشات کے پجاری بن کر کراچی سے کوئٹہ تک مارا ماری میں مصروف ہیں۔ ہمارے کسی کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا مدنظر ہی نہیں حالانکہ بزرگوں کا فرمان ہے کہ جس کام میں بھی (روزمرہ زندگی کے کام، اولاد اور والدین سے لے کر ہم سفر کی محبت تک) کوئی نفسانی غرض کارفرما ہو اس میں برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
آج سے صدیوں پہلے علی ہجویریؒ نے فرمایا تھا اب تو صورتحال اس سے بھی خراب تر ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس دور میں پیدا فرمایا ہے جس میں لوگ حرص و ہوس کو شریعت کہتے ہیں۔ طلب جاہ، طلب حکومت اور تکبر کو علم سمجھتے ہیں۔ خلق خدا سے ریاکاری اور ان سے اصل حقائق چھپانے، کراچی کو کرچیوں میں بدلنے، مارکیٹوں کو آگ لگانے، ٹارگٹ کلنگ کرنے، چیف جسٹس کے جلوس پر فائرنگ کرنے، وکیلوں کو زندہ جلانے، پٹھان، مہاجر اور سندھی کی تفریق کرکے عصبیت کو فروغ دینے۔ را سے پیسے لے کر کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرکے ہندوستان کو ہمارے دریاﺅں پر ساٹھ ڈیم تعمیر کرنے کی اور پاکستان کو خدانخواستہ صحرا میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے باوجود، ریاکاری اور سیاست کو خوف خدا سمجھتے ہیں اور بغض اور کینے کو دل میں چھپا کے رکھنے کو حلم و بردباری بقول ظفراللہ جمالی سے زرداری تک ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا درس دینے اور عملاً ویلنٹائن ڈے پہ مخالفین کو سرخ گلابوں کے بظاہر پھول بھجوا کر اس کے پتلے اپنی ہدایت اور زیر نگرانی چوکوں پہ جلوانے اور ہر آفت و مصیبت حادثات و آفاقی و ناگہانی آفات کا ذمہ دار شہباز شریف قرار دینے کے باوجود اس ریاکاری کو بردباری کہتے اور رعایا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو سیاست سمجھتے ہیں۔
ٹی وی کے ہر چینل پر آ کر بازاری زبان کا استعمال، اسمبلیوں میں خواتین کا استحصال اور لڑائیوں کو مناظرہ ایسی حماقت اور ایسی لڑائی کو اپنی عظمت اپنی اس منافقت کو خاص عام زہد، لالچ، حرص، طمع، مملکت خداداد پاکستان کو لوٹ کر سیاستدانوں کا یہ اعلان کرنا کہ سوئٹزر لینڈ میں مشکل وقت کے لئے آفتاب شیر پاﺅ نے پیسے رکھوائے ہیں اس ہوس کو سلوک اور ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور ہذیان بکنے کو علما بھی معرفت دل کی دھڑکن، نفس کی تاویلات یعنی اپنی خواہشات کی تکمیل کو حجت، الحاد یعنی دین سے پھر جانے کو فقر، بے دینی اور سیکولرازم کو فنا، حضورﷺ کی شریعت چھوڑ دینے کو طریقت اور زمانے میں آفت پھیلانے کو معاملت فہمی، مفاہمت کی سیاست کرنے والے اس طرح سے سیاست میں اتحاد بنا کر چھا جانے کی کوشش میں ہیں جس طرح اہل بیت پہ آل مروان چھا گئے تھے۔
ایسی صورت میں تربوز بیچنے کی خاطر ریڑھے چلانے والے اور ملک چلانے والوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ دونوں کمائی کرنے کو اپنا استحقاق سمجھ کر اسلامی تعلیمات کو خاکم بدہن خاک میں ملانے کی جسارت کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ دونوں یہ گونگے اور بہرے اصل اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں!!
پچھلی گرمیوں کی بات ہے۔ میں ڈاکٹر کے کلینک پر بیٹھا ہوا باہر کی جانب رواں دواں ٹریفک کو بے دھیانی سے دیکھ رہا تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب مصروف تھے اور میں وقت لئے بغیر چلا گیا تھا۔ باہر دور سے ایسا لگا کہ سڑک کے بائیں طرف ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے۔ میں نے دل میں دعا کی الٰہی خیر رکھنا کہیں حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ میں ڈاکٹر کو چیک کراکے گاڑی میں بیٹھا تو اگلے چوک سے تھوڑا سا آگے پھر لوگوں نے اکٹھ کیا ہوا تھا۔ میں ان کے قریب پہنچ کر گاڑی سے اتر گیا اور معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ٹھانی۔ دیکھا کہ تربوزوں کی ایک ریڑھی ہے۔ تربوز چونکہ ابھی ابھی نئے آئے تھے لہٰذا نئی چیز نئے پھل، نئی نئی خبر جاننے کی نفسیات سے ان پڑھ ریڑھے والے نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ اس کا طریقہ واردات بڑا سادہ مگر پرفریب تھا۔ وہ چھری اٹھا کر حکمرانوں کی طرح مہنگائی کی چھری عوام کے پیٹ میں نہیں تربوز میں گھونپ دیتا اور تربوز کا ٹکڑا گاہک کو دکھا کر کہتا کہو سبحان اللہ۔ اب چاہے تربوز سفید ہو یا گلابی ہر مسلمان بادل نخواستہ سبحان اللہ کہتا اور خوش دلی یا نیم دلی سے تربوز لے کر چلا جاتا۔ میں اس کی منصوبہ بندی، چالاکی اور کاروباری چستی کو تھوڑی دیر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر دیکھتا رہا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے سودا بیچ کے یہ جا وہ جا یہ نظروں سے مشرف کی طرح اوجھل ہو گیا۔ میں اسی سوچ و بچار میں گم تھا کہ اپنا سودا بیچنے دہاڑی لگانے، عوام کو بے وقوف بنانے اور الو سیدھا کرنے میں حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں بوقت ضرورت اسلام کا نام لینے میں ذرہ بھی نہیں ہچکچاتے اور اپنی دکان چمکا کر چلتے بنتے ہیں۔
