جب سے بھارت نے امریکہ کے ساتھ سول نیو کلئیرانرجی کا معاہدہ کیا ہے بھارت خودکو بھی امریکہ ہی سمجھنے لگا ہے۔ امریکی زبان میں بات کرنا شروع کر دی ہے۔ امریکہ ’’ہاٹ پر سیوٹ ‘ ‘ اور فاٹا میں’’ القاعدہ کی موجودگی‘‘ کی بات کرتا ہے تو بھارت بھی کورس میں یہی کچھ دہراتا ہے۔ لیکن تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض اوقات امریکہ بھی بھارت کی زبان بولنا شروع کر دیتا ہے مثلاً پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی قائدین مسلسل رٹ لگا رہے ہیں کہ ’’ پاکستان میں بھارت پر ممبئی طرز کے حملوں کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ‘‘ پھر بات کو ذرا مزید طول دے کر دھمکی بھی دی جاتی ہے ’’اگر اب ممبئی طرز کا حملہ ہوا تو بھارت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا ، جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔ ‘‘ یعنی بھارت کو پتہ ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے، تو اُسے رکوانے کی کوشش یا حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتا۔جنگ کی دھمکیاں کیوں ضروری ہیں؟ بھارتی قیادت کے ان دھمکی آمیز بیانات کو مزید شہہ امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس کے اس بیان سے ملی ہے جو اُس نے چند ہفتے پہلے نئی دہلی میں دیا۔ \\\"Terrorists can trigger India Pak war. New Dehli might lose patience with repeat Mumbai attack.۔ا س بیان کا لب لباب یہ ہے کہ اگر ممبئی طرز کی دہشت گردی دوبارہ ہوئی تو پاک بھارت جنگ نا گزیر ہو جائیگی۔ اس بیان کو مؤثر بنانے میں بھارتی آرمی چیف نے بھی اپنا کردار ادا کیا جس پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جب دو ممالک ایک دوسرے کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں تو بات صرف دوستی کی حد سے آگے نکل جاتی ہے۔
امریکہ بھارت دوستی کااور کسی ملک پر اثر ہو یا نہ ہو پاکستان اور چین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا اس دوستی کا تجزیہ ضروری ہے۔ یہ دوستی کتنی زیادہ پائیدار یا مضبوط ثابت ہو سکتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن میری ذاتی رائے میں اس دوستی میں ایسے سقم موجود ہیں جو بالآخر بھارت کیلئے مایوس کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی دوستی ہمیشہ ملکی مفادات۔ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے لیکن یہاں امریکہ بھارت دوستی کی بنیاد منافقت پر رکھی گئی ہے۔ منافقت اس لیے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ سول نیوکلیئر انرجی دے کر بھارت کی بہت بڑی دفاعی منڈی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ بھارت کے پاس اس وقت بہت جدید دفاعی ہوائی اڈے اور دفاعی ادارے موجود ہیں جنہیں امریکہ استعمال کرنا چاہتا ہے ۔دوسرا بھارت خود ابھی تک دفاعی ہتھیاروں کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے۔ اُس کی زیادہ تر فوج روسی اسلحہ سے لیس ہے جو موجودہ دور میں کامیاب نہیں۔ بھارت مجبوراً روس سے ہٹ کر دفاعی ہتھیاروں کیلئے مغرب خصوصاً امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے اور یہی چیز امریکہ بھی چاہتا ہے۔ بھارتی فوج کو امریکی اسلحہ سے لیس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت مکمل طور پر امریکہ کے رحم و کرم پر ہو گا ۔ امریکی روایات کے مطابق جب چاہا ’’پابندیاں‘‘ لگا کر بلیک میلنگ شروع کر دی ۔ امریکہ نے بھارت کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے حال ہی میں 2.1بلین ڈالر کے 8 عدد P-8 Poseidons, Multimission, Maritime Air Craft دینے کا معاہدہ کیا ہے۔