کہا جاتا ہے ایسے ہی ایک اور مسلمان بادشاہ نے شہنشاہ فخر موجودات سرور کائنات محمدﷺ کے نعلین مبارک بادشاہی مسجد سے چوری شدہ منہ مانگی قیمت ادا کرکے حاصل کر لئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلطان مرتے وقت متبرک چیزیں قبر میں اپنے ساتھ سینے یا سر پر رکھوا کر دفن کئے جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کیا منطق ہے کیا استدلال اور کیسی مجال ہے۔ ایسا تو فرعون مصر بھی کیا کرتے تھے لحد میں ان کے ساتھ بھی بہت کچھ دفن کیا جاتا تھا مگر کیا اسلام عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اجازت دیتا ہے ہمارے آقائے نامدار تو وہ حاکم اور شہنشاہوں کے شہنشاہ تھے جن کا فرمان تھا کہ چوری کا جرم اگر میری بیٹی پہ ثابت ہو جائے تو میں اس ہستی پر بھی سزا لاگو کر دوں گا۔ خدائے ذوالجلال تو دلوں کے بھید اور نیتوں کے فتور جانتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو اس سے محبت کرتا ہے جو اس کے حبیب کی شریعت کو مشعل راہ اور منشور زندگانی سمجھے اور یہی ان سے محبت کی سچی نشانی اور اصل کہانی ہے۔
مگر ہمارا المیہ یہ ہے نفسانی خواہشات کے پجاری بن کر کراچی سے کوئٹہ تک مارا ماری میں مصروف ہیں۔ ہمارے کسی کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا مدنظر ہی نہیں حالانکہ بزرگوں کا فرمان ہے کہ جس کام میں بھی (روزمرہ زندگی کے کام، اولاد اور والدین سے لے کر ہم سفر کی محبت تک) کوئی نفسانی غرض کارفرما ہو اس میں برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
آج سے صدیوں پہلے علی ہجویریؒ نے فرمایا تھا اب تو صورتحال اس سے بھی خراب تر ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس دور میں پیدا فرمایا ہے جس میں لوگ حرص و ہوس کو شریعت کہتے ہیں۔ طلب جاہ، طلب حکومت اور تکبر کو علم سمجھتے ہیں۔ خلق خدا سے ریاکاری اور ان سے اصل حقائق چھپانے، کراچی کو کرچیوں میں بدلنے، مارکیٹوں کو آگ لگانے، ٹارگٹ کلنگ کرنے، چیف جسٹس کے جلوس پر فائرنگ کرنے، وکیلوں کو زندہ جلانے، پٹھان، مہاجر اور سندھی کی تفریق کرکے عصبیت کو فروغ دینے۔ را سے پیسے لے کر کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرکے ہندوستان کو ہمارے دریاﺅں پر ساٹھ ڈیم تعمیر کرنے کی اور پاکستان کو خدانخواستہ صحرا میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے باوجود، ریاکاری اور سیاست کو خوف خدا سمجھتے ہیں اور بغض اور کینے کو دل میں چھپا کے رکھنے کو حلم و بردباری بقول ظفراللہ جمالی سے زرداری تک ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا درس دینے اور عملاً ویلنٹائن ڈے پہ مخالفین کو سرخ گلابوں کے بظاہر پھول بھجوا کر اس کے پتلے اپنی ہدایت اور زیر نگرانی چوکوں پہ جلوانے اور ہر آفت و مصیبت حادثات و آفاقی و ناگہانی آفات کا ذمہ دار شہباز شریف قرار دینے کے باوجود اس ریاکاری کو بردباری کہتے اور رعایا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو سیاست سمجھتے ہیں۔
ٹی وی کے ہر چینل پر آ کر بازاری زبان کا استعمال، اسمبلیوں میں خواتین کا استحصال اور لڑائیوں کو مناظرہ ایسی حماقت اور ایسی لڑائی کو اپنی عظمت اپنی اس منافقت کو خاص عام زہد، لالچ، حرص، طمع، مملکت خداداد پاکستان کو لوٹ کر سیاستدانوں کا یہ اعلان کرنا کہ سوئٹزر لینڈ میں مشکل وقت کے لئے آفتاب شیر پاﺅ نے پیسے رکھوائے ہیں اس ہوس کو سلوک اور ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور ہذیان بکنے کو علما بھی معرفت دل کی دھڑکن، نفس کی تاویلات یعنی اپنی خواہشات کی تکمیل کو حجت، الحاد یعنی دین سے پھر جانے کو فقر، بے دینی اور سیکولرازم کو فنا، حضورﷺ کی شریعت چھوڑ دینے کو طریقت اور زمانے میں آفت پھیلانے کو معاملت فہمی، مفاہمت کی سیاست کرنے والے اس طرح سے سیاست میں اتحاد بنا کر چھا جانے کی کوشش میں ہیں جس طرح اہل بیت پہ آل مروان چھا گئے تھے۔
ایسی صورت میں تربوز بیچنے کی خاطر ریڑھے چلانے والے اور ملک چلانے والوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ دونوں کمائی کرنے کو اپنا استحقاق سمجھ کر اسلامی تعلیمات کو خاکم بدہن خاک میں ملانے کی جسارت کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور یہی ہمارا المیہ ہے کہ دونوں یہ گونگے اور بہرے اصل اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں!!