اسی طرح دوستی کے روپ میں بھارت بھی امریکہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے ۔ بھارت امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو کر سیکورٹی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جرمنی، جاپان اور برطانیہ پہلے ہی بھارت کی یہ خواہش مان چکے ہیں لیکن امریکہ تاحال خاموش ہے۔ بھارت یہ آخری رکاوٹ دوستی کے روپ میں عبور کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا بھارت امریکہ کی مدد سے پاکستان کوبھی سبق سکھانا چاہتا ہے ۔ افغانستان اور وسط ایشیاء کی ابھرتی ہوئی منڈیوں پر قابض ہونا چاہتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت جو دل چاہے بیان دیتا رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت سے بہت خائف ہے۔ بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کسی طرح بھی نہیں کر سکتا۔ بھارتی فوجی قائدین بار بار ایسے بیانات دے چکے ہیں کہ انہیں پاکستان کی نسبت چین سے زیادہ خطرہ ہے۔ ان حالات میں امریکہ وہ واحد طاقت ہے جو بھارت کا سہارا بن سکتی ہے لہٰذا دونوں ممالک ایک دوسرے کے ذریعے اپنے اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی اس دوستی کی بنیادوں میں کئی ایسی دراڑیں موجود ہیں جو شاید زیادہ پریشر برداشت نہ کر سکیں۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی دوستی کسی بھی ملک کے ساتھ مستقل نہیں ہوتی۔ یہ امریکی صدور کے ذاتی خیالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً بش ایڈمنسٹریشن بہت زیادہ بھارت نواز تھی اور سول نیو کلیئر انرجی معاہدہ بھی اُسی دور میں 10اکتوبر 2008ء کو مکمل ہواجسے ’’123 ایگریمنٹ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ بش حکومت کے خاتمے کے بعد اوبامہ حکومت کی اپنی ترجیحات سامنے آئی ہیں ۔ وہ بھارت آنے کی بجائے پہلے چین چلے گئے اور وہاں کئی ایک معاہدے بھی کئے جس کا بھارت کو بہت دکھ ہوا۔ ایک مرحلے پر تو باراک اوبامہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بھی بات کی جس سے بھارت بہت پریشان ہوا ۔پھر بھارت اورامریکہ کا تعاون برابری کی بنیاد پر ممکن ہی نہیں کیونکہ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں اور لیڈر شپ کو مسلّم سمجھتا ہے۔ جبکہ بھارت اس وقت تک محض ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔ امریکہ تو بھارت سے اپنے احکامات منوا سکتا ہے لیکن بھارت ایسا نہیں کر سکتا ۔ ہاں البتہ بھارت کے پاس بلیک میلنگ کا ایک ہتھیار ایسا ہے جو اب تک کافی کارگر ثابت ہوا ہے اور وہ ہیں امریکہ میں رہائش پذیر بھارتی باشندے جن کی تعداد اس وقت 27.5لاکھ کے قریب ہے۔ یہ لوگ وہاں اعلیٰ ٹیکنیکل اورمیڈیکل عہدوں کے علاوہ امریکی ریسرچ اور تکنیکی اداروں میں تربیت یافتہ مین پاور ہونے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ امریکی الیکشن اور یہودیوں کے ساتھ مل کر امریکی میڈیا میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بھارت امریکہ تعلقات میں یہ لوگ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
جہاں تک برابری کے تعلقات کا سوال ہے امریکہ نے آج تک کسی ملک کے ساتھ برابری کی سطح پر بات نہیں کی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ کسی ملک کو اپنے برابر ماننا امریکی سائیکی میں شامل نہیں۔ وہ اپنی پالیسیاں چاہے وہ معاشی ہوں یا دفاعی خود تشکیل دینے کے بعد اپنے اتحادیوں کو ان پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی میں وہ اپنی سلامتی سمجھتا ہے ۔ اس کے اتحادی ممالک کا جتنا بھی نقصان ہو امریکہ کو اس کی پرواہ نہیں ۔ جبکہ بھارت اپنے آپ کو ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت سمجھتا ہے۔ وہ پورے بحرِ ہند پر قبضے کے علاوہ اردگرد کے ممالک کوبھی اپنے دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت اپنی ذاتی شناخت بنانے کے لیے کردار ادا کرتا ہے تو یقینا یہ امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو گا۔ کیا امریکہ ایسا برداشت کر سکے گا ؟ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ امریکی سائے کے نیچے رہ کر کیا بھارت اپنی آزادانہ اور امریکہ مخالفت پالیسیاں جاری رکھ سکے گاکیونکہ بھارت تو ’’غیروابستہ ممالک تحریک‘‘ کا ممبربھی ہے۔
امریکہ اس وقت پوری دنیا کا فوجی محافظ بنا ہوا ہے۔ ایک عالمی جنگ لڑ رہا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا مالک ہے۔ جبکہ بھارت تو ابھی تک اپنے ٹینک بھی تیار نہیں کر سکا۔ امریکہ کا فوجی بجٹ اس سال 663.7بلین ڈالرز ہے جبکہ بھارت کا دفاعی بجٹ محض 32.7بلین ڈالرز ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کا برابری کی بنیاد پر کیا تعاون ممکن ہو سکتا ہے؟ سوچا جا سکتا ہے ۔مل کر فوجی ایکسر سائزز کرنا اور بات ہے ۔
اس تعاون کا ایک پہلو چین اور پاکستان کی اس خطّے میں موجودگی بھی ہے ۔ امریکہ نے کوشش تو کی تھی کہ بھارت کو ایشیائی طاقت بنا کر چین کے مدِ مقابل کھڑا کیا جائے لیکن یہ حقیقت جلدہی واضح ہو گئی ہے کہ بھارت آئندہ مستقبل قریب میں چین کے مدِ مقابل فوجی طاقت بن ہی نہیں سکتا کیونکہ اُس کے پاس جدید ہتھیار بنانے کی تاحال صلاحیت نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ روسی اسلحہ کے بل بوتے پر جنگ لڑتا رہا ہے اور اب شاید امریکی ہتھیاروں سے لڑے گا ۔ لیکن امریکی اتنے بے وقوف نہیں کہ وہ چین کو ناراض کریں گے۔ یاد رہے کہ کوئی ملک بیرونی ممالک کے ہتھیار خرید کر فوجی طاقت نہیں بن سکتا اور بھارت کی موجودہ صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔
بھارت امریکہ تعاون نے پاکستان اور چین کو مزید ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے ۔ دفاعی اور سٹرٹیجک تعاون بڑھا ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے تیزی سے دفاعی خود مختاری کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ چین نے اپنے ملکی دفاع سے باہر نکل کر پہلی دفعہ علاقائی دفاع میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے چین نے پاکستان سمیت کچھ ممالک میں اپنے دفاعی اڈے قائم کرنے کی بات کی ہے ۔اُس دن سے لے کر آج تک’’ امریکی ہرکارے‘‘ مسلسل اسلام آباد کے دورے کر رہے ہیں۔پاکستان کو 1.2بلین ڈالرز کی فوجی امداد دینے کا عندیہ بھی دیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کی بات کی ہے کیونکہ پاکستان چین تعاون سے پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ بدل جائیگی اور یہ وہ آخری بات ہو گی جو بھارتی یا امریکی برداشت کر سکتے ہیں۔ وہ چاہیں یا نہ چاہیںبہر حال حالات اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ بھارت تعلقات علاقے میں کشیدہ حالات کی کسوٹی پر ٹسٹ ہونا تا حال باقی ہیں۔
امریکہ بھارت دوستی کااور کسی ملک پر اثر ہو یا نہ ہو پاکستان اور چین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لہٰذا اس دوستی کا تجزیہ ضروری ہے۔ یہ دوستی کتنی زیادہ پائیدار یا مضبوط ثابت ہو سکتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن میری ذاتی رائے میں اس دوستی میں ایسے سقم موجود ہیں جو بالآخر بھارت کیلئے مایوس کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ بین الاقوامی دوستی ہمیشہ ملکی مفادات۔ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے لیکن یہاں امریکہ بھارت دوستی کی بنیاد منافقت پر رکھی گئی ہے۔ منافقت اس لیے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہیں۔ امریکہ سول نیوکلیئر انرجی دے کر بھارت کی بہت بڑی دفاعی منڈی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔یاد رہے کہ بھارت کے پاس اس وقت بہت جدید دفاعی ہوائی اڈے اور دفاعی ادارے موجود ہیں جنہیں امریکہ استعمال کرنا چاہتا ہے ۔دوسرا بھارت خود ابھی تک دفاعی ہتھیاروں کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے۔ اُس کی زیادہ تر فوج روسی اسلحہ سے لیس ہے جو موجودہ دور میں کامیاب نہیں۔ بھارت مجبوراً روس سے ہٹ کر دفاعی ہتھیاروں کیلئے مغرب خصوصاً امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے اور یہی چیز امریکہ بھی چاہتا ہے۔ بھارتی فوج کو امریکی اسلحہ سے لیس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت مکمل طور پر امریکہ کے رحم و کرم پر ہو گا ۔ امریکی روایات کے مطابق جب چاہا ’’پابندیاں‘‘ لگا کر بلیک میلنگ شروع کر دی ۔ امریکہ نے بھارت کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے حال ہی میں 2.1بلین ڈالر کے 8 عدد P-8 Poseidons, Multimission, Maritime Air Craft دینے کا معاہدہ کیا ہے۔
اسی طرح دوستی کے روپ میں بھارت بھی امریکہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے ۔ بھارت امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو کر سیکورٹی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جرمنی، جاپان اور برطانیہ پہلے ہی بھارت کی یہ خواہش مان چکے ہیں لیکن امریکہ تاحال خاموش ہے۔ بھارت یہ آخری رکاوٹ دوستی کے روپ میں عبور کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا بھارت امریکہ کی مدد سے پاکستان کوبھی سبق سکھانا چاہتا ہے ۔ افغانستان اور وسط ایشیاء کی ابھرتی ہوئی منڈیوں پر قابض ہونا چاہتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت جو دل چاہے بیان دیتا رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت سے بہت خائف ہے۔ بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ چین کا مقابلہ کسی طرح بھی نہیں کر سکتا۔ بھارتی فوجی قائدین بار بار ایسے بیانات دے چکے ہیں کہ انہیں پاکستان کی نسبت چین سے زیادہ خطرہ ہے۔ ان حالات میں امریکہ وہ واحد طاقت ہے جو بھارت کا سہارا بن سکتی ہے لہٰذا دونوں ممالک ایک دوسرے کے ذریعے اپنے اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی اس دوستی کی بنیادوں میں کئی ایسی دراڑیں موجود ہیں جو شاید زیادہ پریشر برداشت نہ کر سکیں۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی دوستی کسی بھی ملک کے ساتھ مستقل نہیں ہوتی۔ یہ امریکی صدور کے ذاتی خیالات کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً بش ایڈمنسٹریشن بہت زیادہ بھارت نواز تھی اور سول نیو کلیئر انرجی معاہدہ بھی اُسی دور میں 10اکتوبر 2008ء کو مکمل ہواجسے ’’123 ایگریمنٹ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ بش حکومت کے خاتمے کے بعد اوبامہ حکومت کی اپنی ترجیحات سامنے آئی ہیں ۔ وہ بھارت آنے کی بجائے پہلے چین چلے گئے اور وہاں کئی ایک معاہدے بھی کئے جس کا بھارت کو بہت دکھ ہوا۔ ایک مرحلے پر تو باراک اوبامہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بھی بات کی جس سے بھارت بہت پریشان ہوا ۔پھر بھارت اورامریکہ کا تعاون برابری کی بنیاد پر ممکن ہی نہیں کیونکہ امریکہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں اور لیڈر شپ کو مسلّم سمجھتا ہے۔ جبکہ بھارت اس وقت تک محض ایک ترقی پذیر ملک ہے ۔ امریکہ تو بھارت سے اپنے احکامات منوا سکتا ہے لیکن بھارت ایسا نہیں کر سکتا ۔ ہاں البتہ بھارت کے پاس بلیک میلنگ کا ایک ہتھیار ایسا ہے جو اب تک کافی کارگر ثابت ہوا ہے اور وہ ہیں امریکہ میں رہائش پذیر بھارتی باشندے جن کی تعداد اس وقت 27.5لاکھ کے قریب ہے۔ یہ لوگ وہاں اعلیٰ ٹیکنیکل اورمیڈیکل عہدوں کے علاوہ امریکی ریسرچ اور تکنیکی اداروں میں تربیت یافتہ مین پاور ہونے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ امریکی الیکشن اور یہودیوں کے ساتھ مل کر امریکی میڈیا میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بھارت امریکہ تعلقات میں یہ لوگ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
جہاں تک برابری کے تعلقات کا سوال ہے امریکہ نے آج تک کسی ملک کے ساتھ برابری کی سطح پر بات نہیں کی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ کسی ملک کو اپنے برابر ماننا امریکی سائیکی میں شامل نہیں۔ وہ اپنی پالیسیاں چاہے وہ معاشی ہوں یا دفاعی خود تشکیل دینے کے بعد اپنے اتحادیوں کو ان پالیسیوں پر عمل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اسی میں وہ اپنی سلامتی سمجھتا ہے ۔ اس کے اتحادی ممالک کا جتنا بھی نقصان ہو امریکہ کو اس کی پرواہ نہیں ۔ جبکہ بھارت اپنے آپ کو ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت سمجھتا ہے۔ وہ پورے بحرِ ہند پر قبضے کے علاوہ اردگرد کے ممالک کوبھی اپنے دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت اپنی ذاتی شناخت بنانے کے لیے کردار ادا کرتا ہے تو یقینا یہ امریکی پالیسیوں کے خلاف ہو گا۔ کیا امریکہ ایسا برداشت کر سکے گا ؟ ایک بہت بڑا سوال ہے ۔ امریکی سائے کے نیچے رہ کر کیا بھارت اپنی آزادانہ اور امریکہ مخالفت پالیسیاں جاری رکھ سکے گاکیونکہ بھارت تو ’’غیروابستہ ممالک تحریک‘‘ کا ممبربھی ہے۔
امریکہ اس وقت پوری دنیا کا فوجی محافظ بنا ہوا ہے۔ ایک عالمی جنگ لڑ رہا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا مالک ہے۔ جبکہ بھارت تو ابھی تک اپنے ٹینک بھی تیار نہیں کر سکا۔ امریکہ کا فوجی بجٹ اس سال 663.7بلین ڈالرز ہے جبکہ بھارت کا دفاعی بجٹ محض 32.7بلین ڈالرز ہے۔ لہٰذا ان دونوں ممالک کا برابری کی بنیاد پر کیا تعاون ممکن ہو سکتا ہے؟ سوچا جا سکتا ہے ۔مل کر فوجی ایکسر سائزز کرنا اور بات ہے ۔
اس تعاون کا ایک پہلو چین اور پاکستان کی اس خطّے میں موجودگی بھی ہے ۔ امریکہ نے کوشش تو کی تھی کہ بھارت کو ایشیائی طاقت بنا کر چین کے مدِ مقابل کھڑا کیا جائے لیکن یہ حقیقت جلدہی واضح ہو گئی ہے کہ بھارت آئندہ مستقبل قریب میں چین کے مدِ مقابل فوجی طاقت بن ہی نہیں سکتا کیونکہ اُس کے پاس جدید ہتھیار بنانے کی تاحال صلاحیت نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ روسی اسلحہ کے بل بوتے پر جنگ لڑتا رہا ہے اور اب شاید امریکی ہتھیاروں سے لڑے گا ۔ لیکن امریکی اتنے بے وقوف نہیں کہ وہ چین کو ناراض کریں گے۔ یاد رہے کہ کوئی ملک بیرونی ممالک کے ہتھیار خرید کر فوجی طاقت نہیں بن سکتا اور بھارت کی موجودہ صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔
بھارت امریکہ تعاون نے پاکستان اور چین کو مزید ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے ۔ دفاعی اور سٹرٹیجک تعاون بڑھا ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے تیزی سے دفاعی خود مختاری کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ چین نے اپنے ملکی دفاع سے باہر نکل کر پہلی دفعہ علاقائی دفاع میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ ہی دن پہلے چین نے پاکستان سمیت کچھ ممالک میں اپنے دفاعی اڈے قائم کرنے کی بات کی ہے ۔اُس دن سے لے کر آج تک’’ امریکی ہرکارے‘‘ مسلسل اسلام آباد کے دورے کر رہے ہیں۔پاکستان کو 1.2بلین ڈالرز کی فوجی امداد دینے کا عندیہ بھی دیا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے کی بات کی ہے کیونکہ پاکستان چین تعاون سے پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ بدل جائیگی اور یہ وہ آخری بات ہو گی جو بھارتی یا امریکی برداشت کر سکتے ہیں۔ وہ چاہیں یا نہ چاہیںبہر حال حالات اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ بھارت تعلقات علاقے میں کشیدہ حالات کی کسوٹی پر ٹسٹ ہونا تا حال باقی ہیں۔